ہفتہ، 17 مارچ، 2018

پانی کا عالمی دن


پانی کا عالمی دن
سردی اپنے عروج پر تھی ہاتھ پاؤں ٹھٹھر رہے تھے۔ میں گرم گرم سانسیں فضاء میں چھوڑ کر  اس سے بننے والے  مختلف  نقش و نگار  کو دیکھنے کے مشغلے میں مصروف تھا کہ مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے آذان سنائی دی۔ آذان سنتے ہی  وضو کے خیال سے ایک یخ بستہ  لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ  سردیوں میں صبح 7 بجے سے  رات 11بجے تک ہوتی تھی، پتہ نہیں حکومت رات 11 بجے کن صارفین پر رحم کر کے گیس  کی سپلائی بحال کر دیتی تھی۔ خیر گرم گرم لحاف چھوڑ کر مسجد کی جانب چل پڑا وہاں پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ مسجد کا انسٹنٹ الیکٹرک گیزر چل رہا ہے میری جان میں جان آئی  دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور ایک لوٹے میں گرم اور ٹھنڈا پانی ملا کر وضو کرنے لگا۔ چونکہ گیزر میں پانچ لیٹر پانی گرم کرنے کی گنجائش تھی اس لئے نمازی عام طور پر پانی لوٹوں میں مکس کر کے وضو کرتے تھے تا کہ پانی کا ضیاء کم سے کم ہو مگر اس دن کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نو عمر لڑکا گرم پانی کے نلکے سے ہی وضو کر رہا ہے اور نلکا بھی بلا ضرورت کھول رکھا ہے۔  پانی بھر کے لوٹتے ہوئے میں نے اسے کہا بیٹا وضو کے لئے پانی لوٹے میں استعمال کریں یا نلکا کم کھولیں تا کہ پانی کم سے کم ضائع ہو۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے نوجوان نے پہلے تو مجھے گھور کے دیکھا کہ یہ کس دنیا کا باسی ہے پھر نلکامزید تیز کر کے وضو کرنے لگا۔ اس کی اس حرکت پر مجھے تھوڑا غصہ آیا اور جب میں نے اس کی طرف نگاہ کی تو وہ فاتح مسکراہٹ کے ساتھ وضو مکمل کر چکا تھا۔  میں نے اسے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ اس نے میری بات نہیں سنی یا اس کا رویہ اخلاقیات سے ہٹ کر تھا بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ ہم نے معاشرتی اور سماجی سطح   پر لوگوں کی اس سمت تربیت ہی نہیں کی  اور نہ ہی اس بات کو ضروری سمجھا ہے۔
نبی رحمت حضور اکرم ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ؛
حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سعد کے پاس سے گزرے۔ وہ وضو کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ کیا اسراف ہے! حضرت سعد نے عرض کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟  (حالانکہ یہ ایک نیک کام میں خرچ کرنا ہے) فرمایا جی! اگرچہ تم جاری نہر پر (وضو کر رہے ہو)۔

