جمعرات، 21 ستمبر، 2017

سوشل میڈیا اور ہمارے بچے



سوشل میڈیا اور ہمارے بچے

میڈیا انسانوں کی زندگی میں تبدیلی لاتا ہے  مگر ملکی  اقدار کا امین ہوتا ہے۔ میڈیا  ملک کے تہذیبی وثقافتی ورثہ کا محافظ، اخلاقی قدروں  اور مذہبی رواداری کے فروغ کا پابندہوتا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ معاشرتی طور پر ذمہ دار میڈیا ہی ملکی ترقی اور نئی نسل کی تربیت میں فعال کردار ادا کر سکتا ہے۔ جدید دور میں میڈیا کو کسی بھی ریاست کا چوتھا ستون اسی تناظر میں کہا جاتا ہے کہ وہ حکومت وقت کے ان فیصلوں اور پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتا ہے جو ملک وقوم کے مفاد میں نہ ہوں۔  پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے برعکس سوشل میڈیا نے جہاں ہماری زندگیوں میں انقلاب برپا کیا ہے وہیں اس سے بہت سی معاشرتی اور مذہبی اقدار کو ٹھیس بھی پہنچی ہے۔ آج جہاں ایک طرف ہمیں سوشل میڈیا کے توسط سے نت نئی دوستیاں کرنے ،احساسات ، اپنے تجربات شیئر کرنے اور دوسروں کی زندگیوں سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے وہیں نا پختہ اور بیمار ذہن لوگ اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے لوگوں کے جذبات اور ان کے عقائد کے ساتھ کھیلنے سے بھی نہیں کتراتے۔ سوشل میڈیا پر ہزاروں فیس بک اور ٹیوٹر اکاؤنٹس ایسے ہیں جن کے ذریعے مختلف تنظیمیں ، گروہ اور افرادلابنگ کرتے ہیں اور دوسروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے اکاؤنٹس جو لوگوں کے مذہبی و ملی جذبات مجروع کرتے ہیں، تشدد و بے راہ روی کا پرچار کرتے ہیں اورفحاشی و عریانی کے فروغ کا سبب بنتے ہیں۔ یہ اکاؤنٹس معاشرتی بگاڑ کی بنیاد ہیں ۔ میڈیا (سوشل ، پرنٹ و الیکٹرونک) کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ملکی سلامتی، عزت و وقار کا سرعام مذاق اڑائےیا مقدس ہستیوں اور مذہبی عقائد کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کرے۔ بلاشبہ اختلاف رائے معاشرے کا حسن ہے مگر اختلاف رائے کی آڑ میں کسی طبقے کی تذلیل قابل مذمت ہے۔

ماضی قریب میں جسٹس شوکت حسن صدیقی نےتوہین رسالت ﷺ کے مرتکب گروپ ایڈمن اور پیجز کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے جب حکومت کو کہا تو ہر شخص نے ان کے اس اقدام کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا  کیونکہ عوام میں پہلے ہی اس سلسلے میں بے چینی پائی جا رہی تھی۔ حکومتی اقدامات کے علاوہ ہر شخص انفرادی طور پر سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کو یقینی بنائے تو اس سے نہ صرف ہماری اپنی ذات کو فائدہ ہو گا بلکہ معاشرتی طور ہم دوسروں کی رہنمائی کے قابل بھی ہو سکیں گے۔ بچوں میں ہم یہ صلاحیت (سکل) پیدا کر سکتے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا کا بہتر اور مفید استعمال کرنے کے قابل ہو جائیں۔  آج کے دور میں ہم بچوں پر سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی نہیں لگا سکتے اور نہ ہی انہیں پابند کر سکتے ہیں کہ وہ انٹرنیٹ کا استعمال نہ کریں کیونکہ آجکل انٹرنیٹ معلومات اور ریسرچ کا بہت بڑا ذریعہ ہے، اسکا استعمال آج کے انسان کے لئے لازم و ملزوم ہو گیا ہے۔ گوگل، یوٹیوب، وکی پیڈیا، فیس بک، واٹس ایپ رابطہ، ریسرچ اور علم کا سورس تصور ہوتے ہیں۔ اب یہ فیصلہ کرنا کہ ان ویب سائٹس کو بند کر دیا جائے حکمت، تدبر اور فراست سے عاری فیصلہ ہو گا۔ حکومت کو چاہئے وہ اب ویب سائٹس کے آفیشلز سے یہ مطالبہ کریں کہ ان سائٹس کے سرور پاکستان میں بنائے جائیں تا کہ توہین آمیز مواد کی نشاندہی اور اسے ہٹانے میں آسانی رہے۔ معاشرتی طور پر بھی ہمیں چند اصول وضح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس جدید ٹیکنالوجی سے موثر انداز میں  فائدہ اٹھا سکیں۔ ہمیں گھروں میں اپنے بچوں  کو ایسی تربیت کرنی ہو گی کہ وہ انٹرنیٹ کے نقصانات سے بچیں اور اس کے مثبت پہلو سے خوب ثمرات سمیٹیں۔

پاکستان میں "جنریشن گیپ" کی وجہ سے سوشل میڈیا کے بارے میں والدین اور بچوں کے درمیان بہت فاصلہ پایا جاتا ہے۔ جیسے والدین اس نسل سے ہیں جہاں "چادر اور چار دیواری" کا تصور بہت مضبوتی کے ساتھ قائم تھا مگر سوشل میڈیا  (فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام، گوگل پلس، واٹس ایپ وغیرہ) نے اس تصور کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ والدین بچوں سے ان کے معاملات پر بات نہیں کرتے، وہ ان کے مسائل ان کی روزانہ کی دلچسپیوں اور دوستیوں سے متعلق نہیں جانتے۔ وہ بس اتنا جانتے ہیں ہمارا بیٹا یا بیٹی انگلش میڈیم سکول میں پڑھ رہے ہیں،  جس کی ہم ہزاروں روپے فیس دے رہے ہیں ، ان کی ہر مادی ضرورت کا خیال رکھتے ہیں، انہیں کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیتے اور وہ بہت محنت کر رہے ہیں ہر وقت کمرے میں پڑتے رہتے ہیں ۔ اب جس بیٹے  یا بیٹی کے پاس اینڈرائیڈ ، لیپ ٹاپ اور وائی فائی ہو وہ کمرہ بند کر کے ہر وقت پڑتا رہے یہ ایسے ہی ہے جیسے"دودھ کی رکھوالی بلی ہو"۔
ہم مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں توسوشل میڈیا  سے بہت سے فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔

صحبت نیک و بد:
جب ہم عام زندگی میں دوستیاں بناتے ہیں تو بہت خیال رکھتے ہیں کہ یہ شخص کیسا ہے، اس کا اخلاق، بول چال اور اٹھنا بیٹھنا کیسا ہے، تعلق واسطہ اور  معاملات کا کیسا ہے؟  مگر سوشل میڈیا پر دوستیاں بناتے ہوئے ہم یہ خیال نہیں رکھتے۔

 صوفی بزرگ میاں محمد  بخش ؒ کا کلام ہے؛
؎         مالی دا کم پانی دینا، بَھر بّھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پَھل پُھل لانا، لاوے یا نہ لاوے

نیکاں دے سنگ نیکی کرئیے نَسلاں نہیں بُھلاندے
بُریاں دے سنگ نیکی کرئیے اُلٹا ضُعف پُہنچاندے

مُورکھ نُوں کِیہ پند نصیحت، پَتھر نُوں کیہ پالا
دُودھاں اندر کاگ نُوہائیے، اَنت کالے دا کالا
بُرے بندے دِی صُحبت ایویں جویں دکان لوہاراں

چُھنگھ چُھنگھ کے لکھ کپڑے بَہیے چِنگاں پین ہزاراں

جِنہاں درد عشق دا ناہیں، کد پھل پان دیداروں؟
جے رب روگ عشق دا لاوے لوڑ نئیں کوئی داروں

