ہفتہ، 17 مارچ، 2018

23 مارچ اور حب الوطنی کے تقاضے


23 مارچ   اور حب الوطنی کے تقاضے
لفظ 23 مارچ،  پڑھنے اور سننے کے بعد جو غیر ارادی خیال سب سے پہلے آتا ہے وہ ہے "افواج پاکستان کی پریڈ"۔ میری ہم عصر  نسل کو قیام پاکستان کے حالات، مسائل، مصائب اور قربانیوں کا ادراک نہیں کیونکہ ہم نے وہ دور نہیں دیکھا اور نہ ہی ہمیں یہ اندازہ ہے کہ قیام کے بعد اس نوزائیدہ مملکت نے کیسے اپنی بقاء کی جنگ لڑی۔ مگربچپن کے وہ سنہری دن ضرور یاد ہیں جب مارچ کا مہینہ شروع ہوتے ہی ریڈیو اور ٹیلیویژن  پر ملی نغموں کی صدائیں گونجنیں لگتی تھیں۔ تحریک پاکستان کے قائدین سے متعلق پروگرام نشر ہوتے تھے اور وہ بزرگ جو تحریک آزادی میں حصہ لے چکے تھے اپنے اپنے ساتھ بیتے ہوئے واقعات سنایا کرتے تھے۔بچوں میں پاکستانی پرچم، ملی نغموں اور خوبصورت نعروں سے مزین بیجز خریدنے کا مقابلہ ہوتا تھا۔ گھروں پر پاکستانی پرچموں کی بہار سی آ جاتی تھی، وہ لمحات آج بھی میرے لئے بہت قیمتی ہیں جب میں نے پہلی بار اپنے گھر کی چھت پر اپنے دادا کے ساتھ پاکستانی پرچم لہرایا تھا ۔ مگر ہم بچے جس چیز کابیتابی سے انتظار کرتے تھے وہ تھی  23 مارچ کو "افواج پاکستان کی پریڈ"۔ 

پریڈ صبح سویرے شروع ہوتی تھی، آجکل کی طرح ہر گھر میں ٹیلیویژن  نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے محلے میں بھی صرف ایک گھر میں ٹیلیویژن  تھا  اور اس کے سامنے بچوں کا ہجوم۔۔۔ پاکستانی افواج کو نظم و ضبط اور چابک دستی کے ساتھ قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر پریڈ کرتے دیکھ کر ہر بچے کے دل میں یہ امنگ پیدا ہوتی تھی کہ وہ بڑا ہو کر ایسے ہی ملک کا محافظ بنے گا۔ پریڈ میں ہر بٹالین کا تعارف اور نعرہ بٹالین کے پریڈ ایونیو سے گزرنے کے دوران بتایا  جاتا۔  سارے بچے یہ معلومات غور سے سنتے اور پھر یہ نعرے کئی دنوں تک ہماری زبانوں پر رواں رہتے۔ سب سے دلچسپ اور دیدنی لمحات وہ ہوتے تھے جب خوبصورت یونیفارم اور سرخ ٹوپیوں میں ملبوس کمانڈوز "اللہ ہو" "اللہ ہو" کے نعروں کے ساتھ نمودار ہوتے ۔ میرے چشم تصور میں یہ واقعات  ایسے ہیں جیسے میں ابھی انہی بچوں میں بیٹھا  "اللہ ہو" "اللہ ہو" کے نعرے بلند کر رہا ہوں۔ مختلف بٹالین اور بینڈز کے بعد پریڈ ایونیو سے علاقائی فلوٹ گزرتے تھے۔  یہ فلوٹ پاکستان کے ہر علاقے کی نمائندگی کرتے تھے ، پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کے علاوہ آزاد کشمیر کا ثقافتی فلوٹ بھی ہوتا تھا۔

اس کے علاوہ سکولوں میں مارچ کے مہینے میں  پروگرام ہوا کرتے تھے جن میں ملی نغموں،  یوم پاکستان ، قائداعظمؒ،  علامہ محمد اقبالؒ  ، چوہدری رحمت علیؒ اور دوسرے تحریک  آزادی کے رہنماؤں کے بارے میں تقاریری اور  جدوجہد آزادی سے متعلق سوال و جواب کے مقابلے ہوتے تھے۔ایسے پروگراموں میں نہ صرف بچوں کو اپنے جوہر دیکھانے کا موقع ملتا تھا بلکہ انہیں اپنے ملک اور اپنی تاریخ سے متعلق بہت سی معلومات بھی ملتی تھیں اس کے ساتھ جذبہ حب الوطنی کی نموبھی  ہوتی تھی۔   حب الوطنی کے جذبات کو ابھارنے میں ملی نغموں کی اہمیت دو چند تھی۔ یہ نغمے زبان زد عام تھے ہر شخص انہیں گنگناتا اور اپنے دیس، اپنے وطن ، اپنی مٹی سے محبت کے جذبے سے سرشار رہتا تھا۔  آج بھی عالمگیر خان، نیرہ نور، میڈم نور جہاں، استاد نصرت فتح علی خاں، استاد امانت علی خان، مہدی حسن سمیت بے شمار گلوکاروں کے وہ نغمے جب سنتے ہیں تو جھومنے کا دل کرتاہے۔ چند ایک مقبول ملی نغموں کے بول یہ ہیں؛

چاند میری زمیں پھول میرا وطن
میرے کھیتوں کی مٹی میں لعل  یمن
چاند میری زمیں پھول میرا وطن

جگ جگ جئے      جگ جگ جئے
جگ جگ جئے      جگ جگ جئے
جگ جگ جئے      میرا پیارا وطن
جگ جگ جئے      میرا پیارا وطن
لب پہ دعا ہے       دل میں لگن

اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں،  ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں،  ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں،    ہم ایک ہیں
ایک چمن کے پھول ہیں سارے ایک گگن کے تارے، ایک گگن کے تارے

ہم زندہ قوم ہیں                پائندہ قوم ہیں
ہم سب کی ہے پہچان         ہم سب کا پاکستان
پاکستان پاکستان پاکستان         ہم سب کا پاکستان

خیال رکھنا          خیال رکھنا         خیال رکھنا
نئے دنوں کی مسافتوں کو اجالنا ہے،   اجالنا ہے
وفا سے آسودہ ساعتوں کو سنبھالنا ہے،  سنبھالنا ہے
خیال رکھنا          خیال رکھنا         خیال رکھنا

اے وطن تو نے پکارہ تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں

دل دل پاکستان جاں جاں پاکستان

یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ خواں اس کے

ماؤں کی دعا پوری ہوئی اور ہمیں،   اتنی پیاری دنیا میں گھر مل گیا
ماؤں کی دعا پوری ہوئی اور ہمیں،   اتنی پیاری دنیا میں گھر مل گیا
اللہ کا احسان ہے ہمارا پاکستان ہے
ہم آن ہم شان ہم اسکی جان ہیں         ہم پاکستان ہیں

محبت امن ہے اور امن کا ہے نام پاکستان
پاکستان  پاکستان، پاکستان پاکستان

نصرت فتح علی خاں کا یہ نغمہ ان دنوں کی یاد ہے جب واقعی ملک میں امن تھا، محبت تھی اور  پیار تھا ۔  آج جب ٹیلیویژن دیکھتا ہوں یا ریڈیا سنتا ہوں تو بے اختیار اپنے آپ سے یہ سوال کرنے کا دل کرتا ہےکہ۔۔۔  کہاں گئے وہ جذبے؟ کہاں گئے وہ شاعر اور کہاں گئیں وہ ملک سے محبت کا درس دینے والی مائیں ؟کیا ہمارے ملک کا شاعر، گلوکار، اداکار ، فلسفی، دانشور حالات کا شکار ہو گیا ہے؟  کیا اب ہم  کمرشل ازم کے اس دور سے گزر رہے ہیں جہاں بنیادی ملکی اساس بھی ہمیں گروی رکھنی پڑ رہی ہے؟

مجھے یہ کہتے ہوئے فخر کا احساس ہوتا ہے کہ پاکستان  کے مختلف علاقوں سے متعلق ، پاکستانی لوک کہانیوں، فوک میوزک اور رسم و رواج سے متعلق بنیادی معلومات جاننے میں ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلیویژن کا بہت بڑا کردار تھا۔  اس وقت کے پروگراموں میں حب الوطنی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی تھی۔ پاکستان کا تصور مثبت انداز میں دیکھایا جاتا تھا۔ آجکل جب ٹیلیویژن دیکھیں تو لگتا ہے شاید یہ کسی دوسرے ملک کا میڈیا ہے جو کہ ہماری تہذیبی، مذہبی اور ملی اقدار کے خلاف باقاعدہ پروگرام نشر کر رہا ہے۔ کیا خوبصورت کہانیاں ،اداکار اور پروڈیوسرز ہوتے تھے۔ دھواں،انگار وادی، ایلفا براؤو چارلی،  شہباز، ہوائیں، اندھیرا اجالا،وارث ، گسٹ ہاؤس،  ماروی، سونا چاندی، عینک والا جن، ففٹی ففٹی،  کسوٹی، انکل سرگم وغیرہ جیسے پروگراموں کی ایک لمبی لسٹ ہے جنہیں گھر بھر کے افراد دیکھتے تھے۔ آجکل آپ ٹیلیویژن خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔۔۔ خیر وقت بہت بدل گیا شرم و حیا کے معیار بدل گئے ہمارے حکمران اور وہ ادارے جنہوں نے میڈیا کے لئے پالیسیاں مرتب کرنی تھیں وہ ملی یکجہتی، حب الوطنی، مذہبی رواداری اور اخلاقی برتری کو ریٹنگ کی راہ کا پتھر سمجھ کر نوجوان نسل کی تربیت جدید خطوط پر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ہمارے ہاں اب ملک و ملت، دین اسلام اور افواج پاکستان کے خلاف بات کرنا، پروگرام کرنا اور ایسی سوچ کی آبیاری کرنا اہم فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارا میڈیا، ہمارے ادارے اور ہمارا تعلیمی نظام اب ایسے لوگوں کو ہی سپورٹ کرتا ہے کیونکہ اس کے پیچھے اربوں روپے کی غیر ملکی سرمایہ کاری کی جاتی ہے، این جی اوز کے ذریعے، واسطہ بلواسطہ طریقہ سے۔  (خیر یہ ایک الگ موضوع ہے اور ایک جامع تحریر کا متقاضی بھی)

زندہ قومیں اپنے قومی دن شایان شان طریقہ سے منایا کرتی ہیں ، اپنے محسنوں اپنے ہیروز کو یاد کرتی ہیں۔ اپنے آزدی کے واقعات اور جدوجہد کو آنے والی نسل تک منتقل کرتی ہیں ۔ ملکی سطح پر ایسی تقاریب، مجالس اور پروگرامز منعقد کئے جاتے ہیں جن میں نئی نسل کو یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جن کی وجہ سے ہمیں ایک نئی مملکت کی ضرورت پڑی، وہ کون سے حالات تھے جن میں ہم نے لاکھوں لوگوں کی قربانی دی مگر اپنے لئے الگ ریاست منتخب کی،  آزادی کے بعد ہم نے کس بے سروسامانی کی حالت میں سفر شروع کیا اور آج الحمدللہ دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی پہلی اٹامک پاور ہیں، ہماری افواج دنیا کی بہترین افواج ہیں، گوادر دنیا کی سب سے گہری پورٹ ہے، ریکوڈک جیسے معدنیات  اور قدرتی حسن سے مالا مال علاقے ہیں۔ ملکی میڈیا  اپنے عوام کے جذبات کا خیال رکھتا ہے، اپنی زبان، اپنی تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرتا ہے ۔ مذہبی اور ملی مفادات کا دفاع کرتا ہے اور نئی نسل کی نفسیاتی رہنمائی کرتا ہے۔ علاقائی زبانوں، فوک میوزک، ملکی و علاقائی روایات اور خوبصورتیوں کو اجاگر کرتا ہے۔ تاریخی معلومات کے لئے ڈاکومنٹریز، کوئز شو ، خصوصی ڈرامےاور اخبارات اسپیشل سپلیمنٹ شائع کرتے ہیں۔
  افسوس کہ ہم اب نہ معاشرتی طور پر محب الوطنی کا درس دیتے ہیں اور نہ ہی ہمارا میڈیا اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے۔اب 23 مارچ، 14 اگست اور دوسرے قومی دل ایسے گزر جاتے ہیں جیسے کسی کی برسی ۔۔۔۔ ہر طرف ہو کا عالم ہے،  نہ بچوں میں وہ جوش و خروش نہ بڑوں میں ملک سے ہمدردی اور محبت کا وہ جذبہ، ایک عجیب سے مایوسی، بد دلی اور شکستگی میرے ملک کے لوگوں پر مسلط کر دی گئی ہے۔ اس وقت ہمیں حب الوطنی کے جذبات کے فروغ  کی سب سے زیادہ  ضرورت ہے یہی وہ جذبہ ہے جو ایک قوم کو قوم بناتا ہے، اتحاد و یگانگت کی بنیاد فراہم کرتا ہے،  یہی وہ جذبہ ہے جو ہمیں ملک سے غداری کرنے سے روکتا ہے یہی وہ جذبہ ہے جو ہمیں وطن کے لئے تن من دھن کی بازی لگانے کی ترغیب دیتا ہے ۔

 بوجھل دل کے ساتھ اپنی قوم، میڈیا  اور اہل علم و دانش کے سامنے چند سوال رکھتا ہوں ؛
·       کیا ہمارا کردار ہمارے ملی جذبات کا آئینہ دار ہے  یا کیا ہم ذاتی مفادات کو ملک اور قوم کے مفاد پر قربان کرنے کو ترجیح دیتے ہیں؟
·       آج جس طرح ہماری نوجوان نسل ہلہ گلہ کر کے قومی دن مناتی ہے کیا ہم نے اس سلسلے میں ان کی تربیت کی ہے یا کبھی اس بارے میں انفرادی و اجتماعی سطح پر سوچا ہے؟
·       کیا میڈیا اپنا کردار بخوبی نبھا رہا ہے ( جذبہ حب الوطنی،  مذہبی راواداری، فوک میوزک  اور لوک داستانوں کو فروغ دیتا ہے، ملکی تہذیب و ثقافت اور  زبان  کا دفاع کرتا ہے)؟
·       کیا حکومت وقت کی ترجیحات  نوجوان نسل کی تربیت کے حوالے سے واضح ہیں اور وہ اس سلسلے میں نظام تعلیم اور میڈیا کا استعمال ٹھیک طریقے سے کر رہی ہے؟
·       کیا ہم جس نہج پر اپنے بچوں کی تربیت کر رہے ہیں ، تعلیم کا نصاب مرتب کر رہے ہیں، وہ ہماری بنیادی اساس سے مطابقت  رکھتا ہے؟

اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو سمجھ لیں ہم غلط سمت آگے بڑ ھ رہے ہیں اور  محب الوطنی کے تقاضوں پر پورا نہیں اتر رہے۔ یہ ہمارے پالیسی سازوں، دانشوروں، سیاستدانوں، سپاہ سالاروں اور عوام   کے لئے ایک الارمنگ صورتحال ہے۔

تحریر: ابرار حسین گوجر

پانی کا عالمی دن


پانی کا عالمی دن
سردی اپنے عروج پر تھی ہاتھ پاؤں ٹھٹھر رہے تھے۔ میں گرم گرم سانسیں فضاء میں چھوڑ کر  اس سے بننے والے  مختلف  نقش و نگار  کو دیکھنے کے مشغلے میں مصروف تھا کہ مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے آذان سنائی دی۔ آذان سنتے ہی  وضو کے خیال سے ایک یخ بستہ  لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ  سردیوں میں صبح 7 بجے سے  رات 11بجے تک ہوتی تھی، پتہ نہیں حکومت رات 11 بجے کن صارفین پر رحم کر کے گیس  کی سپلائی بحال کر دیتی تھی۔ خیر گرم گرم لحاف چھوڑ کر مسجد کی جانب چل پڑا وہاں پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ مسجد کا انسٹنٹ الیکٹرک گیزر چل رہا ہے میری جان میں جان آئی  دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور ایک لوٹے میں گرم اور ٹھنڈا پانی ملا کر وضو کرنے لگا۔ چونکہ گیزر میں پانچ لیٹر پانی گرم کرنے کی گنجائش تھی اس لئے نمازی عام طور پر پانی لوٹوں میں مکس کر کے وضو کرتے تھے تا کہ پانی کا ضیاء کم سے کم ہو مگر اس دن کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نو عمر لڑکا گرم پانی کے نلکے سے ہی وضو کر رہا ہے اور نلکا بھی بلا ضرورت کھول رکھا ہے۔  پانی بھر کے لوٹتے ہوئے میں نے اسے کہا بیٹا وضو کے لئے پانی لوٹے میں استعمال کریں یا نلکا کم کھولیں تا کہ پانی کم سے کم ضائع ہو۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے نوجوان نے پہلے تو مجھے گھور کے دیکھا کہ یہ کس دنیا کا باسی ہے پھر نلکامزید تیز کر کے وضو کرنے لگا۔ اس کی اس حرکت پر مجھے تھوڑا غصہ آیا اور جب میں نے اس کی طرف نگاہ کی تو وہ فاتح مسکراہٹ کے ساتھ وضو مکمل کر چکا تھا۔  میں نے اسے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ اس نے میری بات نہیں سنی یا اس کا رویہ اخلاقیات سے ہٹ کر تھا بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ ہم نے معاشرتی اور سماجی سطح   پر لوگوں کی اس سمت تربیت ہی نہیں کی  اور نہ ہی اس بات کو ضروری سمجھا ہے۔
نبی رحمت حضور اکرم ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ؛
حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سعد کے پاس سے گزرے۔ وہ وضو کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ کیا اسراف ہے! حضرت سعد نے عرض کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟  (حالانکہ یہ ایک نیک کام میں خرچ کرنا ہے) فرمایا جی! اگرچہ تم جاری نہر پر (وضو کر رہے ہو)۔

دوسری جگہ ارشاد مبارک ہے کہ؛
حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا اسراف نہ کرو،  اسراف نہ کرو۔
جس دین کی تعلیمات ہی میانہ روی کا درس دیتی ہوں وہاں اس طرح کے رویے اگر عام دیکھنے کو ملیں تو سمجھنے میں ذرا برابر بھی شک نہیں گزرتا کہ اس دین کے مبلغین نے دین کی اصل تعلیمات کی بنیاد پر لوگوں کی تربیت نہیں کی، دین کے مبلغین کو ہی کیوں مورد الزام ٹھہرائیں کیا یہ حکومت وقت کی کوہتاہی نہیں ہے کہ اس نے افراد کی انفرادی اخلاقی و عمرانی  تربیت کی طرف توجہ نہیں کی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہم لوگ خود (والدین) اس غفلت کے مرتکب ہیں کہ ہم اپنی نوجوان نسل کے لئے وقت نہیں نکالتے اور نہ انہیں صحیح وغلط اور حلال وحرام  کی تمیز سیکھاتے ہیں  اور نہ ہی مثبت معاشرتی رویوں کو پروان چڑھانے میں انکی رہنمائی کرتے  ہیں۔ اسلام اور تہذیب یافتہ معاشرہ ہمیں یہ سیکھاتا کہ اسراف سے بچو، نمود نمائش سے پرہیز کرو، اپنے صدقات سے دوسروں کی مدد کرو جبکہ  ہم زندگی کے ہر شعبہ میں اسراف سے کام لیتے ہیں،  آجکل ہمارا  ہر عمل نمائش سے بھر پور ہوتا ہے اور صدقات کے لئے ہمیں کوئی مستحق ہی نہیں ملتا ۔  دین مبین ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ "صفائی نصف ایمان ہے" مگر زمینی حقائق دیکھ کر نہیں لگتا کے ہم جو محبت کے دعو ےکرتے  ہیں ان میں سچے ہیں کیونکہ ہمارے گھر، گلی محلے، شہر، سیاحتی مراکز کوڑے کے ڈھیر بنے ہوئے ہیں، مساجد کے واش رومز کی صفائی کا حال بہت ابتر ہے ۔ ہمارے پارک، کھیل کے میدان، ساحل اور ہائیکنگ ٹریل و ٹریکس شاپروں اور ریپروں سے اٹھے پڑے ہیں  تو پھر کیا ہم اس حدیث مبارکہ "صفائی نصف ایمان ہے" پر کتنا یقین رکھتے ہیں؟ یہ آپ خود ہی اپنے آپ سے پوچھ لیں۔
دنیا میں 22 مارچ "پانی کے عالمی دن" کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے اسے عالمی دن کے طور پر 1993 سے منانا شروع کیا، اس سال 2017 میں اس دن کا تھیم "گندے نالوں کا پانی یعنی Wastewater" ہے۔  پاکستان میں پانی کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں  اور بہت سے علاقوں میں خشک سالی سے بہت سے مسائل ہیں جیسے تھر میں پانی اور خوراک کی قلت سے بہت زیادہ جانی نقصان ہو چکا ہے۔ صاف پانی کا نہ ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے حل کے لئے حکومت نے فلٹریشن پلانٹ نصب کئے ہیں مگر یہ پلانٹ دور دراز دیہی علاقوں میں دستیاب نہیں۔پہاڑی علاقوں میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے ہماری خواتین بہت دور دور سے پانی سروں پر لانے کے لئے مجبور ہیں۔  مگر اسی پاکستان میں ایسے شہر اور علاقے بھی موجود ہیں کہ جہاں پانی کے اسراف کو جرم نہیں سمجھا جاتا اور اسکا بے جا اور غیر ضروری استعمال کیا جاتا ہے۔ میں اپنے گرد و پیش کی چند مثالیں پیش کروں گا  تا کہ آپ معاملے کی حساسیت کا اندازہ لگا سکیں ۔
ہمارے گھر(راولپنڈی) میں  ٹیوب ویل کا پانی آتا ہے جو صبح شام مقررہ اوقات میں کھولا جاتا ہے۔ اکثر گھروں میں زیر زمین پانی کے ٹینک بنے ہوتے ہیں مگر جب وہ ٹینک بھر جاتے ہیں تو پانی اوور فلو ہونا شروع ہو جاتا ہے اگر پانی دو گھنٹے کے لئے کھولا جائے تو آدھے گھنٹہ میں ٹینک بھر جاتا ہے باقی ڈیڑھ گھنٹہ پانی ضائع ہوتا ہے مگر اکثر گھروں کے مالکان "فلوٹ وال" خرید کر نہیں لگاتے جو پانی بھرنے کی صورت میں خود بخود بند ہو جاتا ہے۔ یہ غیر ذمہ داری صرف اور  ٖصرف احساس ذمہ داری کے فقدان اور سماجی تربیت کی کمی کا نتیجہ ہے۔ اس لاپرواہی کے ذمہ دار گھر کے مرد حضرات ہیں جو کہ "فلوٹ وال" خرید کر نصب نہیں کرواتے اور کسی حد تک خواتین بھی جو کہ ان کی توجہ اس طرف مبذول نہیں کرواتیں۔  ایک اور رویہ مشاہدے میں آیا کہ لوگ پینے کے لئے پانی ٹیوب ویل سے لینے جاتے ہیں۔ ہر آدمی نلکا  کھول کر اپنے برتنوں کو پہلے دھوتا (کھنگالتا)ہے اگر وہ گھر سے برتن دھو کر لائیں تو وقت اور پانی دونوں کی بچت ہو۔ لوگ عام طور پر کولڈ ڈرنکس کی چھوٹی چھوٹی بوتلیں استعمال کرتے ہیں جتنا پانی ان میں بھرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ گرا دیا جاتا ہے لیکن اگر اس طرف توجہ مبذول کروائی جائے تو لوگ لڑنے کے لئے کمر کس لیتے  ہیں ۔  
دوسری مثال بھی بہت عمومی سی ہے کہ پانی کی موٹر آن کر کے خواتین گھریلو کام کاج یا ساس بہو کے ڈراموں میں مگن ہو جاتی ہیں بچے اور مرد بلترتیب سکولوں اور آفسز میں چلے جاتے ہیں ۔ پانی اوور فلو ہو کر گرتا رہتا ہے مگر موٹر بند کرنے کی کسی کو یاد نہیں ہوتی۔ بعض اوقات ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ موٹر آن کر کے صاحب خانہ  شاپنگ کرنے یا کسی ضروری کام سے باہر چلے جاتے ہیں اور پانی ضائع ہوتا رہتا ہے۔ یہ بھی انتہائی غفلت اور غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔  تیسری مثال اسلام آباد کے اندر دیکھی جا سکتی ہے کہ پورچ کے باہر گاڑی کھڑی ہے اور پانی فل پریشر سے پلاسٹک کے پائپ میں آ رہا ہے۔  صاحب صرف سے گاڑی کے ٹائر صاف کر رہے ہیں، شیشے اور چھت کو رگڑ رگڑ کر صاف کیا جا رہا ہے اور پانی کا پائپ پاس پڑا ہوا ہے۔  ایک گاڑی دھونے  کے لئے گھنٹہ بھر وہ پانی اسی طرح کھلا رہتا ہے مگر یہ احساس نہیں ہوتاکہ ہم اس نعمت خداوندی کو ضائع کر کے ناشکری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ صرف ایک شہر کی بات نہیں ہمارے ہر شہر اور ہر گلی میں یہ مسائل اسی طرح ہیں ۔
میں سمجھتا ہوں جہاں ہم نے سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم میں ترقی کی  ہے وہیں ہم  رواداری، برداشت اور  اخلاقیات میں زوال پذیر ہوئے ہیں۔ ہم نے اپنے بچوں کو کبھی یہ نہیں سیکھایا کہ وہ زندگی کیسے گزاریں۔ دوسروں سے معاملات کیسے رکھیں، چیزوں یا نعمتوں کا استعمال کیسے کریں۔  ہمارے حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ وہ اسمبلی فلور پر ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جس پر بعد میں خود انہیں معافیاں مانگنی پڑتی ہیں۔ ہمارے علماء کو ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے سے فرصت نہیں اور ہمارے اکثر  تعلمی اداروں کا یہ حال ہے کہ وہاں غیر اخلاقی سرگرمیوں کے علاوہ نشے کے عادی گریجوایٹس فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔  ہمیں سائنسی علوم، کمپیوٹر اور درس نظامی کے ساتھ ساتھ بچوں اور معاشرے کو یہ تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم معاشرے کے قابل اور مفید ممبر کیسے بن سکتے ہیں۔
قارئین! پانی حیات ہے، پانی زندگی ہے، پانی کی قدر ان لوگوں سے پوچھیں جو اس کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ جو میلوں دور سے پانی سروں پہ رکھ کر لاتے ہیں جن کے جانور پانی نہ ملنے سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتے ہیں، جنہیں پینے کے لئے صاف پانی میسر نہیں اور وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پانی گدلا ہے، اسے  پینے پر مجبور ہیں۔ آئیں آج یہ عہد کریں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اس بے پایاں نعمت کی قدر کریں گے اور اس کا اسراف  نہ کر کے اسے ضائع ہونے سے بچائیں گے۔   میں اپنی بات کا اختتام اس آیت مباکہ کے ساتھ کروں گا۔
"وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا ، آسمان کی چھت بنائی ، اُوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا ۔ پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مد مقابل نہ ٹھہراؤ"  (البقرۃ ، رکوع نمبر 3، آیت نمبر 22)۔

تحریر: ابرار حسین گوجر

قومی کتاب میلہ

قومی کتاب میلہ
"کتاب" زندگی ، امید ، روشنی
آج انسان اس دور سے گزر رہا ہے جہاں معلومات کی بہتات ہے مگر شعور اور ادراک کی نعمت خال خال ہی نظر آتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ کتاب سے دوری ہے کیونکہ کتاب انسان میں حکمت، وسعت اور گہرائی پیدا کرتی ہے، کتاب سوچ میں شگفتگی، شخصیت میں وقار اور ابلاغ و اظہار میں وضعداری پیدا کرتی ہے، معاشرے میں امن، محبت، اخوت، خوشحالی اور ترقی کتاب کے مرہون منت ہے۔ کتاب معاشرے کا آئنہ ہے جبکہ مطالعہ افراد کی ذہنی نشونماء میں مثبت کردار ادا کرتا ہے،   ان کی فکری نمو اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے۔  آج ہمارا معاشرہ کتاب سے گریزاں  ہے کتاب دوستی ختم ہو چکی ہےاور یہی وجہ ہے کہ ہم بے حسی، نفسا نفسی، ناقدری، ہیجان، دباؤ اور تشدد   جیسے  مسائل کا شکار ہیں۔


پاکستان میں پچھلے کچھ عرصہ سے "کتاب  میلوں" کی راویت نے جڑ پکڑی ہے ۔ سوشل و الیکٹرونک میڈیا  کی چکا چوند سے اکتائے ہوئے لوگوں نے اپنی گہری دلچسپی سے ان میلوں کو پذیرائی  بخشی ہے۔کتاب میلوں میں نوجوان نسل کی بھرپور شرکت بلا شبہ تابندہ پاکستان اور قوم کے روشن مستقبل کی نوید ہے۔ اسلام آباد میں اس طرح کی سرگرمیاں بہت خوش آئند ہیں۔ موسم بہار کے ساتھ ہی اسلام آباد میں چہل پہل شروع ہو جاتی ہے۔ادبی حوالے سے" آکسفورڈ کتاب میلہ" اور "قومی کتاب میلہ" اہلیان اسلام آباد و راولپنڈی کے ذوق کی تسکین کرتے ہیں جبکہ لوک ورثہ شکرپڑیاں، پھولوں کی نمائش یاسمین گارڈن اور اسلام آباد ٹریفک پولیس کی طرف سے فیملی گالا فیسٹیول ایف نائن پارک میں منعقد کئے جاتے ہیں تاکہ عوام الناس کو تفریح کی سہولیات دی جا سکیں۔
قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن ، حکومت پاکستان  کی زیر سرپرستی نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد نے 22 اپریل سے 24 اپریل 2017 (بروز ہفتہ، اتوار اور سوموار) کو پاک چائنہ فرینڈ شپ سنٹر، گارڈن ایونیو،  اسلام آباد میں آٹھویں قومی کتاب میلے کا انعقاد کیا۔اس بار آٹھویں کتاب میلے کا تھیم تھا؛ "کتاب۔ زندگی، امید، روشنی"۔  میلے میں جڑواں شہروں سے  خواتین و حضرات اور بچوں نے بھر پور شرکت کی اور مختلف معلوماتی، تفریحی اور علمی سرگرمیوں   میں حصہ لیا۔  میلےمیں  شریک خواتین اور بچے  مختلف  پروگراموں سے خوب لطف اندوز ہوئے،  جس کے اثرات انشاءاللہ  کتاب کلچر کے فروغ اور امن و خوشحالی کی صورت برآمد ہوں گے۔  یاد رہے 22 اپریل کو پاکستان میں " قومی کے کتاب دن" کے طور پر منایا جاتا ہے اور 23 اپریل کودنیا میں  "ورلڈ بک اینڈ کاپی رائٹ ڈے" کے طور پر منایا جاتا ہے۔




"قومی کتاب میلہ"  منعقد کرنے کے مقاصد:
·       کتب بینی و عادات مطالعہ کا فروغ
·       دانش وروں، فنکاروں، شاعروں اور کتاب دوستوں کو میل جول اور تبادلہ خیال کا موقع دینا
·       بچوں میں مختلف تعمیری سرگرمیوں سے کتاب کی محبت پیدا کرنا اور انہیں کتاب سے روشناس کرنا
·       نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور انہیں مزید تخلیقی کام کرنے کی طرف راغب کرنا
·       علاقائی و لسانی ادب کو فروغ دینا
·       ادیب، دانشور، تخلیق کار اور شاعروں کو جدید زمانے کے مسائل اور رجحانات سے متعارف کروانا
·       نوجوان نسل کی توجہ  تخریبی سرگرمیوں سے تعمیری سرگرمیوں کی مبذول کرنا
·       کتب خوانی کی روایت کو اجاگر کرنا




 "قومی کتاب میلہ" کے اہم نکات:
·       آٹھویں قومی کتاب میلے کے تینوں دن ایک ہی وقت میں مختلف عمروں اور ذوق کے لوگوں کے لئے مختلف پروگرام ترتیب دئیے گئےتا کہ ہر شخص اپنی عمر اور مزاج کے مطابق سرگرمیوں میں حصہ لے اور لطف اندوز ہو۔
·       بچوں کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے لئے رنگا رنگ سرگرمیاں مرتب کی گئیں تا کہ ان کی دلچسپی میلے میں برقرار رہے۔ ان سرگرمیوں میں کتاب محل، گوگی شو، کوئز سیشن، تخلیقی نگارشات کا مقابلہ، بک کلرنگ، ٹیبلو، مختلف ذہنی مقابلے، دلچسپ کھیل  اور کتاب کہانی  شامل تھیں۔
·       میلے میں تقریبا ڈیڑھ سو سے زاہد پبلشرز نے سٹال لگائے جہاں سے قارئین نے اپنی پسندیدہ کتابیں ارزاں نرخوں پر خریدیں، اس کے علاوہ نیشنل بک فاؤنڈیشن  کی طرف سے "ریڈرز بُک کلب" کی ممبر شب بھی 110 روپے کے عوض دی جا رہے تھی۔
·       علم و ادب سے متعلق مختلف موضوعات پر کانفسیں،  کتابوں  کی تقریب  رونمائی، ورکشاپیں، علم خطاطی کی ترویج کے لئے نمائش اور ورکشاپ کا انعقاد، مزاکرے ، کتاب خوانی  اور دیگر دلچسپ پروگرام منعقد ہوئے۔
·       انسٹیٹیوٹ آف سپیس اینڈ ٹیکنالوجی، موٹر وے پولیس اور پاکستان ائیر فورس کے سٹال بھی توجہ کا مرکز رہے۔  انجمن ہلال احمر، پاکستان نے فری میڈیکل کیمپ لگایا جبکہ پاکستان پوسٹ نے ٹکٹوں کی  نمائش کے لئے خاص اہتمام کیا ہوا تھا ان ٹکٹوں پر علم و ادب سے وابستہ شخصیات کی تصاویر تھیں۔  22 اپریل، 2016  کو  پاکستان پوسٹ نے قومی یوم کتاب کے حوالے سے  8 روپے مالیت کا یادگاری ٹکٹ جاری کیا ،  اسے بھی میلے کے شرکاء کے لئے نمائش میں رکھا گیا۔
·        پاک چین دوستی اب کسی مثال سے کم نہیں ، اسی سلسلے میں دونوں ملکوں کی عوام کو قریب لانے کے لئے   آٹھویں کتاب میلے میں کنفیوشس کے بہت سے اقوال اور چینی ادب کا اردو ترجمہ پیش کیا گیا اس کے علاوہ چینی کہانی اور اس کا ترجمہ بھی سنایا  گیا جو کہ بچوں کے لئے تجسس کا باعث تھا۔
·       والقلم خطاطی نمائش دیکھ کر شرکاء حیران رہ گئے مجھے خود یہ فن پارے دیکھ کر بہت مسرت ہوئی۔ یہ رب العزت کا کرم ہے کہ آج بھی یہ ورثہ نسل در نسل آگے بڑھ رہا ہے اور نئے تخلیق کار اس فن میں مزید جدت لا رہے ہیں۔ میلے کے دوسرے دن فن خطاطی سے متعلق ورکشاب بھی منعقد کی گئی۔ ورکشاپ میں  فن خطاطی سیکھنے والوں کو نامور خطاط حضرات نے فن خطاطی کے رموز اوقاف سیکھائے۔
·       آٹھویں قومی کتاب میلے میں مختلف کتابوں کی تقریب رونمائی ہوئی جن میں "پتھر چہرے" از سید گلزار حسنین،  "پرواز ہما" از سیدہ ہما طاہر،  "ایک غزل ایک کہانی" از ریحان علوی، "یادوں کا سفر" از فرح ملک،  سید یونس اعجاز کی شعری خدمات کا تجزیاتی مطالعہ" از نوید الحسن نور، ، مشہور کالم نگار، افسانہ نگار اور ناول نگار زاہدہ حنا کی کتاب  “The House of Loneliness and other stories” ، سید راحیل اکبر جاوید کی کتاب   “Poetry of Images” شامل ہیں۔
·       "پاکستانی زبانیں اور ان کا ادب" حال اور مستقبل  کے حوالے سے بھی ایک پروگرام ترتیب دیا گیا جسمیں مختلف کتابوں کا تعارف اور شرکاء کا ان پر اظہار خیال شمل تھا۔ اس سیشن میں اردو، پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی، کشمیری، براہوی، سرائیکی، پوٹھوہاری، ہندکو ، شینا، بلتی اور بوشسکی شامل تھیں مگر حرت کی بات ہے کہ کشمیر اور پاکستان کے بیشتر علاقوں میں بولی جانی والی گوجری زبان کو شمل نہیں کیا گیا اور اس کے ادیبوں اور دانشوروں کو اس نشست میں جگہ نہیں دی گئی۔
·       اتوار کی شام کو "غزل نائٹ" کے نام سے موسیقی کی یاد گار شام منائی گئی، جس میں ملک کے نامور گلوکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
·       بچوں کی سرگرمیوں پر مشتمل مختلف پروگرام ترتیب دئیے گئے۔ فوڈ بازار قائم کیا گیا اور مختلف موضوعات پر ورکشاپس منعقد کی گئیں۔
یہ امر باعث مسرت ہے کہ ملک میں امن وامان بہتر ہونے کے ساتھ ہی ادبی ، سماجی اور سوشل سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے اور لوگ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ کتاب کی طرف پھر سے راغب ہو رہے ہیں۔  قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن ، حکومت پاکستان  اور نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد یقینا داد کے مستحق ہیں کہ وہ وسائل کی کمی کے باوجود مثبت پیش رفت کر رہے ہیں۔

تحریر: ابرار حسین گوجر






























اچھی تربیت


اچھی تربیت:
آپ کا رویہ، آپ کا طرز عمل اور آپ کا انداز بیاں آپ کی تربیت کا عکاس ہوتا ہے۔  میں جب اپنے معاشرے اور معاشرتی رویوں پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم دن بدن اخلاقی انحطاط کا شکارہوتے جا رہے  ہیں۔ ہمارے نوجوانوں میں ادب آداب، رکھ رکھاؤ اور مروت کا شعور نہیں ہے۔ ہماری مستقبل کی ماؤں کو طریقہ سلیقہ، اولاد کی پرورش، اولاد کی نشونما، گھر کی ذمہ داریوں سے متعلق کوئی تربیت نہیں ۔ معاشرے میں گھر، درس گاہ اور ماحول وہ تین تربیت گاہیں ہیں جہاں نئی نسل کو تربیت دی جاتی ہے، جہاں  اسے مستقبل کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ بدقسمتی سے آج یہ تینوں ادارے میڈیا کے زیر اثر ہیں اور اپنے بنیادی فرائض سے عہدہ براء نہیں ہو رہے۔ آج الیکٹرانک میڈیا جو کچھ دیکھا رہا ہے کیا وہ مواد ہماری تہذیب،ہمارے رسم و رواج،  ہمارے مذہب اور ہمارے ملکی وقار سے ہم آہنگ ہے؟ کیا آج ٹیلی ویژن کے پروگرام ایک خاندان اکھٹے مل کر دیکھ سکتا ہے؟ کیا اس کمرشل ازم کے دور میں ہم نے اپنی شرم و حیا ، عزت و حمیت اور حب الوطنی بھی داؤ پر نہیں لگا دی؟
ایک وقت تھا پاکستان میں جینز پہننے کو بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا اور آج ہماری خواتین اور نوجوانوں کے پہناؤں کو دیکھ لیں ۔

تو یہ سب کیسے ہوا یہ سب میڈیا کاکمال ہے سب سے پہلے اس نے ان نظریات کا پرچار کیا جن سے ہماری اقدار، ہمارے رسم و رواج، ہمارے مذہبی عقائد اور ہمارے ملی جذبات سرد پڑ گئے ۔ پہلے پہل ہم ان واہیات پر کسمسائے، ہلکا سا احتجاج کیا، پھر ہماری شرم و حیا کمرشل ازم کی نظر ہو گئی اور ہم نے کن اکھیوں سے مارننگ شوز، رمضان ٹرانسمیشن اور انعامی پروگرام دیکھنے شروع کر دئیے۔ چند لوگ صرف خبر نامہ دیکھتے تھے ملٹی نیشنل برانڈز نے ان کے لئے بھی سامان زیت میسر کر دیا۔ اب معذرت کے ساتھ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہم پوری طرح میڈیا کے رنگ میں رنگے گئے ہیں، ہم ماڈرن ہو گئے ہیں، ہم تہذیب یافتہ کہلانے کے قابل ہو چکے ہیں۔

دو احادیث مباکہ پیش خدمت ہیں:
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا " شرم و حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے۔"
عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ایک مرتبہ) کسی انصاری صحابی کے پاس سے گذرے اور (ان کو دیکھا) کہ وہ اپنے بیٹے کو حیا کے بارے میں نصیحت کر رہے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ (حیا کے بارے میں) اس کو (نصیحت کرنا) چھوڑ دو اس لئے کہ حیا ایمان میں سے ہے۔

شرم و حیا ایمان کا حصہ اور شاخ ہے ، جس میں شرم و حیاء نہیں وہ جو چاہئے کرے۔ آج کی بے راہ روی اور اخلاقی تنزلی  کی بنیادی وجہ بھی یہی ہےکہ ہمارے معاشرے سے شرم و حیاء رخصت ہو گئی ہے۔ آنکھ کا پانی سوکھ گیا ہے دل مردہ اور بے حس ہو چکے ہیں۔

پہلی تربیت گاہ ہے گھر ! تو جناب گھر میں جب تک ماں سمجھدار، مہذب اور حکمت  والی نہیں ہو گی اور والد جدید دور کا ادراک نہیں کرے گا بچوں کی بہتر تربیت ممکن نہیں اور ہم نے ماؤں کی اس سمت تربیت کرنا، تعلیم دینا ہے چھوڑ دی ہے۔ اب بچہ گود میں ہوتا ہے تو مارننگ شوز، ڈراموں اور فیشن شوز سے اس کی تربیت شروع ہو جاتی ہے۔ بڑوں کا ادب، بزرگوں کی بات سننا  اب بچوں کی تربیت کا حصہ نہیں رہا۔ دادی دادا، نانی نانا بے شک گھر میں کسی سے بات کرنے کے لئے ترستے رہیں مگر سارے بچے مصروف ہوں گے کوئی ٹی وی دیکھ رہا ہے کوئی فیس بک پر ہے کوئی ٹیوٹر پر ٹرولنگ کر رہا ہے کوئی لیپ ٹاپ پر اپنی پسندیدہ فلم دیکھ رہاہےمگر اسے گھر میں کسی سے بات کرنے کی فرصت نہیں ہو گی۔ آجکل کی مائیں اس معاملے میں بچوں کی بھر پور معاونت کرتی ہیں۔ دوسری بات   ماؤں کو اس بات کی تربیت ہی نہیں کہ بچوں کو کس عمر میں کیا سیکھانا ہے۔ وہ کیا غذا کھائیں گے تو ان کی نشونما بہتر طور پر ہو سکے گی۔انہیں کیاپہنایا جائے انہیں خاندان اور رشتہ داروں سے کیسا تعلق رکھنا چاہئے۔  معاشرے میں ایک عام فقرہ سنا ہو گا آپ نے کہ ہماری بچیاں پڑھ رہی ہیں اس لئے گھر کا کام کرنے کے لئے تو عمر پڑی ہے کرتی رہیں گی۔  جو کام ان کے ذمے نہیں اس کے لئے سولہ سال تعلیم اور جو ذمے ہے اس کے لئے اتنی لاپرواہی ؟

دوسری تربیت گاہ سکول ہے آجکل بچہ جب سکول جاتا ہے تو پلے گروپ، منٹسوری سسٹم یا طریقہ تعلیم میں انتظامیہ کا ٹیچرز کے لئے ایک ہی معیار ہےکہ انگلش روانی سے بولنی آتی ہو اور لباس کے معاملے میں خوش ذوق ہو کیونکہ بقول انتظامیہ میک اپ اور فیشن کے بغیر مائیں تو بچے گھر میں بھی چھوڑ کے آتے ہیں اس لئے جاذب نظر اور پرکشش ٹیچرز ہی روشن مستقبل کی ذمہ دار ہیں۔  اس پر ہر ادارے  کا سلیبس اپنا اپنا ہے اور سلیبس بھی ایسا جس سے آنے والی نسل/بچے پڑھ  تو لیتے ہیں مگر والدین، مذہب اور اپنی مٹی کے نہیں رہتے ان کی جڑیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ وہ گھر والوں کے لئے اجنبی ہوتے ہیں اور گھر والے ان کے لئے اجنبی۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
 نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ہم

تیسری تربیت گاہ ہے ماحول ہے، اس وقت گھر، سکول کے بعد بچے گراؤنڈ کا یا مسجد کا رخ نہیں کرتے وہ وقت ہوا ہوئے جب "خلیل میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے" اب بچوں کا بیشتر وقت ٹی وی، کارٹون چینلز، سوشل میڈیا اور ویڈیو گیمز  (کمپیوٹر بیس) کھیلنے میں گزرتا ہے ۔ دوستوں یاروں سے بھی وہی ڈراموں/ فلموں اور پروگراموں کی باتیں ، نئے نئے فیشن، فیس بک پر بھی من مرضی کے دوست اور یہی دوستیاں آجکل رنگ لا رہی ہیں۔ نوجوان پڑھے لکھے لڑکیاں لڑکے انتہاء پسند تنظیموں کے ممبرز ہیں، ڈرگ سوسائیٹیز کے ممبر ہیں، ہم جنس پرستی اور لادینیت سے متاثر ہیں۔

دوستو! کسی نہ کسی کو تو یہ ذمہ داری اٹھانی ہو گی ، خدا راہ حکومت وقت اگر نہیں جاگ رہی تو آپ کی تو اولادیں ہیں آپ جاگیں اور اپنے بچوں کو وقت دیں ان کے ساتھ ان کے مسائل پر بات کریں۔انہیں اپنے دین، مذہب، رسم رواج اور تہذیب کے بارے میں بتائیں۔ مگر آپ کیسے بتائیں گے آپ تو خود اس رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ مگر یاد رکھیں بہترین رنگ تو اللہ والوں کا ہے ۔وہی رنگ اختیار کریں گے تو کامیابی ہو گی ورنہ ہمہ  رنگ تو ہو جائیں گے لیکن یک رنگی  نصیب نہیں ہو گی۔

تحریر:  ابرار حسین گوجر