منگل، 13 ستمبر، 2016

آریاورت سے پاکستان تک, چوہدری ظفر حبیب گوجر

آریاورت سے پاکستان تک  (تحریر: چوہدری ظفر حبیب گوجر)

انتھروپالوجی کے سٹوڈنٹس جانتے ہیں کہ جینیسس 10 کے مطابق آج سے تقریباً ستر ہزار سال پہلے دریائے نیل کے کنارے سے ایک قوم اٹھی اور جاپان تک پھیل گئی اس قوم کو قوم کوش کہا جاتا تھا اور آج بھی ان کا ملک کوش ہی کہلاتا ہے جو سوڈان کے قریب واقع ہے اور اسی تحقیق کے مطابق یہی قوم کوش ہندوستان میں کھشتری کہلائی جو موجودہ دور میں گجر کہلاتے ہیں۔۔ اس کی مکمل تفصیل گوگل پر ' tracing the Gujjars from nail to Philippine' لکھنے سے مل جائے گی۔


اور مجھے یہ تحقیق اس لیے بھی صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ ایک ڈاکومنٹری ہے جو نیشنل جیو گرافک چینل نے بنائی ہے "Blood Warrier" اس کی ایک قسط میں افریقہ کا ایک قبیلہ ہے جو خود کو کسانہ کہلاتا ہے اور ان کا رہن سہن بالکل پہاڑوں پر رہنے والے گجروں جیسا ہے وہ گائے اور بکری پالتے ہیں اور ان کو چرانے کے لیے ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑوں تک سفر کرتے ہیں اور ان کے چہروں کی بناوٹ بھی بالکل ویسی ہے صرف رنگت کا فرق ہے جو شائد افریقہ کی گرمی کی وجہ سے ہے ورنہ نہ ان کے ہونٹ حبشیوں جیسے ہیں نہ بال گھنگھریالے ہیں اور نہ ہی افریقیوں کی طرح وہ موٹی موٹی آنکھوں والے ہیں اور ان کی آنکھیں بھی دھنسی ہوئی ہیں مطلب ان کے جسمانی خدوخال دوسری افریقی اقوام سے مختلف ہیں۔

اور یقین اس لیے بھی نہیں آتا کہ دنیا کے قدیم ترین انسان کی ہڈیاں کوہستان سے ملی ہیں اس لیے یہ زیادہ موزوں ہے کہ وہ لوگ یہاں سے ہجرت کر کے گئے ہوں گے جیسے فلپائن کے گجر آج سے تقریباً چار سو سال پہلے فلپائن گئے ہیں۔
ہمارا موضوع ہے آریاورت سے پاکستان تک۔۔ سوال یہ ہے کہ آریا ورت کیا چیز ہے؟؟ آریا کا مطلب ہوتا ہے معزز یا عزت دار اور ورت مطلب ملک یا دیس ' معزز لوگوں کا دیس' یہ آریا یا معزز لوگ کون تھے زیادہ تر تاریخ دان کہتے ہیں یہ قوم سنٹرل ایشیا کے پہاڑوں سے اترے اور انہوں نے ہندوستان کی قدیم قوم دراوڑ کو جنوبی ہندوستان میں دھکیل کر شمالی ہندوستان پر قبضہ کر لیا اور انہوں نے اپنے دیس کو آریا ورت کا نام دیا جو موجودہ افغانستان، پاکستان اور انڈیا کے علاقوں پر مشتمل تھا۔ آپ  نقشہ میں دیکھ سکتے ہیں۔

اس نقشے کو غور سے دیکھیں پاکستان کے پانچ دریا صاف نظر آتے ہیں

پھر یہ قوم چار حصوں میں تقسیم ہو گئی مذہبی گروپ برہمن کہلایا جنگجو یا آرمی کھشتری کہلائے اور زمیندار ویش اور دراوڑ قوم کے جو لوگ غلام بنا لیے گئے تھے وہ شودر کہلائے اور ان کا مذہب وید کہلایا جو روئے زمین پر لکھے ہوئے سب سے قدیم ہیں اور اس کے مطابق آریا توحید پرست تھے کیونکہ وید اس کا واضح ثبوت ہیں اسی وجہ سے یہ قوم خود کو آریا کہلاتی تھی کیونکہ آریا کا ایک مطلب پاک بھی لیا جاتا ہے اور پھر یہ قوم دو حصوں میں تقسیم ہوئی یورپی آریا اور انڈین آریا میں کیونکہ اس دور میں آریا کو ایک قوم کی بجائے ایک نسل مانا جاتا ہے۔
اب آتے ہیں بائبل کی طرف بائبل کہتی ہے کہ خداوند نے آسمان سے چار دریا اتارے نیل، دجلہ، فرات اور جیحون (آمو دریا) اور بائبل کے مطابق قوم کوش دریائے جیحون کے کنارے آباد تھی یہ وہی علاقے بن جاتے ہیں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔


(نیچے والی نیلی لائن آمو دریا کی ہے جس کو آرین کی جنم بھومی سمجھا جاتا ہے)

آج کے اس جدید دور کی بہت سی تحقیقات یہ ثابت کرتی ہیں کہ قوم کوش ایک قدیم ترین قوم ہے جو جنگجو تھی جو کھشتری بھی کہلائی اور موجودہ گجر وہی قوم ہیں اس لیے پوری دنیا میں ان کے نشانات ملتے ہیں اس کے بہت سے حوالہ جات گوگل بکس میں بھی مل جاتے ہیں۔
جیسے ہر قوم میں برائیاں پیدا ہوتی ہیں ایسے ہی آریا قوم میں ان برائیوں نے جنم لیا اور ہر طبقہ ایک الگ قوم بنتی چلی گئی برہمن کی مذہب پر اجارہ داری تھی تو کھشتری بادشاہ بن گئے اور ویش کا کاروبار پر قبضہ ہو گیا اور تقسیم کا عمل شروع ہو گیا اور آریا ورت چھوٹے ٹکڑوں میں بٹنے کے ساتھ پھیلتا بھی گیا مشرق اور مغرب دونوں طرف کیونکہ ہارنے والے یا مشرق کی طرف بھاگتے یا مغرب کی طرف اور یوں آریا جاپان سے رومانیہ اور سوڈان اور مصر تک پھیل گئے لیکن اپنی پہچان کبھی نہ بھولے وہ جنگجو تھے وہ جنگجو ہی رہے اور آج ہزاروں سال بعد بھی ان کے خاندانی نام نہ بدلے بانیاں البانیہ میں بھی بانیاں ہی رہے اور کسانہ افریقہ میں بھی کسانہ رہے بنگال کے گورسی ہوں یا ایران کے وہ گورسی ہی ہیں۔ روس کا گوجر ہو یا فلپائن کا وہ سپین میں بھی گوجر ہی رہا اور جرمنی کا ہٹلر بھی فخر سے آریا ہی کہلایا۔

پوری دنیا سے ملنے والے آریا قوم کے نشانِ حکمرانی

 وقت گزرتا گیا اور کسانہ راجہ کنشکا نے پہلی صدی عیسوی میں ایک دفعہ پھر سارے آریاورت کو اکٹھا کر دیا اور اس کے بعد ہن گجروں نے اس پر قبضہ کر لیا۔۔۔
ایک تاریخی غلطی کا ازالہ۔۔ ہم کو بتایا جاتا ہے کہ گجر قوم ہن قوم کے ساتھ سنٹرل ایشیا سے آئی اور جس نے اپنی حکومتیں قائم کی۔۔
اگر ان تاریخ دانوں سے سوال کرو کہ اگر گجر قوم نے ہن قوم کے ساتھ مل کر حکومتیں بنائی تو کو شانہ یا کسانہ کون تھے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ یہ چینی قبائل یوآچی میں سے ہیں۔۔ پھر سوال اٹھتا ہے کہ آج کسانہ خود کو گجر کیوں کہتے ہیں تو جواب ندارد
انتھروپالوجی کی جس تحقیق کا میں نے حوالہ دیا ہے اس کے مطابق یوآچی اور کسانہ ایک ہی قوم ہے اور یہی قوم گجر کہلاتی ہے۔
ہن گجروں سے حکومتیں پرتیہار گجروں کے پاس چلی گئی جو بارہویں صدی تک قائم رہی پرتیہار کا مطلب ہوتا ہے پرت یا پلٹ کے حملہ کرنے والا۔ یہ گجروں کی آخری بڑی حکومت تھی اس کے بعدیہ عظیم قوم زوال پذیر ہو گئی۔


مسلمان حکمرانوں کے ساتھ تاریخ لکھنے کا فن بھی ہندوستان آیا اور ہندوستان کی باقاعدہ تاریخ لکھی گئی مسلمان تاریخ دان ایک تو ہندوستان کی تاریخ سے واقف نہیں تھے دوسرا تاریخ فرشتہ کے مطابق محمود غزنوی نے ہندوستان میں کوئی بھی گاؤں یا شہر رہنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا اور نہ ہی کوئی مرد جو لڑنے کے قابل ہو۔۔ اس لیے دنیا کی قدیم ترین یورنیورسٹی کے بھی صرف آثار باقی ہیں جو کسانہ گجروں نے ٹیکسلا میں تعمیر کروائی تھی ایسے میں تاریخ دانوں کے ہاتھ کیا لگتا سوائے قصوں کہانیوں کے اور مسلمان تاریخ دانوں نے کھشتری گجروں کو راجپوت لکھا جو گوجری زبان میں راجہ کے بیٹا کو کہتے ہیں اور انگریزوں نے تاریخ کا علم چونکہ مسلمانوں سے لیا ہے اس لیے اس کو ایسے ہی لکھتے چلے گئے اور جس وفادار کو نوازنا ہوتا تھا اس کو زمین جائیداد دی اور ریکارڈ میں راجپوت درج کردیا یہ اصلیت تو تب کھلی جب ہندوستان میں آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ آیا اور تاریخی مقامات کی کھدائی ہوئی تو پتہ چلا کوئی بھی بادشاہ خود کو راجپوت نہیں کہلواتا تھا سب خود کو گجر کہتے اور لکھتے تھے۔کتنے  سکے آج انڈیا اور برطانیہ کے عجائب گھروں میں پڑے ہیں اور دنیا گجر قوم سے واقف ہوئی ورنہ گجر تو بس چرواہے بن کر رہ گئے تھے کیونکہ ہندوستان میں مسلمانوں نے حکومت گجروں سے چھینی تھی اس لیے وہ ان کے صف اوّل کے دشمن تھے باقی کثر 1857 کی جنگ آزادی میں گجروں نے من حیث القوم حصہ لے کر پوری کر دی اور برٹش راج میں گجروں کو مجرم اقوام میں لکھ دیا گیا اور اس پر آخری مہر والی سوات کھٹانہ گجروں نے لگا دی 1950 میں گجروں کو چرواہے لکھ کر۔۔۔

آریاورت سے شروع ہونے والا یہ سفر1921 میں اسلامیہ کالج لاہور کے ایک طالب علم شباب ملی کے صدر چودھری رحمت علی صاحب نے الگ ملک کی مانگ کر کے پھر زندہ کر دیا۔۔ یہ نوجوان جب برطانیہ پہنچا تو 1933 میں ایک الگ ملک کا نقشہ اور جھنڈا لے کر گول میز کانفرنس کے شرکاء سے ملا اور اس نے اس ملک کا نام پھر سے پاک سر زمین یا پاکستان یا آریاورت رکھا اور افغانستان کے علاقوں کو چھوڑ کر باقی تمام آریاورت اس کے نقشے کا حصہ تھا اور اپنی اس تحریک کو پاکستان نیشنل موومنٹ کا نام دیا اس نے اپنی کتاب میں ثابت کیا کہ آریاورت کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا یہ تو ہمیشہ الگ ملک رہا ہے سوائے مغل اور برطانوی راج کے علاوہ۔۔۔ وہ 1938 میں جرمنی گیا اور ہٹلر سے ملا اور اس کو بولا کہ تم بھی آریا ہو اور ہم بھی آریا اور ہمارا ملک آزاد کروانے میں ہماری مدد کرو وہ جاپان بھی گیا شاہ جاپان سے ملنے تاکہ اپنے آباءو اجداد کی پاک سرزمین کو واپس لے سکے یہاں تک کہ مصریوں سے بھی ملا الغرض پوری دنیا میں گھوما اپنے آریاورت کے لیے اور جب یہ پاک سرزمین آزاد ہوئی تو اس کا خون کھول اٹھا اور وہ چیخ اٹھا کہ یہ عظیم غداری ہے یہ کٹا پھٹا نامکمل ملک ہمارا نہیں ہے یہ ہمارے آباءوا جداد کی سر زمین کے ساتھ غداری ہے اور وہ تقسیم سے پہلے بھی چیختا رہا کہ باؤنڈری کمیشن جانبدار ہے آپ اس کو نامنظور کر کے اقوام متحدہ میں چلے جائیں۔ دنیا ابھی دوسری جنگ عظیم سے فارغ ہوئی ہے وہ ابھی اور خون ریزی برداشت نہیں کریں گے وہ ہمارے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیں گے لیکن قائد کی جیب کے کھوٹے سکے نہ مانے اور انگریز کے وفاداروں اور ان کی اولاد نے آریاورت کے مصور کو اس ملک میں گھسنے نہ دیا وہ تقسیم کے بعد کشمیر کے مسئلے پر بھی سب سے پہلے اقوام متحدہ  میں گیا لیکن کسی نے اس کا ساتھ نہ دیا وہ چیختا رہا کہ چلو دو ملک بنا لو لیکن وہاں بھی اس کی شنوائی نہ ہوئی اور 1971 نے ثابت کیا کہ وہ سچا تھا جس دیش کی خاطر جس دیش سے لڑتا رہا آخر اسی دیش نے آریاورت کے آخری سپاہی کو پناہ دی اور وہ آج بھی اپنے دیش کا منتظر ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


نوٹ: میراث  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو/ گوجری  بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ مندرجہ ذیل ای میل ایڈریس پر ای میل کریں۔

2 تبصرے:

Unknown کہا...

بہت زبردست پوسٹ کی ہے میں شکریہ ادا کرتا ہوں چودھری صاحب کا

گمنام کہا...

بہت مفصل تحریر لکھی ہے گجر قوم کے ساتھ بے تحاشا تاریخی ظلم ہواہے