نیک ، اچھے اور سلجھے ہوئے لوگوں کی محفل سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔سوشل میڈیا پر ہمیشہ ان لوگوں سے دوستی کریں جو اچھی پوسٹیں کرتے ہوں (معلومات ، تعلیم و تربیت ، حالات حاضرہ ، تجربات پر مبنی اور اخلاقیات و  مذہب کی روح کے مطابق)۔ داناء کہتے ہیں نیک فطرت اور پاک طینت لوگوں کو مے خانے میں بھی اچھے لوگ مل جاتے ہیں اور اسی طرح بری عادات و بد خصلت آدمی مسجد میں بھی اپنے مطلب کا دوست تلاش کر لیتا ہے۔ انسان کو نیک فطرت پر بنایا گیا ہے وہ ہمیشہ اچھائی کو ترجیح دیتا ہے مگر شیطان برائی کو جاذب نظر اور خوش کن انداز میں پیش کرتا ہے، اس لئے بھٹکنے کا اہتمال زیادہ ہوتا ہے۔  میری آج کے والدین سے گزارش ہے کہ سوشل میڈیا خود بھی استعمال کریں، اچھے دوست تلاش کریں، اچھے گروپس اور پیجز تلاش کریں بیسیوں لوگ ہیں جو مثبت انداز میں کام کر رہے ہیں۔  چند ایک پیجز اور گروپس کے بارے میں بتانا چاہوں گا مثلا طفلی، شعور، انفارمستان، ہماری بیٹھک وغیرہ ۔ آپ ان لوگوں ، ان پیجز اور گروپس کے ساتھ خود  بھی بہت کچھ سیکھیں  گے اور بچوں کو بھی بہت سی دلچسپ معلومات  ملیں گی۔  

افراد، پیجز اور گروپس جو لغو گوئی، فحاشی و عریانی،  طبقاتی، گروہی و لسانی تفریق، مذہبی تفریق یا تفرقہ بازی میں ملوث ہوں ۔ تشدد پسندانہ رجحانات کی تبلیغ کرتے ہوں یا ملکی و ملی اقدار کا،  شرعی مسائل اور ادیان (خصوصا دین اسلام کا)  کا مذاق اڑاتے ہوں انہیں فورا خدا حافظ کہہ دیں کیونکہ ان سے آپ کو کوئی نفع نہیں ہونا بلکہ اس سے آپ انتشار کا شکار ہوں گے اور نہ ہی انہیں سمجھانے کی غلطی کیجئے گا کیونکہ انہیں  سمجھاتے  سمجھاتے آپ اپنا ایمان متزلزل کر بیٹھیں گے۔ جب آپ کو سوشل میڈیا کا ستعمال آئے گا تو پھر آپ اپنے بچوں کے اکاؤنٹس پر بھی نظر رکھ سکیں گے ان کی پوسٹس، ٹویٹس اور ایکٹیوٹیز  کے بارے میں جان سکیں گے۔

بچوں کے دوست بنیں:
آپ کے سامنے ایک بنچ پر دو آدمی قریب قریب  بیٹھے ہیں مگر وہ آدھا گھنٹہ ایک جگہ بیٹھے رہنے کے باوجود ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے تو آپ کے لئے اندازہ لگانا مشکل نہیں  کہ یقینا وہ " باپ بیٹا " ہیں۔  یہ آج ہمارے معاشرے کا  المیہ ہے کہ ہم گھر کے سوا  ہر جگہ ملنساری، خوش طبعی اور ہمدرد ی سے پیش آتے ہیں لیکن جوں ہی گھر میں قدم رکھتے ہیں ساری اخلاقیات، تہذیب اور بزلہ سنجی ہوا ہو جاتی ہے۔ اس رویہ کو ہمیں خیر باد کہنا ہو گا کیونکہ ہمارے اس رویہ سے ہمارے بچوں میں اعتماد کی کمی، احساس محرومی اور  بزدلی جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور وہ سوشل میڈیا پر ایسے دوستوں کو تلاش کرتے ہیں جو ان کے دکھ، ان کے جذبات اور ان کے خیالات  کو سمجھ سکیں اور انہیں دوستیوں سے جہاں بہت سے فوائد ہوتے ہیں وہیں مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ اس  لئے بچوں سے دوستی رکھیں انہیں اعتماد دیں، ان سے سوشل میڈیا کے حوالے سے سیکھیں ان کے دوستوں کی پوسٹیں دیکھیں اور اچھے دوستوں کی پوسٹس پر کمنٹس کریں۔ مختلف آئیدیاز پر ڈسکس کریں نئے رجحانات پر بات کریں تا کہ وہ ہر بات آپ کے ساتھ شیئر کر سکیں اور آپ سے کترائیں نہ آپ سے ڈرے ڈرے سہمے سہمے نہ رہیں بلکہ آپ ان پر اور وپ آپ پر اعتماد کر سکیں۔

پاسورڈ اور پرائیویسی:
پرائیویسی کی اصطلاح ہمارے ہاں نہیں تھی، کیونکہ ہمارے معاشرے میں ماں باپ، بہن بھائیوں اور گھر میں موجود افراد سے کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں ہوتی تھی۔ گھر کے افراد اپنے مسائل، اپنی خوشیاں اور اپنے جذبات دوسروں سے شیئر کرتے تھے  جسے ہم اپنی زبان  میں "دُخی سُخی" کہتے ہیں۔ اس شیئرنگ سے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا تھا، ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا تھا اور باہمی محبت جنم لیتی تھی۔ دور جدید آیا سوشل میڈیا نے رابطوں کو آسان کیا مگر گھر کے افراد سے تعلق کمزور سے کمزور ہوتا چلا گیا۔ اب ہم سوشل میڈیا پر اپنی سالگرہ منا رہے ہوتے ہیں جبکہ پاس بیٹھے بہن بھائیوں کو خبر نہیں ہوتی۔ ہم واٹس ایپ پر محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہوتے ہیں اور والدین خوش ہو رہے ہوتے ہیں ہمارے بچے کتنے ذہین ہیں۔

پرائیویسی نام پرہم نے اپنے دراز ، الماری، بیگ کو لاک لگایا ہوتا ہے۔ اینڈرائیڈ، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹرپر سیکیورٹی لاک یا پاسورڈ لگایا ہوتا ہے ۔۔۔ حتیٰ کہ موبائل ایپلی کیشنز  پر الگ الگ پاسورڈ لگائے ہوتے ہیں۔  ایک عام سا اصول گھر میں اپنا لیں "جو چیز چھپ کر کی جائے وہ غلط ہے" لہٰذا والدین سمیت گھر کے کسی فرد کو اپنے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور اینڈرائیڈ پر پاسورڈ لگانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ یہ تمام ڈیوائسز  سر عام (اوپن) استعمال ہوں گی۔ اس اقدام سے باہمی اعتماد بڑھے گا اور ہر فرد محتاط رہے گا۔

وقت مقرر کریں:
کسی بھی چیز کی زیادتی نقصان دہ ہے۔ اس لئے بچوں کے ساتھ مل کر  ایک روٹین بنائیں کہ ہم نے اس وقت سے اس وقت تک سوشل میڈیا  (فیس بک، واٹس ایپ، گوگل پلس، ٹویٹر وغیرہ) استعمال کرنا ہے۔ اس کام کے لئے ایک گھنٹہ بہت ہے۔ اس میں آپ اپنے میسجزدیکھ سکتے ہیں، پوسٹس شیئر کر سکتے ہیں اور دوسری ایکٹیوٹیز کر سکتے ہیں۔ پڑھنے کا وقت مقرر کریں ، فیملی کے ساتھ بیٹھنے گپ شپ کرنے کا بھی وقت متعین کریں تاکہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ بچے گھر کے افراد سے بھی مانوس ہوں۔ بہت سے خاندان ایسے دیکھے ہیں جو اپنے بچوں کو کسی اچھے سکول سے تعلیم دلوا رہے ہوتے ہیں اور بھاری بھرکم فیسیں ادا کرتے ہیں۔ وہ چاہتے  ہیں بچے ہر وقت پڑھتے ہی رہیں یہاں تک کہ بچوں اور گھر میں موجود بزرگوں میں تعلیم دیوار چین بن گئی ہے۔ والدین خاندان کی تقریبات پر بچوں کو نہیں لے کر جاتے جس کی وجہ سے بچے سوشلی الگ سے ہو جاتے ہیں اور سوشل میڈیا انہیں اس معاشرتی تنہائی سے بچاتا ہے مگر اس پر آپ کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔  اچھی نیند صحت کے لئے لازم ہے گھر میں یہ عادت اپنائیں کہ رات کو جلدی سونا ہے اور صبح جلدی اٹھنا ہے۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ہمارے سونے اور اٹھنے کے اوقات میں بہت فرق آ گیا ہے جس سے صبح خیزی جیسی نعمت سے محروم رہتے ہیں۔  بچوں کو اسلام کے بارے میں بتائیں۔ دین کی معاشرتی اور اخلاقی تعلیمات سے روشناس کروائیں تاکہ اچھائی برائی ، حلال حرام اور نیک و بد کا تصور ان کے ذہنوں میں پختہ ہو۔

ایک اچھا فرد ہی محب وطن شہری بن سکتا ہے۔ اس لئے آج کے تقاضوں کے مطابق خود بھی تیار ہوں اور اپنے بچوں کو بھی تیار کریں ۔ اپنے اور ان کے درمیان فاصلے کو کم سے کم کریں،  ان کے مسائل پر ان کی سطح پر جا کر سمجھیں اور حل کرنے کی کوشش کریں۔  کیونکہ؛

؎         افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

تحریر: ابرار حسین گوجر

بدھ، 20 ستمبر، 2017

ناران کاغان کی سیر

ناران بازار
 ناران کاغان کی سیر
سیر و سیاحت کا شوق ہر ایک کو ہوتا ہے مگر نفسا نفسی اور مادیت پرستی کے اس دور میں ذریعہ معاش کے جھمیلوں اور گوناں گوں ذمہ داریوں سے وقت نکال کر اللہ رب العزت کے تخلیق کردہ پہاڑوں، ندی نالوں، جھیلوں، آبشاروں، چشموں  اور گلیشیئروں کا نظارہ کرنا ، جنگلات اور چراہ گاہوں سے آنکھیں خیرہ کرنا، مظاہر قدرت سے اپنے قلوب کو منور کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ناران کاغان کی سیر ہر دل کی آرزو ہے وہ دیس جہاں شہزادہ سیف الملوک اور پری بدی الجمال کی رومانویت ہر طرف بکھری پڑی  ہے۔ اس تخیلاتی جنت کودیکھنے کی خواہش ایک عرصہ سے دل میں تھی مگر کبھی مصروفیات میں سے  وقت نکالنا مشکل ہوا تو کبھی زاد راہ کی قلت کا سامنا رہا، مگر اگست 2017 وہ  خوش قسمت ماہ و سال ہے جس میں مجھے اس جنت عرضی کی سیر کا موقع ملا۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ میں وہاں کا آنکھوں دیکھا حال یہاں نہیں لکھ سکتا  کیونکہ جو دلربا مناظر میں نے دیکھے، جو فرحت و تازگی میں نے وہاں محسوس کی، جو رومانویت، نغمگی اور سر مستی ان فضاؤں میں ہے،  جو شوگراں میں مخملی گھاس کی قالین بچھی ہے، جو جھیل سیف الملوک کا لینڈ سکیپ ہے ، جو درہائے کنہار کا جوش خروش  ہے اور جو  آنکھ مچھولی وہ بالاکوٹ سے جھیل لولو سر تک آپ سے کھیلتا ہے،  اسے کسی طرح بھی الفاظ کی زبان سے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ الفاظ کا دامن تنگ ہے اور کیفیات  و جذبات کا سمندر بے بہا اور بے کراں ہے۔  اس کے لئے آپ کو وقت نکال کر، کچھ سرمایا خرچ کر کے اس علاقے کی سیر کے لئے جانا ہو گا۔  میرا یہ بلاگ لکھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اگر آپ وہاں جائیں تو اپنے وقت کو کیسے فائدہ مند بنا ئیں۔  ہم تین دن کا پلان بنا کر گئے لیکن بہت سی جگہوں سے عدم واقفیت اور وقت کا درست اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے کچھ پکنک  سپاٹ نہیں دیکھ سکے جسکا مجھے بہت افسوس ہے اور یہی افسوس بنیاد  ہے اس بلاگ کو لکھنے کی تاکہ آئندہ جانے والوں کے لئے کچھ بنیادی تفصیلات دے دی جائیں اور  وہ اپنے وقت کا بہتر استعمال کرتے ہوئے کم بجٹ میں ناران کاغان کی جنت نظیر وادی سے بھر پور طریقے سے لطف اندوز ہو سکیں۔


ناران 

وادی کاغان:
بالاکوٹ سے بابو سر ٹاپ تک کے علاقے کو وادی کاغان کہا جاتا ہے۔ یہ وادی (بالاکوٹ سے بابو سر ٹاپ تک) 800 مربع کلو میٹر  پر پھیلی ہوئی ہے ۔ بالاکوٹ اس وادی  کا دروازہ ہے  یہ وادی سطح سمندر سے 7500 فٹ (2134 میٹر سے 4173 میٹر)  بلند ہے جبکہ اس کی لمبائی تقریبا  150 کلو میٹر ہے۔  اس میں 9 چھوٹی بڑی جھیلیں ہیں اور اس کی چوٹیاں  17 ہزار فٹ تک بلند و بالا ہیں۔ وادی کاغان کا نام "کاغان" قصبے کے نام پر رکھا گیا ہے جو کہ بذات خود ایک بہت ہی خوبصورت قصبہ ہے۔  وادی کاغان میں مندرجہ ذیل  اقوام آبادہیں۔ گوجر (اکثریت ہے)، سواتی، سادات، مغل، کشمیری، کوہستانی  جبکہ  یہاں  ہندکو، گوجری، پشتو، پنجابی، سرائیکی اور اردو  بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس وادی کے مشہور کھیل   کبڈی، شکئی اور  کرکٹ ہیں۔   گندم، مکئی، چاول، مٹر، آلو، موٹھ اورگوبھی یہاں کی قابل ذکر فصلیں ہیں لیکن پورے علاقے میں قابل کاشت رقبہ صرف 5 فیصد ہے اس لئے پیداوار بہت کم ہوتی ہے۔ پھلوں میں  اخروٹ، سیب،  خوبانی اور عناب ہوتے ہیں ۔ اخروٹ کے درخت بہت زیادہ ہیں ۔ بالاکوٹ سے ناران تک اخروٹ  کے درخت سڑک کے کنارے لگے ہوئے ہیں  اگر آپ اگست میں جائیں تو ان درختوں پر اخروٹ لگے ہوں گے۔ اخروٹ چھال دنداسے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔  وادی کے جنگلات میں دیودار، چیڑ، کیکر ، بیارو کھپل کے درخت پائے جاتے ہیں۔ یہاں ایک حیرت انگیز پودا  "چاؤ " پایا جاتا ہے اس کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر  اسے سونگھا جائے توآدمی  فورا بے ہوش ہو جاتا ہے۔  شاید یہی وجہ ہے کے اس علاقے میں گھومنے والے سیاحوں پر ایک مدہوشی  اور سر مستی سی طاری رہتی ہے۔  وادی کاغان میں   گھوڑے، خچر، گدھے، کھن چوا، چیتا، نافہ، ریچھ، مرغ زریں، ہرن، چکور ، بلبل ، کستوری اور تیتر پائے جاتے ہیں۔  وادی مقامی ثقافت، لوک ریت ،  لوک موسیقی اور لوک دانش سے مالا مال ہے۔آج بھی  درشی منشی ، شہزادہ سیف الملوک و پری بدیع الجمال اور سوہنی و  لالہ کی لوک رومانوی داستانیں  وادی کے لوگوں کو ازبر ہیں۔ کچھ مقامی افراد یہ داستانیں سیاحوں کو  سناکر معاوضہ بھی لیتے ہیں۔ یہ لوک روایات سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہیں اور ہر نسل جاتے جاتے یہ ورثہ دوسری نسل کو منتقل کرتی جاتی ہے۔








دریاء کنہار کی سطح سمندر سے بلندی 14000 فٹ ہے۔  یہ جھیل دودی پت سر سے شروع ہوتا ہے راستے میں مختلف جھیلیں، ندی نالے اور نہریں ملتی ہیں۔ دریائے کنہار ناران، کاغان اور بالاکوٹ سے گزرتا ہوا مظفر آباد کے قریب پتن کے مقام پر دریائے نیلم و دریائے جہلم کے ساتھ مل جاتا ہے۔  دریائے کنہار دو الفاظ کا مجموعہ ہے یعنی کوہ "پہاڑ" اور نہار یعنی "نہریں" تو دریائے کنہار نہروں کے مجموعے کا نام ہے۔  پہاڑوں، ندی نالوں، جھیلوں، آبشاروں، چشموں اور گلیشیئروں کی یہ وادی موسم گرما (مئی تا ستمبر) میں سیاحوں کی منتظر رہتی ہے۔ مئی میں یہاں کا زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت 11 اور کم از کم 3 درجہ سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ جولائی کے وسط سے ستمبر کےاختتام تک ناران سے درۂ بابوسر کا رستہ کھلا رہتا ہے۔

دریائے کنہار (بالا کوٹ کے مقام پر)
دریائے کنہار کا ایک اور منظر

صبح صادق کے وقت دریائے کنہار کی موجیں 
بالا کوٹ:
صوبہ خیبر پختونخوا، پاکستان کے ضلع مانسہرہ کا ایک شہر جس کو تحصیل کا درجہ بھی حاصل ہے، یہ ضلع مانسہرہ کی سب سے بڑی تحصیل ہے۔ بالاکوٹ سطح سمندر سے تقریبا 3226 فٹ بلندہے ۔ اسلام آباد سے 6 گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے جبکہ وفاقی دارلحکومت سے فاصلہ تقریبا 194 کلو میٹر  ہے۔ مانسہرہ سے بالاکوٹ کا فاصلہ تقریبا 50 کلو میٹر ہے۔ بالاکوٹ 10 مربع کلومیٹرکے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔
بالاکوٹ شہر
بالاکوٹ میں گوجر قوم  کی اکثریت ہے، مانسہرہ کے ایم این اے اور وفاقی وزیر برائے مزہبی امور جناب سردار محمد یوسف اسی معزز قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندکو اور گوجری یہاں عام بولی جاتی ہے۔ جھیل لولوسر سے نکلنے والا دریائے کنہار بالاکوٹ شہر کے قلب سے گزرتا ہوا مظفر آباد کے قریب دریائے جہلم میں جا گرتا ہے۔ بالاکوٹ کے قریب سفید پتھروں کا ایک گاؤں چٹہ بٹہ اور بٹراسی کا جنگل ہے۔ بالاکوٹ کو سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی تحریک مجاہدین کے باعث تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ دونوں عظیم ہستیوں کے مزارات اسی شہر میں واقع ہیں۔ بالاکوٹ تحریک مجاہدین کا آخری پڑاؤ تھا اور سکھوں کے خلاف عظیم جدوجہد کا آخری مرکز۔ 6 مئی 1831ء کو ایک خونریز جنگ کے بعد سید احمد اور شاہ اسماعیل نے بالاکوٹ کی سرزمین کو اپنے لہو سے سرخ کیا۔ شہر کی مرکزی مسجد سید احمد شہید کے مزار سے ملحق دریائے کنہار کے کنارے واقع ہے یہ مسجد سید احمد شہید مسجد کہلاتی ہے۔ 2005ء کے زلزلے میں تباہ ہونے کے بعد اب اس کی جگہ نئی مسجد تعمیر کی گئی  ہے۔ اس مسجد کو 1992ء کے سیلاب میں بھی بہت نقصان ہوا تھا۔اگر ہم یہ کہیں تو بلکل درست ہو گا کہ شہداء بالاکوٹ سید احمد شہیدؒ اور حضرت سید اسماعیل  شہیدؒ بالاکوٹ شہر کا تعارف ہیں۔
بالاکوٹ کا پل 
بالاکوٹ وادی کاغان کا دروازہ اور تعلیمی و ثقافتی اور صنعتی مرکز ہے۔ بالاکوٹ میں موسیٰ کا مصلیٰ، شہداء کے مزارات، اور حضرت سید جمال اللہ کی بیٹھک کے علاوہ گندھک کے چشمے بھی ہیں جہاں غسل کرنے سے جلد / سکن کے امراض ختم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں ایک سنگ محبت بھی ہے جہاں محبت کے پیاسے حاضر ہو کر اپنی محبت کی تجدید کرتے ہیں ۔


بالاکوٹ سے جھلکنڈ، ناران، کاغان، شوگران اور کیوائی کا فاصلہ
شوگراں:
شوگراں سطح سمندر سے تقریبا 7750 فٹ بلند ہے۔ بالاکوٹ سے ناران جاتے ہوئے راستے میں کیوائی کا مقام آتا ہے ۔ اسلام آباد سے کیوائی کا فاصلہ 212 کلومیٹرہے،  بالاکوٹ  سے  کیوائی کا  فاصلہ تقریبا 23 کلو میٹر  ہے اورشوگراں  کا  فاصلہ تقریبا 32 کلو میٹر  جبکہ بالاکوٹ سے شوگراں تقریبا ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے ۔ کیوائی سے ایک لنک روڈ اوپر شوگراں کی طرف نکلتی ہے۔ کیوائی  سے  شوگراں  کا  فاصلہ تقریبا 8 کلو میٹر  ہے۔  یہ روڈ خراب ہے مگر کار، ہائی ایس اور کیری ڈبہ باآسانی شوگراں تک جا سکتے ہیں اس کے علاوہ کیوائی میں جیپیں بھی دستیاب ہیں۔ کیوائی سے شوگران تک کا راستہ انتہائی حسین و دلفریب نظاروں کا حامل ہے۔  شوگران میں ایک خوبصورت  ریسٹ ہاؤس اور کئی ہوٹل دستیاب ہیں جہاں مناسب قیمت پر رہائش حاصل کی جا سکتی ہے۔

شوگراں
شوگراں کا خوبصورت منظر
”شو“ کا مطلب ہند کو زبان میں ”خوبصورت“ او رگراں کے معنی "گاؤں" کے ہیں۔اجتماعی مطلب "خوشنما یادیدہ زیب گاؤں ہے"۔ "شو" مقامی زبان میں "تند و تیز ہوا" کو بھی کہا جاتا ہے ۔ یعنی ایسا مقام جہاں تیز ہواؤں کا راج ہواُسے شوگران کہا جا سکتا ہے۔
شوگران کے مشرق میں سری پائے اور مکڑا پہاڑموجود ہیں۔ یہاں سے مغرب میں موسیٰ کا مصلیٰ اپنے جلوے دکھا کر با ہمت سیاحوں کو اپنی چٹانوں پر کوہ نور دی کی دعوت دے رہا ہے۔ شمال میں پبرنگ ، مانا مینڈوس ، شنکیاری کے مقامات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔جبکہ جنوب میں پرسُکوت گھنا جنگل اپنی دھاک بٹھا رہا ہے۔نواحی چراگاہوں اور سیاحت کے قابل مقامات میں سری پائے ، مانا منڈوس، مانشی ، درشی ، شاڑان،شنکیاری ہٹ زیادہ معروف اور پرسکون ہیں۔ نواحی جنگلات میں مگری، مالکنڈی ، جوانس، لولانی، بیرنگ اور کھیتراتنے گھنے ہیں کہ دن کو بھی ان کی تہہ تک سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی۔ شوگران کے مغرب میں شٹران کے دیدنی نظارے دل موہ لیتے ہیں۔ درشی کا بن (جنگل) کئی رومانوی داستانوں سے اٹا پڑا ہے۔جرید اور پارس میں اخروٹ اور دیار کی لکڑی پر ہنر مند بہت دیدہ زیب وڈورک کرتے ہیں۔ یہی نفیس وڈ ورک اور فرنیچر شوگران میں سووینیر اور تحائف کی دُکانوں سے بآسانی اور مناسب قیمت پر دستیاب ہیں۔


شوگراں
شوگراں ریسٹ ہاؤس کے پاس


موسم گرما میں بھی یہاں رات بہت سرد ہوتی ہے۔ حتی کہ لحاف یا کمبل میں بھی شدید ٹھنڈ لگتی ہے۔ موسم برسات میں شوگران میں بہت زیادہ بارش پڑتی ہے اور یوں جگہ جگہ نت نئی جڑی بوٹیاں افزائش پکڑتی نظر آتی ہیں ۔کئی گمنام اور کار آمد جڑی بوٹیوں کے علاوہ عام مقامی طور پر استعمال ہونے والی جڑی بوٹیاں موشکی بالا، گھوڑی، جبڑے (بخار کے لیے اکسیر)، سور گنڈہ، چورہ، نیرہ، پتریس، ماہ میخ ( کمردرد) کھٹ وغیرہ اہم ہیں۔



شوگراں میں جیپ سری پائے جانے کے لئے تیار کھڑی ہے
سیاحوں کے لئے شوگران میں انواع و اقسام کی دلچسپیاں ہیں۔ گھڑ سواری ، ہائیکنگ ،پہاڑوں میں پیدل چلنا ، سرما میں سکیٹنگ، پرندوں کا مطالعہ کرنا ، نباتات اور جڑی بوٹیوں کا ملاحظہ کرنا اور انہیں جمع کرنا، ہوٹلوں کی چھتوں پر بیٹھ کر دور برف پوش چوٹیوں کا دنگ کر دینے والا نظارہ کرنا، مقامی آبادی کے طرز زندگی کا بغور جائزہ لینا، جیپ پر لٹک کر سفر کرنا، ڈھلوانوں پر ننگے پاؤں گھاس کے لمس کو محسوس کرنا، پھولوں کے حُسن کا نظارہ کرنا ،سرد موسم میں دھوپ تلے سستانا،  مون سون بارشوں سے افزائش کرتی نباتات کے مظاہر دیکھنا ، یہاں کی مقبول عام سرگرمیاں ثابت ہو سکتی ہیں۔شوگران کے سبزہ زار ہمیں اپنے جلو میں خیمہ لگا کر گھر بار سے دور ویرانوں میں کھلے آسمان تلے نئے انداز زندگی سے متعارف ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔چاندنی رات میں شوگران میں بستر سے نکل کر سردی میں نہ ٹھٹھرا جائے یہ ممکنات میں سے نہیں۔

سری:
یہ سطح سمندر سے تقریبا 8500 فٹ بلند ہے۔  بالاکوٹ  سے  سری  کا  فاصلہ تقریبا 38 کلو میٹر  جبکہ شوگراں  سے  سری  کا  فاصلہ صرف  5 کلو میٹر ہے۔  بالاکوٹ سے سری تقریبا ڈیڑھ  گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔  سری پائے اور مکڑا پہاڑشوگران کے مشرق میں واقع ہیں۔ شوگراں سے سری کی طرف جانے والی سڑک کچی اور ناہموار ہے اس لئے شوگراں سے آگے جانے کے لئے سیاحوں کو چیپ بک کرانی پڑتی ہے یا پیدل سری تک جانا پڑتا ہے۔ جیپ پر یہ راستہ آدھے گھنٹے تک کا ہے مگر قدرتی نظاروں اور حسن سے مالا مال ہے، ان نظاروں کو دیکھ کر انسان دھنگ رہ جاتا ہے اور بے اختیار مالک الملک کی بڑائی اور حمد کرنے کو جی چاہتا ہے۔ پرندوں کی چہچہاٹ، بلند وبالا درختوں سے چھن چھن کر آتی سورج کی کرنیں اور مخملیں گھاس آپ پر ایک سحر طاری کر دیتے ہیں ۔ بے شک زندگی کا یہ لازوال تجربہ سیاحوں کو بہت دیر تک سرشار، مخمور اور شاد رکھتا ہے۔

پائے:
سطح سمندر سے تقریبا 9500 فٹ کی بلندی پر واقع پائے اپنے لازوال حسن کی وجہ سے مشہور ہے جو سیاح شوگراں آئیں وہ ضرور سری اور پائے کی سیر کریں اور محظوظ ہوں۔ بالاکوٹ  سے  پائے  کا  فاصلہ تقریبا 41 کلو میٹر ہے ، شوگراں  سے  پائے کا  فاصلہ تقریبا 9کلو میٹر  جبکہ سری سے  پائے کا  فاصلہ تقریبا 3کلو میٹر  ہے۔ بالاکوٹ سے پائے  تقریبا  دو  گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ پائے غیر آباد علاقہ ہے اس لئے شوگراں سے ضرورت کی اشیاء ساتھ لے کر آئیں اگر آپ کیمپنگ کرنا چاہتے ہیں تو ضروری سامان کا خاص خیال رکھیں۔ پائے بہت بلندی پر واقع ہے اس لئے سانس کے مسائل سے دوچار سیاح احتیاط کریں۔ پائے کا موسم بہت خوشگوار ہوتا ہے یہاں پر اچانک بادلوں کی ٹکڑیاں آتی ہیں اور شبنم کے قطرے بکھرا کر بکھر جاتی ہیں۔ پائے میں مخمل جیسے گھاس کے وسیع قطعے ہیں  جن میں مختلف جڑی بوٹیاں اگتی ہیں۔ سنا ہے یہاں ایک ایسی بوٹی بھی ہے جس کی شکل سانپ سے ملتی جلتی ہے۔ 


سری / پائے (شوگراں)
کوہ مکڑا:
پائے سے آگے کوہ مکڑا کی پہاڑی ہے جو سطح سمندر سے تقریبا 13600 فٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔ یہ چوٹی بالاکوٹ سے مغرب میں واقع ہے ۔ اس چوٹی کے جنوب میں ”نالہ لوندی“ واقع ہے۔مکڑے کی مانند بچی ڈھلوانیں لیے، زیریں کاغان میں منفرد ،”مکڑا “پر چڑھائی کے لیے شوگران سے سیری کا مشکل سے بھر پور پیدل ٹریک کر کے ہم مکڑا کے بیس کیمپ تک پہنچ سکتے ہیں ۔ دوحصوں پر مشتمل برف میں مستور اِس چوٹی پر جانا عام سیاح کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ بلندی بڑھنے کے ساتھ ساتھ آکسیجن کم ہوتی چلی جاتی ہے۔مکڑا چوٹی کو برسات کے موسم میں اُس وقت سرکرنا کہ جب موسم دھندلا ہو اور گہرے بادل چھائے ہوں ،خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہاں ، بادلوں کے پھٹنے (Cloud burst)کے خطرات عموماً رہتے ہیں۔ بلندی پر بارش کے دوران بجلی کے چمکنے گرجنے کی آواز کمزور دل حضرات کا پتہ پانی کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں ۔ یہاں پر سردی کا مقابلہ صرف نواحی ڈھلوانوں پر جا بجا بکھری گذشتہ سال کے درختوں سے گری بچی پڑی خشک ٹہنیوں کو ایک جگہ اکھٹا کر کے جلانے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔شوگران سے "گھوڑی" تک 3یوم کاٹریک بھی کیا جا سکتا ہے ۔ سری (8500فٹ بلند)اور پائے( 9500 فٹ بلند)کی خوبصورت چراگاہوں کے نواح سے گزر کر ہم 13600 فٹ بلند مکڑا کی چوٹی پر پہنچتے ہیں۔ مکڑا سے مزید 2تا 3یوم آگے کا ٹریک شہری شورو شغب سے دور دراز ہمیں فطرت کے قریب تر کر دیتا ہے۔ لیکن اس ٹریک کو سر کرنے کے لوازمات میں ایک تجربہ کار سفری راہنما ہونا بہت ضروری ہے ۔  بلندی پر کھانے کے لیے پیاز، ٹافیاں ،سورج کی بالا بنفشی شعاؤں سے بچاؤ کے لیے سن برن کریم اور کناری ٹوپی ،اشیائے خوردو نوش (اُبلے ہوئے انڈے، ڈبل روٹی، نمکو، کباب، چنے ، اخروٹ ، بادام، چیونگم پھل وغیرہ ) چڑھائی چڑھنے کے لیے ایک چھڑی اور خیمہ جات اور چولہا از حد ضروری ہیں۔
کوہ مکڑا
شڑاں:
سطح سمندر سے بلندی تقریبا 7500 فٹ  ہے۔ بالاکوٹ  سے  شڑاں  کا  فاصلہ تقریبا 43 کلو میٹر  ہے جبکہ پارس  سے  شڑاں کا  فاصلہ تقریبا  15کلو میٹر  ہے۔ شڑاں موسیٰ کے مصلیٰ کے بلکل پیچھے پہاڑوں میں ہے،  بالاکوٹ سے شڑاں تقریبا  تین  گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے اور  پارس سے شڑاں تک دیڑھ گھنٹے کی مسافت ہے۔  شڑاں کے قریب تین سے چار کلو میٹر کے فاصلے پر  درشی کا جنگل ہے ، درشی کے جنگل سے معروف رومانوی داستان منشی مشہور ہے۔ لوک داستان  کے حوالے سے تبارک حسین ٹھاکر نے گوجری فلم درشی بھی بنائی تھی۔ جس کے نغمے عوام میں خاصے مقبول ہوئے ۔

درہ منور گلی:
سطح سمندر سے بلندی تقریبا 12200 فٹ ہے۔ بالاکوٹ  سے  مہانڈری کا  فاصلہ تقریبا 45 کلو میٹر،  بالاکوٹ  سے  درہ منور گلی کا  فاصلہ تقریبا 76 کلو میٹر ، مہانڈری  سے  درہ منور گلی کا  فاصلہ تقریبا 31کلو میٹر ،  بیاڑی  سے  درہ منور گلی کا  فاصلہ تقریبا 11کلو میٹر  اور درہ منور گلی سے  آنسو جھیل کا  فاصلہ تقریبا 8کلو میٹر ہے۔   مہانڈری سے منور بیلہ اور یہاں سے بیاڑی تک صرف جیپ ٹریک ہے راستہ کچا اور تنگ ہے ۔ بیاڑی سے منور گلی  اور منور گلی سے ہوتے ہوئے آپ کچ پاس (اونچائی 16100 فٹ) اور وہاں سے آنسو جھیل (بلندی 13000 فٹ) تک جا سکتے ہیں  بلکہ آنسو جھیل سے ہوتے ہوئے ملکہ پربت کے بیس کیمپ سے گزرتے ہوئے آپ جھیل سیف الملوک تک پہنچ جائیں گے۔ بیاڑی سے جھیل سیف الملوک تک پیدل ٹریک ہے جو کہ مشکل اور چیلنجنگ ہے۔ یہ ٹریک تقریبا تین دن میں طے ہوتا ہے۔ درہ منور گلی بہت خوصورت  اور پر کشش درہ ہے  مہانڈری سے بہت قریب ہے مگر اکثر سیاح معلومات نہ ہونے کی  وجہ سے یہاں کی سیر سے محروم رہتے ہیں۔ درہ منور گلی کی برف کا لبادہ اوڑھے چوٹیاں، ہریالی سے بھر پور مناظر اور بل کھاتے ٹریک آپ کے منتظر ہیں جب بھی ناران کاغان جائیں درہ منور گلی کو پلان کا حصہ ضرور بنائیں۔
منور گلی کے قریب لگایا گیا کیمپ
کاغان:
کاغان سطح سمندر سے تقریبا 7500 فٹ بلند ہے۔ بالاکوٹ سے کاغان کا فاصلہ 63 کلو میٹر، اسلام آباد سے کاغان کا فاصلہ  257 کلو میٹراور بالاکوٹ سے کاغان تک کی مسافت تقریبا 3 سے 4 گھنٹے ہے۔  کاغان کے قریبی گاؤں پھاگل، کھنیاں اور کمال بن ہیں۔ کاغان میں سادات، سواتی، کشمیری، کوہستانی اور پنجابی نسل کے لوگ آباد ہیں اور یہاں ہندکو زبان بولی جاتی ہے۔  کاغان ایک قصبہ ہے جس میں اچھی خاصی آبادی ہے۔ یہاں بنیادی ضرورت کی تمام اشیاء بہ آسانی سے دستیاب ہیں اور سیاحوں کو  بہت سی سہولیات  حاصل ہیں جیسے ٹیلی فون، بجلی، ہوٹل، ریسٹورنٹ، دوکانیں وغیرہ اس کے علاوہ یہاں پیٹرول اور ڈیزل بھی مل جاتا ہے۔
دریائے کنہار کے اطراف میں پھیلا یہ قصبہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے اور دلکشی میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس قصبے میں اون سے شالیں اور کمبل تیار کرنے والی ایک مل، لکڑی کا ایک کارخانہ اور مقامی طور پر بجلی پیدا کرنے والا ایک مائیکرو ہائیڈل الیکٹرک پاور سٹیشن بھی ہے۔  وادی کاغان (بالاکوٹ سے درہ بابو سر) کا  نام  اسی قصبہ کے نام سے رکھا گیا ہے۔ ناران جاتے ہوئے سیاح یہاں ضرور رکتے ہیں اور کاغان کے حسین مناظر سے محظوظ ہوتے ہیں۔


کاغان کا خوبصورت قصبہ
کاغان میں پانی کے چشمے کے پاس
کاغان، مکئی کا کھیت اور دریائے کنہار
ناران:
ناران سطح سمندر سے تقریبا 8200 فٹ بلند ہے۔بالاکوٹ  سے  ناران  کا  فاصلہ تقریبا 86 کلو میٹر ،  کاغان سے  ناران کا  فاصلہ تقریبا 23کلو میٹر ہے۔  بالاکوٹ  سے  بابو سر ٹاپ کا  فاصلہ تقریبا  156کلو میٹر، بالاکوٹ  سے  جلکھنڈ  کا  فاصلہ تقریبا 113 کلو میٹر  جبکہ بالاکوٹ سے ناران تقریبا  4:30  گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ ناران سے آگے مختلف پکنک پوائنٹس کے فاصلے کچھ اس طرح ہیں۔
ناران سے  جھیل سیف الملوک کا  فاصلہ تقریبا 8کلو میٹر
ناران سے  لالہ زار کا  فاصلہ تقریبا  18کلو میٹر
ناران سے  دودی پت سر کا  فاصلہ تقریبا  60کلو میٹر
ناران سے  لالو  پت سر کا  فاصلہ تقریبا  52کلو میٹر
ناران سے  بابو سر ٹاپ کا  فاصلہ تقریبا  73کلو میٹر
ناران تمام سیاحوں کا اصل پڑاؤ ہے۔ ناران میں بہت بڑا بازار ہے جہاں تمام اشیاء صرف ، تمام سہولیات سے آراستہ ہوٹل و ریسٹورنٹ اور  بنک دستیاب ہیں۔ ہوٹلوں کے کمرے کشادہ، ہوا دار اور جدید طرز کے بنے ہوئے ہیں۔ ہر کمرے کے ساتھ بالکونی ہے جہاں آپ بار بی کیو بھی کر سکتے ہیں۔ عموما ہوٹلوں میں گرم پانی ،کیبل ٹی وی اور وائی فائی کی سہولیات میسر ہیں۔ جو لوگ کیمپ لگانا چاہیں ان کے لئے الگ علاقہ منتخب کیا گیا ہے۔ ناران  کےبازار سے آپ علاقائی ثقافت کے رنگ،  پکوان اور تحائف خرید سکتے ہیں۔ خشک میوہ جات بھی ارزاں نرخوں پر بکثرت پائے جاتے ہیں۔ بازار کے ساتھ ہی دریائے کنہار گزرتا ہے آپ صبح اور شام کے اوقات دریا پر گزاریں اور ایک منفرد تجربہ سے لطف اندوز ہوں۔ دریاء کا پانی شفاف اور یخ ٹھنڈا ہوتا ہے اس لئے زیادہ دیر پانی میں پاؤں رکھنے سے گریز کریں تاکہ فلو سے بچ سکیں۔  یہاں کے چپل کباب اور کابلی پلاؤ بہت مشہور ہیں لوگ شوق سے کھاتے ہیں۔ ٹراؤٹ مچھلی ناران کی بہترین سوغات ہے۔ مگر اجازت نامے کے بغیر اس کا شکار وادی میں ممنوع ہے۔
ناران میں سیاحوں کی خیمہ بستی

برف باری کے دوران (وادی کاغان)
ناران سڑک کے ساتھ سیاحوں کے کیمپ لگے ہوئے ہیں

ناران بازار کے عقب میں بہتا ہوا دریائے کنہار

ناران میں دریائے کنہار پر

دریائے کنہار کا پانی بہت ٹھنڈا ہوتا ہے
ناران ایک طرح کا بیس کیمپ ہے یہاں سے ہی آپ آگے کی تمام سیرگاہوں اور جھیلوں کی سیر کر سکتے ہیں۔ ان جھیلوں یا سیر گاہوں پر قیام وطعام کی سہولیات میسر نہیں بلکہ شام 5 بجے کے بعد اس طرف کا رخ کرنا خطرات سے خالی نہیں اسی لئے صوبائی انتظامیہ آپ کو شام پانچ بجے کے بعد بابوسر ٹاپ،  جھیل دودی پت سر، جھیل لولو پت سر اور جھیل سیف الملوک کی طرف جانے سے روکتی ہے۔ آپ اس طرح پلان کریں کہ آپ ناران شام مغرب کے وقت یا صبح سویرے پہنچیں تاکہ آپ کا وقت ضائع نہ ہوں اور آپ زیادہ سے زیادہ جگہیں دیکھ سکیں۔ اگر آپ دوپہر تین بجے کے قریب ناران پہنچیں تو اس وقت رہائش کابندوبست کر کے آپ صرف جھیل سیف الملوک آسانی سے دیکھ سکتے ہیں کیونکہ وہ قریب ہےاس وقت بابو سر ٹاپ کی طرف جانے کی غلطی ہرگز نہ کریں کیونکہ آپ کو راستے سے ہی واپس آنا پڑے گا۔جیپ  ناران سے جھیل سیف الملوک کا کرایہ 2500 روپے جبکہ بابوسر ٹاپ کا کرایہ 7000 روپے لیتی ہے۔ لیکن سیزن آؤٹ ہو تو یہ کرایہ  بلترتیب 1000 سے 2500 تک  ہو جاتا ہے ۔ وادی کاغان کی سیر کے لئے میرے خیال سے بہترین وقت اگست سے ستمبر تک کا ہے کیونکہ اس وقت موسم خوشگوار ہوتا ہے اور رش کم ہونے کی وجہ سے جیپ، ہوٹل کا کرایہ کم اور اشیاء صرف نارمل ریٹ پر مل جاتی ہیں۔  موسم سرما میں وادی کاغان مکمل طور پر برف میں ڈھک جاتی ہے اور ذرائعہ نقل و حمل مکمل طور پر مفلوج ہو جاتے ہیں ۔ نومبر سے مئی کے شروع تک یہ علاقہ سیاحت کے لئے بند ہوتا ہے۔  مئی سے برف گھلنا اور راستہ کھلنا  شروع جاتے ہیں۔ جون جولائی میں لاکھوں سیاح وادی کا رخ کرتے ہیں جس سے ٹریفک جام، جیپ، خچر اور گھوڑوں کے ریٹ زیادہ ہو جاتے ہیں اور اسی طرح ہوٹلوں میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ منہ مانگی قیمت وصول کرتے ہیں۔ ماہ اگست اور ستمبر میں سیاحوں کا بہاؤ آہستہ آہستہ کم ہو جاتا ہے جبکہ موسم کی دلکشی بڑھ جاتی ہے۔ برف تقریبا زیادہ تر علاقوں سے ڈھل چکی ہوتی ہے اس لئے سردی بھی کم ہو جاتی ہے۔ 
Hotel CENTURIAN

GOOD BYE NARAN
غار:
وادی ناران کے مین بازار  کے عقب میں دریائے کنہار کے کنارے ، ناران بازار سے 5 منٹ کی مسافت پر واقع ہے۔  یہ غار شہزادہ سیف الملوک اور پری بدیع الجمال کی رومانوی داستان کی وجہ سے ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔

جھیل سیف الملوک:
بلند و بالا برف کی چادر اوڑھے ملکہ پربت،رنگ بدلتا سبز اور نیلا  پانی ، فضا میں جا بجا اڑتی ارغوانی تتلیاں، پیالہ نما جھیل کا پانی جس پر بھرپور دن میں بھی آسمان سے اترتے ستارے ایک ایسا دلفریب منظر پیش کرتے ہیں کہ نگاہ ڈالتے ہی آنکھیں ساکت ہوجائیں، پلکیں جنبش سے انکار کردیں ۔۔ نگاہیں ٹھہر سی جائیں ۔ وقت تھمنے سا لگے، یوں محسوس ہو کہ دنیا رک سی گئی ہے ۔ کائنات کی گردش تھم سی گئی ہے۔ باد صبا نے چلنے سے انکار کردیا ہے، بادل اڑان بھرنا بھول جائیں۔  یہاں تک کہ سانسیں رکتی محسوس ہوں۔  بے شک جھیل سیف الملوک  ایسی جھیل! جس پر پہلی نگاہ انسانی عقل کو دنگ کر دیتی ہے قدرت کی صناعی کو پیش کرتی ایک ایسی طلسماتی جھیل، جو اپنے اندر بے پناہ پراسراریت، تجسس  اور حسن رکھتی ہے۔
جھیل سیف الملوک

سیف الملوک کا ایک اور دلکش منظر

جھیل کی سحر انگیز خوبصورتی آپ کے لیے خوابوں کا ایک نیا جہان روشن کرتی ہے جھیل کا پانی اور اس سے نکلتی مہیب سی روشنی محبتوں کے دیے جلاتی محسوس ہوتی ہےاور دل چاہتا ہے یہ پرسکوں منظر ٹھہر جائے وادی ناران کی دلکشی پر یہ جھیل ایک ایسا سنہرا تاج ہے جو آپ کو ساری زندگی واپس وہاں جانے پر اکساتا رہے گا۔
اس جھیل سے وابستہ شہزادہ سیف الملوک اور پری بدیع الجمال کی رومانوی داستان بہت مشہور ہے۔ داستان گو یہ داستانیں سنا کر سیاحوں سے پیسے بھی کماتے ہیں۔ یہ پیالہ نما جھیل خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ جھیل سیف الملوک  سطح سمندر سے تقریبا 10500 فٹ بلند ہے۔ بالاکوٹ  سے  براستہ ناران جھیل سیف الملوک کا  فاصلہ تقریبا 94 کلو میٹر ،  ناران  سے  جھیل سیف الملوک کا  فاصلہ تقریبا 8کلو میٹر  ہے۔ اس کے علاوہ آپ مہانڈری سے منور گلی اور کچ گلی سے بھی جھیل سیف الملوک جا سکتے ہیں مگر یہ تمام راستہ مشکل اور پیدل چلنے والا ہے۔ مہانڈری سے پیدل جھیل سیف الملوک کا راستہ تقریبا دو گھنٹے کا ہے۔ جھیل سیف الملوک کی لمبائی 1420 فٹ اور چوڑائی تقریبا 450فٹ ہے۔جھیل سیف الملوک کے سامنے ملکہ پربت ہے جو تقریبا 17390 فٹ بلند ہے۔اکثر  سیاح یہاں برف پر سکیٹنگ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
خوشگوار یادیں
جھیل سیف الملوک جائیں اور کشتی پر اس کی سیر نہ کریں کیا یہ ممکن ہے؟
لالہ زار:
سطح سمندر سے بلندی تقریبا 10500 فٹ ہے۔ بالاکوٹ  سے  لالہ زار   کا  فاصلہ تقریبا 104 کلو میٹر،  ناران  سے  لالہ زار کا  فاصلہ تقریبا 18کلو میٹر  جبکہ ناران  سے  لالہ زار تقریبا  ایک  گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ سوہنی آبشار لالہ  زار جاتے ہوئے راستہ میں آتی ہے۔  لالہ زار جاتے ہوئے راستے میں مٹروں اور آلوؤں کے بہت سے کھیت ہیں جبکہ لالہ زار ہریالی اور پھولوں کی بہتات کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔  لالہ زار کے مقامی لوگوں میں سوہنی اور لالہ کی لوک رومانوی داستان بہت مشہور ہے۔ ناران سے بابوسر ٹاپ کی طرف جاتے ہوئے سارا علاقہ ہی بہت خوبصورت ہے مگر لالہ زار لالہ زار ہی ہے۔  لالہ زار اونچے اونچے درختوں، رنگ برنگے پھولوں ، مٹر اور آلو کے ہرے بھرے کھیتوں اور دھنک رنگ تتلیوں کی وجہ سے منفرد مقام رکھتا ہے۔  بابوسر ٹاپ کی طرف جاتے ہوئے آپ لالہ زار ضرور جائیں ۔ 
لالہ زار پھولوں کی زمیں

جھیل لولو پت سر:
سطح سمندر سے بلندی تقریبا 11200 فٹ ہے۔  بالاکوٹ  سے  جھیل لولو پت سر   کا  فاصلہ تقریبا 138 کلو میٹر ،  بڑاوہی سے  جھیل لولو پت سر کا  فاصلہ تقریبا 9کلو میٹر  اور ناران  سے  جھیل لولو پت سر کا  فاصلہ تقریبا 52کلو میٹر  ہے۔  ناران سے جھیل لولو پت سر تقریبا  تین  گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ جھیل لولو پت سر کا پانی سیاہ ہے، اسی وجہ سے یہاں ایک پر اسراریت کا گماں ہوتا ہے، یہاں مکمل خاموشی اس پر اسراریت کو مزید تقویت دیتی ہے۔ یہ علاقہ مکمل غیر آباد ہے اس لئے یہاں  کھانے پینے کی اشیاء دستیاب نہیں اس لئے ضروری اشیاء اپنے ساتھ رکھیں۔  جھیل لولو پت سر    کے بارے میں معلومات کی کمی کے باعث بہت کم سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں مگر جو لوگ ایک بار وہاں جاتے ہیں جھیل کے طلسماتی حسن سے متاثر ہوئے بنا رہ نہیں سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ اب آہستہ آہستہ لوگ جھیل لولو پت سر    کی سیر کی طرف راغب ہیں۔
جھیل لولو پت سر   کے قریب ہی پوربی نار کا مقام ہے جہاں پر انگریزوں نے سینکڑوں مجاہد شہید کر دئیے تھے اسی وجہ سے اس علاقے کو شہید کٹھ بھی کہتے ہیں ۔ یہاں پر ایک حیرت انگیز پودا  "چاؤ " پایا جاتا ہے اس کے بارے میں مشہور ہے کہاگر اسے سونگھا جائے تو فورا بے ہوش ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پر ایک پرندہ "کستوری" پایا جاتا ہے جسے مقامی لوگ فروخت کر کے کچھ پیسے کما لیتے ہیں۔

ناران کلچرل فسٹول 2017 میں شریک

جھیل دودی  پت سر:
سطح سمندر سے بلندی تقریبا 11500 فٹ ہے۔  بالاکوٹ  سے  جھیل دودی  پت سر   کا  فاصلہ تقریبا 145 کلو میٹر ، بیسر سے  جھیل دودی  پت سر کا  فاصلہ تقریبا  13 کلو میٹر  اور ناران  سے  جھیل دودی  پت سر کا  فاصلہ تقریبا 60 کلو میٹر  ہے۔  ٹراؤٹ مچھلی یہاں بکثرت پائی جاتی ہے،  اصل دریائی  ٹراؤٹ مچھلی  3500 روپے تک دستیاب ہے لیکن فارمی ٹراؤٹ مچھلی  1400 روپے میں مل جاتی ہے۔ ناران سے جھیل تک کا سفر مشکل اور دشوار گزار ہے، یہاں کھانے پینے کی اشیاء بھی دستیاب نہیں اگر آپ وہاں جانے کا ارادہ کریں تو ضروری سامان اپنے ساتھ ضرور رکھیں۔
جھیل لولو سر پت جاتے ہوئے راستے میں برف 



بابو سر پاس:
سطح سمندر سے بلندی تقریبا 13684 فٹ  ہے۔ اسلام آباد سے  درہ بابو سر  کا  فاصلہ تقریبا 326کلو میٹر ، بالاکوٹ  سے  درہ بابو سر   کا  فاصلہ تقریبا 159 کلو میٹر  اور ناران  سے  درہ بابو سر  کا  فاصلہ تقریبا 73کلو میٹر ہے۔ ناران سے درہ بابو سرتقریبا  چار  گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ درہ بابو سر وادی کاغان کا آخری سیاحتی مقام ہے اس سے آگے چلاس (44 کلو میٹر)  اور گلگت کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ درہ بہت انچائی پر واقع ہے اس لئے بعض افراد کو سانس کا ،مسلہ ہو سکتا ہے۔ بابوسر پاس سال کا بیشتر حصے میں برف سے ڈھکا رہتا ہے۔
بابوسر ٹاپ




  • فاصلہ (کلو میٹر)
    جگہ کا نام
    143
    اسلام آباد سے ایبٹ آباد
    167
    اسلام آباد سے مانسہرہ
    194
    اسلام آباد سے بالاکوٹ
    216
    اسلام آباد سے کیوائی
    239
    اسلام آباد سے مہانڈری
    257
    اسلام آباد سے کاغان
    277
    اسلام آباد سے ناران
    307
    اسلام آباد سے جھلکنڈ
    326
    اسلام آباد سے بابوسرٹاپ
    24
    ایبٹ آباد سے مانسہرہ
    62
    ایبٹ آباد سے بالاکوٹ
    50
    مانسہرہ سے بالاکوٹ
    22
    بالاکوٹ سے کیوائی
    43
    بالاکوٹ سےشڑاں
    32
    بالاکوٹ سے شوگران
    38
    بالاکوٹ سے سری
    41
    بالاکوٹ سے پائے
    45
    بالاکوٹ سے مہانڈری
    63
    بالاکوٹ سے کاغان
    83
    بالاکوٹ سے ناران
    104
    بالاکوٹ سے لالہ زار
    113
    بالاکوٹ سے جلکھنڈ
    156
    بالاکوٹ سے بابوسر ٹاپ
    8
    ناران  سے جھیل سیف الملوک
    18
    ناران  سےلالہ زار
    47
    ناران  سے بیسر
    52
    ناران  سے جھیل لولو  پت سر
    60
    ناران  سے جھیل دودی پت سر
    73
    ناران  سے بابوسر ٹاپ
    44
    بابوسر ٹاپ سے چلاس
    180
    بابوسر ٹاپ سے گلگت
    1200
    بابوسر ٹاپ سے کوئٹہ
    1736
    بابوسر ٹاپ سے کراچی

ناران کی آب و ہوا  (سالانہ درجہ حرارت)


درجہ حرارت  اور    مہینہ    
جنوری
فروری
مارچ
اپریل
مئی
جون
جولائی
اگست
ستمبر
اکتوبر
نومبر
دسمبر
سال
بلند ترین  (سینٹی گریڈ)
17
19
27
30
35
40
38
35
34
31
34
17
40
اوسط بلند  (سینٹی گریڈ)
8
11
16
21
26
29
30
30
28
23
16
10
20.7
اوسط کم  (سینٹی گریڈ)
-2
0
4
8
10
15
18
17
12
6
1
-3
7.2
ریکارڈ کم (سینٹی گریڈ)
-9
-7
-8
-1
-2
5
13
11
6
-1
-5
-15
-15
اوسط بارش  (ملی میٹرز)
11
26
40
27
24
27
30
30
27
24
30
13
309