دوسری جگہ ارشاد مبارک ہے کہ؛
حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا اسراف نہ کرو،  اسراف نہ کرو۔
جس دین کی تعلیمات ہی میانہ روی کا درس دیتی ہوں وہاں اس طرح کے رویے اگر عام دیکھنے کو ملیں تو سمجھنے میں ذرا برابر بھی شک نہیں گزرتا کہ اس دین کے مبلغین نے دین کی اصل تعلیمات کی بنیاد پر لوگوں کی تربیت نہیں کی، دین کے مبلغین کو ہی کیوں مورد الزام ٹھہرائیں کیا یہ حکومت وقت کی کوہتاہی نہیں ہے کہ اس نے افراد کی انفرادی اخلاقی و عمرانی  تربیت کی طرف توجہ نہیں کی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہم لوگ خود (والدین) اس غفلت کے مرتکب ہیں کہ ہم اپنی نوجوان نسل کے لئے وقت نہیں نکالتے اور نہ انہیں صحیح وغلط اور حلال وحرام  کی تمیز سیکھاتے ہیں  اور نہ ہی مثبت معاشرتی رویوں کو پروان چڑھانے میں انکی رہنمائی کرتے  ہیں۔ اسلام اور تہذیب یافتہ معاشرہ ہمیں یہ سیکھاتا کہ اسراف سے بچو، نمود نمائش سے پرہیز کرو، اپنے صدقات سے دوسروں کی مدد کرو جبکہ  ہم زندگی کے ہر شعبہ میں اسراف سے کام لیتے ہیں،  آجکل ہمارا  ہر عمل نمائش سے بھر پور ہوتا ہے اور صدقات کے لئے ہمیں کوئی مستحق ہی نہیں ملتا ۔  دین مبین ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ "صفائی نصف ایمان ہے" مگر زمینی حقائق دیکھ کر نہیں لگتا کے ہم جو محبت کے دعو ےکرتے  ہیں ان میں سچے ہیں کیونکہ ہمارے گھر، گلی محلے، شہر، سیاحتی مراکز کوڑے کے ڈھیر بنے ہوئے ہیں، مساجد کے واش رومز کی صفائی کا حال بہت ابتر ہے ۔ ہمارے پارک، کھیل کے میدان، ساحل اور ہائیکنگ ٹریل و ٹریکس شاپروں اور ریپروں سے اٹھے پڑے ہیں  تو پھر کیا ہم اس حدیث مبارکہ "صفائی نصف ایمان ہے" پر کتنا یقین رکھتے ہیں؟ یہ آپ خود ہی اپنے آپ سے پوچھ لیں۔
دنیا میں 22 مارچ "پانی کے عالمی دن" کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے اسے عالمی دن کے طور پر 1993 سے منانا شروع کیا، اس سال 2017 میں اس دن کا تھیم "گندے نالوں کا پانی یعنی Wastewater" ہے۔  پاکستان میں پانی کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں  اور بہت سے علاقوں میں خشک سالی سے بہت سے مسائل ہیں جیسے تھر میں پانی اور خوراک کی قلت سے بہت زیادہ جانی نقصان ہو چکا ہے۔ صاف پانی کا نہ ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے حل کے لئے حکومت نے فلٹریشن پلانٹ نصب کئے ہیں مگر یہ پلانٹ دور دراز دیہی علاقوں میں دستیاب نہیں۔پہاڑی علاقوں میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے ہماری خواتین بہت دور دور سے پانی سروں پر لانے کے لئے مجبور ہیں۔  مگر اسی پاکستان میں ایسے شہر اور علاقے بھی موجود ہیں کہ جہاں پانی کے اسراف کو جرم نہیں سمجھا جاتا اور اسکا بے جا اور غیر ضروری استعمال کیا جاتا ہے۔ میں اپنے گرد و پیش کی چند مثالیں پیش کروں گا  تا کہ آپ معاملے کی حساسیت کا اندازہ لگا سکیں ۔
ہمارے گھر(راولپنڈی) میں  ٹیوب ویل کا پانی آتا ہے جو صبح شام مقررہ اوقات میں کھولا جاتا ہے۔ اکثر گھروں میں زیر زمین پانی کے ٹینک بنے ہوتے ہیں مگر جب وہ ٹینک بھر جاتے ہیں تو پانی اوور فلو ہونا شروع ہو جاتا ہے اگر پانی دو گھنٹے کے لئے کھولا جائے تو آدھے گھنٹہ میں ٹینک بھر جاتا ہے باقی ڈیڑھ گھنٹہ پانی ضائع ہوتا ہے مگر اکثر گھروں کے مالکان "فلوٹ وال" خرید کر نہیں لگاتے جو پانی بھرنے کی صورت میں خود بخود بند ہو جاتا ہے۔ یہ غیر ذمہ داری صرف اور  ٖصرف احساس ذمہ داری کے فقدان اور سماجی تربیت کی کمی کا نتیجہ ہے۔ اس لاپرواہی کے ذمہ دار گھر کے مرد حضرات ہیں جو کہ "فلوٹ وال" خرید کر نصب نہیں کرواتے اور کسی حد تک خواتین بھی جو کہ ان کی توجہ اس طرف مبذول نہیں کرواتیں۔  ایک اور رویہ مشاہدے میں آیا کہ لوگ پینے کے لئے پانی ٹیوب ویل سے لینے جاتے ہیں۔ ہر آدمی نلکا  کھول کر اپنے برتنوں کو پہلے دھوتا (کھنگالتا)ہے اگر وہ گھر سے برتن دھو کر لائیں تو وقت اور پانی دونوں کی بچت ہو۔ لوگ عام طور پر کولڈ ڈرنکس کی چھوٹی چھوٹی بوتلیں استعمال کرتے ہیں جتنا پانی ان میں بھرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ گرا دیا جاتا ہے لیکن اگر اس طرف توجہ مبذول کروائی جائے تو لوگ لڑنے کے لئے کمر کس لیتے  ہیں ۔  
دوسری مثال بھی بہت عمومی سی ہے کہ پانی کی موٹر آن کر کے خواتین گھریلو کام کاج یا ساس بہو کے ڈراموں میں مگن ہو جاتی ہیں بچے اور مرد بلترتیب سکولوں اور آفسز میں چلے جاتے ہیں ۔ پانی اوور فلو ہو کر گرتا رہتا ہے مگر موٹر بند کرنے کی کسی کو یاد نہیں ہوتی۔ بعض اوقات ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ موٹر آن کر کے صاحب خانہ  شاپنگ کرنے یا کسی ضروری کام سے باہر چلے جاتے ہیں اور پانی ضائع ہوتا رہتا ہے۔ یہ بھی انتہائی غفلت اور غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔  تیسری مثال اسلام آباد کے اندر دیکھی جا سکتی ہے کہ پورچ کے باہر گاڑی کھڑی ہے اور پانی فل پریشر سے پلاسٹک کے پائپ میں آ رہا ہے۔  صاحب صرف سے گاڑی کے ٹائر صاف کر رہے ہیں، شیشے اور چھت کو رگڑ رگڑ کر صاف کیا جا رہا ہے اور پانی کا پائپ پاس پڑا ہوا ہے۔  ایک گاڑی دھونے  کے لئے گھنٹہ بھر وہ پانی اسی طرح کھلا رہتا ہے مگر یہ احساس نہیں ہوتاکہ ہم اس نعمت خداوندی کو ضائع کر کے ناشکری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ صرف ایک شہر کی بات نہیں ہمارے ہر شہر اور ہر گلی میں یہ مسائل اسی طرح ہیں ۔
میں سمجھتا ہوں جہاں ہم نے سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم میں ترقی کی  ہے وہیں ہم  رواداری، برداشت اور  اخلاقیات میں زوال پذیر ہوئے ہیں۔ ہم نے اپنے بچوں کو کبھی یہ نہیں سیکھایا کہ وہ زندگی کیسے گزاریں۔ دوسروں سے معاملات کیسے رکھیں، چیزوں یا نعمتوں کا استعمال کیسے کریں۔  ہمارے حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ وہ اسمبلی فلور پر ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جس پر بعد میں خود انہیں معافیاں مانگنی پڑتی ہیں۔ ہمارے علماء کو ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے سے فرصت نہیں اور ہمارے اکثر  تعلمی اداروں کا یہ حال ہے کہ وہاں غیر اخلاقی سرگرمیوں کے علاوہ نشے کے عادی گریجوایٹس فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔  ہمیں سائنسی علوم، کمپیوٹر اور درس نظامی کے ساتھ ساتھ بچوں اور معاشرے کو یہ تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم معاشرے کے قابل اور مفید ممبر کیسے بن سکتے ہیں۔
قارئین! پانی حیات ہے، پانی زندگی ہے، پانی کی قدر ان لوگوں سے پوچھیں جو اس کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ جو میلوں دور سے پانی سروں پہ رکھ کر لاتے ہیں جن کے جانور پانی نہ ملنے سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتے ہیں، جنہیں پینے کے لئے صاف پانی میسر نہیں اور وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پانی گدلا ہے، اسے  پینے پر مجبور ہیں۔ آئیں آج یہ عہد کریں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اس بے پایاں نعمت کی قدر کریں گے اور اس کا اسراف  نہ کر کے اسے ضائع ہونے سے بچائیں گے۔   میں اپنی بات کا اختتام اس آیت مباکہ کے ساتھ کروں گا۔
"وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا ، آسمان کی چھت بنائی ، اُوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا ۔ پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مد مقابل نہ ٹھہراؤ"  (البقرۃ ، رکوع نمبر 3، آیت نمبر 22)۔

تحریر: ابرار حسین گوجر

کوئی تبصرے نہیں: