اتوار، 25 ستمبر، 2016

ٹریل 5 (ڈیرہ جنگلاں، Darra Janglan)، اسلام آباد


ٹریل 5 (ڈیرہ جنگلاں، Darra Janglan)، اسلام آباد

 ٹریل 5 سے متعلق:
ٹریل 5 (Darra Janglan) جدید سہولیات  سے آراستہ،  آسان،  خوبصورت محفوظ ٹریل ہے۔  یہ نئے اور ریگولر ہائیکرز کے لئے یکساں مفید ہے۔ اس ٹریل پر آپ کو خوبصورت و نایاب پرندے مختلف جانور  (بندر، گیدڑ، لومڑیاں اور چیتے) ملیں گے۔ سر سبز اور خوبصورت پودوں  (فلورہ اور فلونہ) کا پورا سلسلہ ملے گا۔ ٹھنڈے میٹھے پانی کے جھرنے ملیں گے۔ یہاں آپ کو پرندوں کی سریلی چہچاہٹ،  درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں اور چھوٹے چھوٹے پتھروں میں سے گزرنے والے پانی کی موسیقی ملے گی۔ یقیناً یہ آپکی زندگی کا منفرد تجربہ ہو گا۔ آپ ٹریل 5 پر ہائیکنگ کر کے اپنے آپ کو تروتازہ ہلکا پھلکا اور پرسکون پائیں گے۔ جب آپ فطرت سے قریب ہوں گے تو آپکے ذہن کی بہت سی گرہیں کھلیں گی۔ آپ کو سوچنے کے لئے نئی سمت ملے گی۔ شہر کے ہنگام آپکو تسکین اور فرحت کا احساس ہو گا۔




ٹریل 5 کی لوکیشن:
سیکٹر
F-5 کی مخالف سمت، مارگلہ روڈ کے بلکل آخر پر آپ کو ٹریل 5 کا بورڈ اور پارکنگ نظر آئے گی۔ ٹریل 5 اور ٹریل 3 مارگلہ ایونیو پر قریب قریب ہی ہیں. اگر آپ پبلک ٹرانسپورٹ سے آنا چاہیں تو راولپنڈی ہائی وے سے 21 اور 136 نمبر روٹ اور مری روڈ سے 1 نمبر روٹ کی گاڑیاں آغا خان روڈ (میریٹ ہوٹل) تک آتی ہیں۔ آغا خان روڈ (میریٹ ہوٹل) کے پاس اتر کر آپ اتاترک ایونیو سے ٹریل 5 (تقریباً 2 کلو میٹر) تک گاڑی میں 7 منٹ اور پیدل تقریباً 30 منٹ میں پہنچ سکتے ہیں۔ اسی طرح آغا خان روڈ (میریٹ ہوٹل) کے پاس اتر کر آپ اتاترک ایونیو سے ٹریل 3 (تقریباً 1.8 کلو میٹر) تک گاڑی میں 5 منٹ اور پیدل تقریباً 24 منٹ میں پہنچ سکتے ہیں۔ جن ہائیکرز کے پاس اپنی کنونس نہیں وہ اس راستے سے باآسانی ٹریل 5 اور 3 تک پہنچ سکتے ہیں اور ہائیکنگ کے منفرد تجربہ سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔





ٹریل 5 کی لمبائی /فاصلہ:
ٹریل 5 کا کل فاصلہ 5 کلو میٹر ہے۔ جسے طے کرنے میں تقریباً 3 سے 3.5 گھنٹے لگتے ہیں۔ اگر رفتار تھوڑی تیز ہو تو 2.5 سے 3.5 گھنٹے میں بھی طے کیا کیا جا سکتا ہے۔ راستے میں تقریباً 2 کلو میٹر تک آبشاریں اور پانی میسر ہے۔ ابتدائی ٹریل آسان جو کہ آگے آہستہ آہستہ مشکل ہوتا جاتا ہے. 
ٹریل 5 اور 3 متوازی چلتے ہیں. ٹریل 4 جو کہ 2.5 کلو میٹر پر مشتمل ہے وہ ان دونوں کو آپس میں ملاتا ہے۔

آپ کو کن اشیاء کی ضرورت ہو گی؟ 
اگر آپ نے ٹریل 5 پر ہائیکنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو آپ کو مندرجہ ذیل اشیاء کی ضرورت ہو گی. 
1. اچھے آرام دہ جوتوں کا جوڑا جو کہ واٹر پروف ہو. 
2. فرسٹ ایڈ کا سامان 
3. پانی کی بوتل + ریفرشمنٹ کے لئے اشیاء 
4. ڈیجیٹل کیمرہ 
5. سن گلاسز + کیپ

ٹریل 5 کی نمایاں خصوصیات:
1. جدید سہولیات سے آراستہ
2. سیکیورٹی کے مکمل انتظامات 
3. پبلک ٹرانسپورٹ سے قریب تر
4. محفوظ اور کشادہ پارکنگ 
5. راستے میں پانی کا میسر ہونا
6. قدرتی حسن اور دلکش مناظر سے بھر پور 
7. فیملیز کے لئے سب سے بہتر




ٹریل 5 کا اختتام:
ٹریل 5 کا اختتام مین پیر سوہاوہ روڈ پر سیکیورٹی چیک پوسٹ کے قریب ہوتا ہے۔ اگر آپ تقریباً 500 میٹر مغرب کی طرف چلیں تو "مونال ریسٹورنٹ" پہچ جائیں گے۔ یہاں آپ اسلام آباد کے نظاروں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
شہر کی مصروف زندگی سے وقت نکالیں اور فطرت کی دلکشی کو محسوس کریں. اسلام آباد کے مختلف کلب اور سوسائٹیز  سی ڈی اے کے ساتھ  مل کر واک،  ہائیکنگ اور کلیمبنگ ایونٹس کا انعقاد کرتی رہتی ہیں۔ آپ گروپ کی شکل میں اور انفرادی طور پر اپنی فیملی کے ساتھ ویک اینڈ پر ایسے ٹریلز اور شاہدرہ پکنک پوائنٹ پر جائیں....  یقیناً آپ کی زندگی کا منفرد تجربہ ہو گا۔

ایک حسین یاد ایک لازوال تجربہ:
الپائن کلب اور سی ڈی اے کے تعاون سے منعقدہ ایک دن کی ہائیکنگ (ٹریل5) میں مجھے شرکت کا موقع ملا. وہ دن بہت ساری پر لطف یادوں،  حسین لمحوں اور محبت بھرے ساتھیوں کی الفت و عنایت کے ساتھ میری زندگی کا ایک یادگار دن ہے۔ جس کا خیال آتے ہی میری روح کو تسکین ملتی ہے، میرا چہرا خوشی سے کھل اٹھتا ہے اور میرا دل پھر وہاں جانے کو مچلتا ہے۔ وہ دن ایک حسین یاد، ایک لازوال تجربے کے ساتھ میری زندگی کا اب حصہ ہے. اپنے گزرے ہوئے ان خوبصورت لمحوں کو آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں.

ابرار حسین گوجر

























جمعہ، 23 ستمبر، 2016

کمرشل ازم کی یلغار اورسیلفیاں


کمرشل ازم کی یلغار اورسیلفیاں  (ابرار حسین گوجر)

کمرشل ازم کی یلغار  اورسیلفیاں

وہ دونوں چپ تھے خاموش،  بات ان کے لبوں تک آتی تھی مگر الفاظ کا روپ دھار کر سماعتوں تک نہیں پہنچ پا رہی تھی ہاں جو کچھ وہ کھا رہے تھے اس کے چبانے کی آواز سے وہاں کا سکوت ٹوٹ رہا تھا۔

ظفر کی شادی کو ابھی بمشکل چھ ماہ ہی ہوئے ہوں گے کہ اس نے سوچا آج ماریہ کو کوئی اچھی سی ٹریٹ دے جو کے وہ بہت پہلے دینا چاہتا تھا مگر اپنے وسائل کی کمی کا  اندازہ کر کے پہلے کبھی ہمت نہیں کر سکا  آج  اسکی تنخواہ  میں سالانہ انکریمنٹ  لگا  تو اس  نے  باہر کھانے کا ارادہ  ظاہر کر دیا.  اس کی بات سن کر ماریہ خوش ہوتی ہوئی  بولی  کھانا  تو  ہم  گھر  پر بھی کھاتے رہتے  ہیں آج  "کے ایف سی " چلتے ہیں  "زنگر برگر" کھانے.  کہنے لگی میری سہیلیاں  پچھلے  دنوں گئی تھیں اور بہت تعریف کر رہی تھیں کہ بہت اچھا ٹیسٹ ہے،  انہوں نے فیس بُک پر تصاویر بھی اپ لوڈ کیں،    بس اس دن سے میرے دل میں بھی خواہش پیدا ہوئی کہ ہم بھی کسی دن "زنگر برگر" کھانے "کے ایف سی " چلیں گے. آج آپ نے کہا تو میرا ...... میرا من کرتا ہے کہ بجائےکھانا  کھانے کے  "زنگر برگر" ہی کھاتے ہیں،  ویسے بھی ہم رات کا کھانا بہت کم کھاتے ہیں تو ایک ایک برگر سے گزارہ ہو جائے گا. ماریہ نے ایک ادا سے ظفر کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالا اور سر اس کے فراغ سینے کے ساتھ ٹکایا اور بولی آپ چلیں گے ناں؟ ظفر نے اس کے سر پر اپنی ٹھوڑی رکھی اور مسرت سے بولا کیوں نہیں..... تم تیار ہو جاؤ پھر چلتے ہیں.

ظفر ایک پرائیویٹ آفس میں ڈیٹا انٹری آپریٹر تھا. اس کی تنخواہ معقول تھی وہ مگر باہر کھانا کھانے کی عیاشی سے اس کا سارا بجٹ ڈسٹرب ہو جاتا تھا. سچ تو یہ ہے کہ اسے باہر کھانا کھانا پسند بھی نہیں تھا۔ وہ گھر کے کھانے،  اپنی ماں جی کے بنے پراٹھوں اور اپنی وائف کی بنائی ہوئی بریانی بہت شوق سے کھاتا تھا. گھر کی پکی ہوئی ہر چیز کو پسند کرتا تھا مگر جب فیس بُک،  واٹس ایپ،  انسٹاگرام اور ٹیوٹر پر اپنے دوستوں کو برگر، سینڈوچ،  پیزا اور بار بی کیوں کھاتے دیکھتا تو اس کا بھی دل مچلتا  کہ اپنی فیملی کے ساتھ باہر کھانا  کھائے.  تصاویر بنائے اور دوستوں کے ساتھ شیئر کرے.  خیر دونوں تیار ہو گئے انہوں نے  جانے کے لئے  ماں جی سے اجازت لی ۔ ماں جی نے نظر اتاری اور وہ ٹیکسی کر کے "کے ایف سی" پہنچ گئے....

راولپنڈی، صدر میں "کے ایف سی" کی کیا ہی بات تھی۔ باہر شدید گرمی اور حبس جبکہ "کے ایف سی"  کے اندر ٹھنڈک لگ رہی تھی، ماڈرن اور نفیس جوڑے برگر کھانے کے ساتھ ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔  بیک گراؤنڈ میں  ہلکا ہلکا  موزک چل رہا تھا، بہت اچھا ماحول تھا.  ماریہ کونے میں ایک ٹیبل پر جا بیٹھی اور ظفر کاؤنٹر پر "زنگر برگر" کا آرڈر دینے لگا،  مینو دیکھا تھوڑا سا چکرایہ مگر سبھل کر پیمنٹ کی اور سلف سروس کی بنیاد پر دو "زنگر برگر" ٹرے میں رکھے اور ایک ہلکی سی پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ ماریہ کے پاس پہنچا. 

ماریہ کو یہاں آ کر بہت اچھا لگا،  اسے ظفر پر پیار آ رہا تھا۔ جب تک ظفر برگر لیتا ماریہ نے تین چار سیلفیاں لیں اور فیس بُک پر سٹیٹس اپ لوڈ کر دیا. 
"
Me at KFC" 
دس  منٹ کے  اندر اندر  50 لائیکس  اور   20 کمنٹس  ہو چکے تھے۔ ماریہ کی مسرت  کی  انتہا  نہیں تھی۔ مگر جب ظفر "زنگر برگر" کے ساتھ پہنچا  تو اسے اس کی مسکراہٹ بے جان اور سطحی لگی....
ماریہ: آپ خوش نہیں ہیں یہاں آ کر؟ 
ظفر:   میں بہت خوش ہوں، تمہیں خوش دیکھ کر...
اسی اثناء میں ماریہ کی نظر "زنگر برگر" پر پڑی وہ بولی... اخاں یہ تو بہت چھوٹا سا ہے جبکہ ٹی وی کمرشل میں تو بہت بڑا نظر آ رہا تھا اور آپ ساتھ ڈیو نہیں لائے کمرشل میں تو دیکھا رہے تھے وہ سکیم کا حصہ ہے.
ظفر:  ان کا کہنا ہے سکیم آج دوپہر تک تھی. چلو شروع کرو ۔۔۔
ماریہ اسے اپنے سٹیٹس اور دوستوں کے کمنٹس کے متعلق بتانے لگی... اور پوچھنے لگی یہ کتنے کا ہے؟
ظفر نے ہچکچاتے ہوئے اسے بتایا 475  روپے کا  ایک... اور   950 روپے کے دو. ظفر کی یہ بات سن کر ماریہ کی تو سٹی گم ہو گئی، وہ سوچنے لگی  دو ہزار  روپے میں تو  ہم پورے  گھر  کا  مہینے بھر کا راشن  (سودا سلف) لے آتے ہیں اور یہ دو نوالوں کا برگر؟
برگر کا نوالہ لیا۔۔۔ مگر اسکا ذائقہ.....  اس کی امنگوں پر پورا نہیں اترا.  وہ سوچنے لگی کچھ چیزوں، کھانوں کی کتنی پبلسٹی کی جاتی ہے مگر حقیقت میں وہ کچھ نہیں ہوتے بلکل چمکتے صحراب کی طرح...... 

اسے یاد آیا ایک بار اس نے اپنے بھائی سے ضد کر کے "پیزا" منگوایا مگر اسے وہ نان کے اوپر پیاز سے زیادہ کچھ نہ لگا، اسی طرح اس کی ایک سہیلی نے "شوارمے" کی بہت تعریف کی مگر اسے وہ عجیب سا ہی لگا.  جب کالج میں اس کا ایڈمشن ہوا تو ایک دن سب نے پروگرام بنایا کل کینٹین میں
"کانٹینینٹل" بنے گا اس لئے گھر سے کوئی کھانا نہ لائے  "کانٹینینٹل" کھائیں گے مزاء آئے گا مزاء کیا خاک آنا تھا اس کو تو اسی طرح بھوک لگی تھی۔

پیزا

وہ ہنسی مسکرائی کہ ابھی بکرا عید پر اس کی نند نے کہا اس بار ہم "بار بی کیو" کریں گے۔ اس نے اور ظفر نے "بار بی کیو" کے لئے اچھا نرم گوشت  الگ کیا، سیخیں، کوئلے اور انگیٹھی منگوائی شام کو چھت پر سب نے مل کر "بار بی کیو" کا اہتمام کیا.  پہلے کوئلے آگ ہی نہیں پکڑ رہے تھے، پھونکھیں مار مار کر انہیں جلایا پھر کسی نے کہا کہ پنکھا لے آئیں وہ تردد بھی کیا گیا. بہت سا وقت ضائع کرنے کے بعد "بار بی کیو" کی سیلفیاں بنیں، دھویں اور آگ کے ساتھ تصاویر کا کا امتزاج بہت عمدہ لگ رہا تھا۔ اپ لوڈ ہوئیں بہت سارے لائیکس اور کمنٹس ملے مگر سچ بتاؤں تو ۔۔۔۔اگر نہیں ملا تو گوشت نہیں ملا۔۔۔۔ جو ملا وہ بھی  کچھ کچا کچھ جلا ہوا.

شوارمے 

ماریہ ابھی انہی سوچوں میں گم تھی کہ ظفر کی آواز آئی چلنے کا ارادہ ہے کہ یہی گم سم بیٹھے رہنا ہے۔ ماریہ بولی چلیں برگر تو کھا لیا 1000 روپے میں دو گھڑی ٹھنڈی ہوا ہی لگانے دیں.

دوسرے دن گاؤں سے ظفر کے چچا آئے،  دیسی گھی اور مکئی کی روٹیاں لائے،  ماریہ نے 80 روپے کا کلو دہی اور سرسوں کا ساگ منگوایا، اس کی لسی بنائی.  شام کو تھکا ہارا ظفر گھر پہنچا چچا جان کو دیکھ کر بہت خوش ہوا، گھنٹہ بھر باتیں کیں، سارے گاؤں کا حال احوال معلوم کیا. کھانا کھانے لگے تو کیا دیکھتا ہے کہ تھال میں لسی والا ساگ رکھا ہے، اس میں دیسی گھی کےترملے چمک رہے ہیں۔ ساتھ مکئی کی روٹی.... ظفر کو لگا اسکا بچپنا واپس آ گیا ہے۔ سب نے روٹی ساگ میں ڈالی اور کھانے لگے. آج ظفر نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا، وہ بہت مطمئن اور خوش لگ رہا تھا۔

ماریہ کو بھی بہت مزاء آیا وہ سوچ رہی تھی کہاں، برگر،  پیزا، شوارمے اور کہاں یہ ساگ اور مکئی کی روٹی..... مگر وہ سیلفیاں نہیں لے سکی، اسے لائیکس نہیں ملے.... وہ اپنی سہیلیوں کو نہیں بتا سکی...

مکئی کی روٹی

مکئی کی روٹی

مکئی کی روٹی، ساگ اور اچار 

لسی والا ساگ


ابرار حسین گوجر

منگل، 13 ستمبر، 2016

آریاورت سے پاکستان تک, چوہدری ظفر حبیب گوجر

آریاورت سے پاکستان تک  (تحریر: چوہدری ظفر حبیب گوجر)

انتھروپالوجی کے سٹوڈنٹس جانتے ہیں کہ جینیسس 10 کے مطابق آج سے تقریباً ستر ہزار سال پہلے دریائے نیل کے کنارے سے ایک قوم اٹھی اور جاپان تک پھیل گئی اس قوم کو قوم کوش کہا جاتا تھا اور آج بھی ان کا ملک کوش ہی کہلاتا ہے جو سوڈان کے قریب واقع ہے اور اسی تحقیق کے مطابق یہی قوم کوش ہندوستان میں کھشتری کہلائی جو موجودہ دور میں گجر کہلاتے ہیں۔۔ اس کی مکمل تفصیل گوگل پر ' tracing the Gujjars from nail to Philippine' لکھنے سے مل جائے گی۔


اور مجھے یہ تحقیق اس لیے بھی صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ ایک ڈاکومنٹری ہے جو نیشنل جیو گرافک چینل نے بنائی ہے "Blood Warrier" اس کی ایک قسط میں افریقہ کا ایک قبیلہ ہے جو خود کو کسانہ کہلاتا ہے اور ان کا رہن سہن بالکل پہاڑوں پر رہنے والے گجروں جیسا ہے وہ گائے اور بکری پالتے ہیں اور ان کو چرانے کے لیے ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑوں تک سفر کرتے ہیں اور ان کے چہروں کی بناوٹ بھی بالکل ویسی ہے صرف رنگت کا فرق ہے جو شائد افریقہ کی گرمی کی وجہ سے ہے ورنہ نہ ان کے ہونٹ حبشیوں جیسے ہیں نہ بال گھنگھریالے ہیں اور نہ ہی افریقیوں کی طرح وہ موٹی موٹی آنکھوں والے ہیں اور ان کی آنکھیں بھی دھنسی ہوئی ہیں مطلب ان کے جسمانی خدوخال دوسری افریقی اقوام سے مختلف ہیں۔

اور یقین اس لیے بھی نہیں آتا کہ دنیا کے قدیم ترین انسان کی ہڈیاں کوہستان سے ملی ہیں اس لیے یہ زیادہ موزوں ہے کہ وہ لوگ یہاں سے ہجرت کر کے گئے ہوں گے جیسے فلپائن کے گجر آج سے تقریباً چار سو سال پہلے فلپائن گئے ہیں۔
ہمارا موضوع ہے آریاورت سے پاکستان تک۔۔ سوال یہ ہے کہ آریا ورت کیا چیز ہے؟؟ آریا کا مطلب ہوتا ہے معزز یا عزت دار اور ورت مطلب ملک یا دیس ' معزز لوگوں کا دیس' یہ آریا یا معزز لوگ کون تھے زیادہ تر تاریخ دان کہتے ہیں یہ قوم سنٹرل ایشیا کے پہاڑوں سے اترے اور انہوں نے ہندوستان کی قدیم قوم دراوڑ کو جنوبی ہندوستان میں دھکیل کر شمالی ہندوستان پر قبضہ کر لیا اور انہوں نے اپنے دیس کو آریا ورت کا نام دیا جو موجودہ افغانستان، پاکستان اور انڈیا کے علاقوں پر مشتمل تھا۔ آپ  نقشہ میں دیکھ سکتے ہیں۔

اس نقشے کو غور سے دیکھیں پاکستان کے پانچ دریا صاف نظر آتے ہیں

پھر یہ قوم چار حصوں میں تقسیم ہو گئی مذہبی گروپ برہمن کہلایا جنگجو یا آرمی کھشتری کہلائے اور زمیندار ویش اور دراوڑ قوم کے جو لوگ غلام بنا لیے گئے تھے وہ شودر کہلائے اور ان کا مذہب وید کہلایا جو روئے زمین پر لکھے ہوئے سب سے قدیم ہیں اور اس کے مطابق آریا توحید پرست تھے کیونکہ وید اس کا واضح ثبوت ہیں اسی وجہ سے یہ قوم خود کو آریا کہلاتی تھی کیونکہ آریا کا ایک مطلب پاک بھی لیا جاتا ہے اور پھر یہ قوم دو حصوں میں تقسیم ہوئی یورپی آریا اور انڈین آریا میں کیونکہ اس دور میں آریا کو ایک قوم کی بجائے ایک نسل مانا جاتا ہے۔
اب آتے ہیں بائبل کی طرف بائبل کہتی ہے کہ خداوند نے آسمان سے چار دریا اتارے نیل، دجلہ، فرات اور جیحون (آمو دریا) اور بائبل کے مطابق قوم کوش دریائے جیحون کے کنارے آباد تھی یہ وہی علاقے بن جاتے ہیں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔


(نیچے والی نیلی لائن آمو دریا کی ہے جس کو آرین کی جنم بھومی سمجھا جاتا ہے)

آج کے اس جدید دور کی بہت سی تحقیقات یہ ثابت کرتی ہیں کہ قوم کوش ایک قدیم ترین قوم ہے جو جنگجو تھی جو کھشتری بھی کہلائی اور موجودہ گجر وہی قوم ہیں اس لیے پوری دنیا میں ان کے نشانات ملتے ہیں اس کے بہت سے حوالہ جات گوگل بکس میں بھی مل جاتے ہیں۔
جیسے ہر قوم میں برائیاں پیدا ہوتی ہیں ایسے ہی آریا قوم میں ان برائیوں نے جنم لیا اور ہر طبقہ ایک الگ قوم بنتی چلی گئی برہمن کی مذہب پر اجارہ داری تھی تو کھشتری بادشاہ بن گئے اور ویش کا کاروبار پر قبضہ ہو گیا اور تقسیم کا عمل شروع ہو گیا اور آریا ورت چھوٹے ٹکڑوں میں بٹنے کے ساتھ پھیلتا بھی گیا مشرق اور مغرب دونوں طرف کیونکہ ہارنے والے یا مشرق کی طرف بھاگتے یا مغرب کی طرف اور یوں آریا جاپان سے رومانیہ اور سوڈان اور مصر تک پھیل گئے لیکن اپنی پہچان کبھی نہ بھولے وہ جنگجو تھے وہ جنگجو ہی رہے اور آج ہزاروں سال بعد بھی ان کے خاندانی نام نہ بدلے بانیاں البانیہ میں بھی بانیاں ہی رہے اور کسانہ افریقہ میں بھی کسانہ رہے بنگال کے گورسی ہوں یا ایران کے وہ گورسی ہی ہیں۔ روس کا گوجر ہو یا فلپائن کا وہ سپین میں بھی گوجر ہی رہا اور جرمنی کا ہٹلر بھی فخر سے آریا ہی کہلایا۔

پوری دنیا سے ملنے والے آریا قوم کے نشانِ حکمرانی

 وقت گزرتا گیا اور کسانہ راجہ کنشکا نے پہلی صدی عیسوی میں ایک دفعہ پھر سارے آریاورت کو اکٹھا کر دیا اور اس کے بعد ہن گجروں نے اس پر قبضہ کر لیا۔۔۔
ایک تاریخی غلطی کا ازالہ۔۔ ہم کو بتایا جاتا ہے کہ گجر قوم ہن قوم کے ساتھ سنٹرل ایشیا سے آئی اور جس نے اپنی حکومتیں قائم کی۔۔
اگر ان تاریخ دانوں سے سوال کرو کہ اگر گجر قوم نے ہن قوم کے ساتھ مل کر حکومتیں بنائی تو کو شانہ یا کسانہ کون تھے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ یہ چینی قبائل یوآچی میں سے ہیں۔۔ پھر سوال اٹھتا ہے کہ آج کسانہ خود کو گجر کیوں کہتے ہیں تو جواب ندارد
انتھروپالوجی کی جس تحقیق کا میں نے حوالہ دیا ہے اس کے مطابق یوآچی اور کسانہ ایک ہی قوم ہے اور یہی قوم گجر کہلاتی ہے۔
ہن گجروں سے حکومتیں پرتیہار گجروں کے پاس چلی گئی جو بارہویں صدی تک قائم رہی پرتیہار کا مطلب ہوتا ہے پرت یا پلٹ کے حملہ کرنے والا۔ یہ گجروں کی آخری بڑی حکومت تھی اس کے بعدیہ عظیم قوم زوال پذیر ہو گئی۔


مسلمان حکمرانوں کے ساتھ تاریخ لکھنے کا فن بھی ہندوستان آیا اور ہندوستان کی باقاعدہ تاریخ لکھی گئی مسلمان تاریخ دان ایک تو ہندوستان کی تاریخ سے واقف نہیں تھے دوسرا تاریخ فرشتہ کے مطابق محمود غزنوی نے ہندوستان میں کوئی بھی گاؤں یا شہر رہنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا اور نہ ہی کوئی مرد جو لڑنے کے قابل ہو۔۔ اس لیے دنیا کی قدیم ترین یورنیورسٹی کے بھی صرف آثار باقی ہیں جو کسانہ گجروں نے ٹیکسلا میں تعمیر کروائی تھی ایسے میں تاریخ دانوں کے ہاتھ کیا لگتا سوائے قصوں کہانیوں کے اور مسلمان تاریخ دانوں نے کھشتری گجروں کو راجپوت لکھا جو گوجری زبان میں راجہ کے بیٹا کو کہتے ہیں اور انگریزوں نے تاریخ کا علم چونکہ مسلمانوں سے لیا ہے اس لیے اس کو ایسے ہی لکھتے چلے گئے اور جس وفادار کو نوازنا ہوتا تھا اس کو زمین جائیداد دی اور ریکارڈ میں راجپوت درج کردیا یہ اصلیت تو تب کھلی جب ہندوستان میں آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ آیا اور تاریخی مقامات کی کھدائی ہوئی تو پتہ چلا کوئی بھی بادشاہ خود کو راجپوت نہیں کہلواتا تھا سب خود کو گجر کہتے اور لکھتے تھے۔کتنے  سکے آج انڈیا اور برطانیہ کے عجائب گھروں میں پڑے ہیں اور دنیا گجر قوم سے واقف ہوئی ورنہ گجر تو بس چرواہے بن کر رہ گئے تھے کیونکہ ہندوستان میں مسلمانوں نے حکومت گجروں سے چھینی تھی اس لیے وہ ان کے صف اوّل کے دشمن تھے باقی کثر 1857 کی جنگ آزادی میں گجروں نے من حیث القوم حصہ لے کر پوری کر دی اور برٹش راج میں گجروں کو مجرم اقوام میں لکھ دیا گیا اور اس پر آخری مہر والی سوات کھٹانہ گجروں نے لگا دی 1950 میں گجروں کو چرواہے لکھ کر۔۔۔

آریاورت سے شروع ہونے والا یہ سفر1921 میں اسلامیہ کالج لاہور کے ایک طالب علم شباب ملی کے صدر چودھری رحمت علی صاحب نے الگ ملک کی مانگ کر کے پھر زندہ کر دیا۔۔ یہ نوجوان جب برطانیہ پہنچا تو 1933 میں ایک الگ ملک کا نقشہ اور جھنڈا لے کر گول میز کانفرنس کے شرکاء سے ملا اور اس نے اس ملک کا نام پھر سے پاک سر زمین یا پاکستان یا آریاورت رکھا اور افغانستان کے علاقوں کو چھوڑ کر باقی تمام آریاورت اس کے نقشے کا حصہ تھا اور اپنی اس تحریک کو پاکستان نیشنل موومنٹ کا نام دیا اس نے اپنی کتاب میں ثابت کیا کہ آریاورت کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا یہ تو ہمیشہ الگ ملک رہا ہے سوائے مغل اور برطانوی راج کے علاوہ۔۔۔ وہ 1938 میں جرمنی گیا اور ہٹلر سے ملا اور اس کو بولا کہ تم بھی آریا ہو اور ہم بھی آریا اور ہمارا ملک آزاد کروانے میں ہماری مدد کرو وہ جاپان بھی گیا شاہ جاپان سے ملنے تاکہ اپنے آباءو اجداد کی پاک سرزمین کو واپس لے سکے یہاں تک کہ مصریوں سے بھی ملا الغرض پوری دنیا میں گھوما اپنے آریاورت کے لیے اور جب یہ پاک سرزمین آزاد ہوئی تو اس کا خون کھول اٹھا اور وہ چیخ اٹھا کہ یہ عظیم غداری ہے یہ کٹا پھٹا نامکمل ملک ہمارا نہیں ہے یہ ہمارے آباءوا جداد کی سر زمین کے ساتھ غداری ہے اور وہ تقسیم سے پہلے بھی چیختا رہا کہ باؤنڈری کمیشن جانبدار ہے آپ اس کو نامنظور کر کے اقوام متحدہ میں چلے جائیں۔ دنیا ابھی دوسری جنگ عظیم سے فارغ ہوئی ہے وہ ابھی اور خون ریزی برداشت نہیں کریں گے وہ ہمارے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیں گے لیکن قائد کی جیب کے کھوٹے سکے نہ مانے اور انگریز کے وفاداروں اور ان کی اولاد نے آریاورت کے مصور کو اس ملک میں گھسنے نہ دیا وہ تقسیم کے بعد کشمیر کے مسئلے پر بھی سب سے پہلے اقوام متحدہ  میں گیا لیکن کسی نے اس کا ساتھ نہ دیا وہ چیختا رہا کہ چلو دو ملک بنا لو لیکن وہاں بھی اس کی شنوائی نہ ہوئی اور 1971 نے ثابت کیا کہ وہ سچا تھا جس دیش کی خاطر جس دیش سے لڑتا رہا آخر اسی دیش نے آریاورت کے آخری سپاہی کو پناہ دی اور وہ آج بھی اپنے دیش کا منتظر ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


نوٹ: میراث  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو/ گوجری  بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ مندرجہ ذیل ای میل ایڈریس پر ای میل کریں۔

اتوار، 11 ستمبر، 2016

چودھری اختر وریو! گجر قوم کا درخشندہ ستارہ


چودھری اختر وریو! گجر قوم کا درخشندہ ستارہ 
انجینئر افتخار چودھری

چودھری صاحب کے حوالے سے میں ایک تحریر لکھی تھی جو گجر رسائل میں چھپی مجھے دنیا بھر سے تعریفی اور تنقیدی کالز آئیں۔بہت سو ں نے سراہا اور بہت سوں نے گلہ گزاری بھی کی۔مجھے جوہانسبرگ سے گجر طلباءکے ایک گروپ نے جن کا تعلق سیالکوٹ اور گردونواح سے نے کہا آپ نے سب کچھ لکھا مگر ہمیں یہ نہیں بتایا کہ ان کی سوانح عمری کیا ہے سیاست کب کہاں سے شروع کی کیا حاصل کیا اور وہ دوسرے گجر لیڈران سے مختلف کیوں تھے۔ان کی اولاد کس حال میں ہے اور کیا کر رہی ہے؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان کے گھرانے سے اس عظیم شخص  کے بارے میں کچھ کام ہوتا کوئی کتاب لکھی جاتی مگر افسوس یہ کام ہو نہ سکا۔میرے کچھ سیاسی دوستوں کو کچھ جملوں پر اعتراض بھی تھا۔میں نے سوچا چلیں اسی مضمون میں کچھ ترمیم کرتے ہیں اور اپنی نوجوان نسل کو وریو سٹار کے بارے میں بتاتے ہیں۔میں کوئی مدح سراءنہیں ہوں میرے تعلقات ان خاندانوں کے ساتھ دوستانہ ہیں۔قلم سے تعلق ہے دل نے جو اچھا سمجھا اسے لکھ دیا یہ خصوصی تحریر چھپنی تو ان کی برسی پر چاہئے لیکن جب بھی چھپے یہ تاریخی حوالہ ہو گا۔اللہ ان کے درجات بلند کرے اور جنت میں اعلی مقام دے۔اس موقع پر ان کے چاہنے والوں سے درخواست ہے کہ اگر کوئی مواد آپ کے پاس ہے تو اسے شیئر کریں تا کہ اسے کتابی شکل دی جا سکے۔

 عربی میں کہتے ہیں رجل کثیرا لکن رجل القلیل۔مرد تو بہت ہوتے ہیں لیکن مرد کوئی کوئی ہوتا ہے۔اس دنیا میں بہت سے لوگ روز پیدا ہوتے ہیں اور کچھ اتنے ہی روز مر بھی جاتے ہیں۔کچھ لوگ حیوانوں کی طرح پیدا ہو کر پڑھ لکھ کر شادی بیاہ رچا کر دو چار پانچ لوگ دے کر قبرقں میں جا گھستے ہیں۔یہ حیوانی جبلت ہے اکثر دیکھا گیا میری اولاد میرے بچے میری بیوی میری بیٹی میری میری کرتے خرچ ہو جاتے ہیں جن کے پوتوں کو بھی نہیں پتہ ہوتا کہ دادا موصوف کون تھے۔اور کچھ لوگوں کے نام سے خاندان جانے جاتے ہیں گاؤں معروف ہوتے ہیں علاقہ اور وطن ان کے وجود پر فخر کرتا ہے۔آج لوگ بیسیوں جرنیلوں کے نام سے ناوقاف ہوں گے مگر میجر طفیل شہید کا نام تو بچہ بچہ جانتا ہے۔سیاست دانوں میں اور بہت سے پیدا ہوئے چلے گئے لیکن میں جس سیاست دان برادری پرست کا تعارف کرانا چاہتا ہوں وہ بہار کی ہوا کی طرح جانا جاتا ہے
میں اس کا نام نہ لوں لوگ پھر بھی پہچانیں کہ آپ اپنا تعاف ہوا بہار کی ہے
چودھری اختر علی وریو جسے میں اور آپ سب جانتے ہیں۔
مرحوم کا تعلق متحدہ ہندو ستان سے تھا سیالکوٹ کے پاس وریو گاؤں  میں ڈیرہ لگایا ۔باپ ذیلدار تھا۔

 1979 سے 1985 تک ڈسٹرکٹ کونسل سیالکوٹ کے چیئرمین بنے 85 میں پی پی 143 سے صوبائی اسمبلی میں قدم رکھا 1988 میں آئی جے آئی کے ٹکٹ پر پی پی 104 سے ایک بار فتح حاصل کے وزیراعلی نواز شریف کے صوبائی وزیر برائے مواصلات بنے تیسری بار پی پی 106 سے میدان مارا1993 میں این اے ۰۸ سے چودھری امیر حسین کو شکست دیجو اسپیکر قومی اسمبلی بھی رہے تھے ان کا تعقل بھی گجر برادری سے تھا لیکن اقتتدار کی دوڑ میں وہ چودھری اختر علی سے جدا ہو گئے تھے جس کا ذکر میں آگے کروں گا۔مزے کی بات ہے اسی سال این اے 88 سے چودھری عبدالستار وریو بھی دوسری بار اسلام آباد کے ایوان میں پہنچے یہ سال وریو خاندان کی سیاسی معراج کا سال ہے اسی سال چودھری خوش اختر سبحانی کم عمر رکن صوبائی اسمبلی بنے اور منظور وٹو کی حکومت میں امور جیل خانہ جات اور دیگر کئی منسٹریوں کے قلمدان سنبھالے ارمغان سباھنی نے بھی اسی سال پہلی مرتبہ لاہور میں صوبائی اسمبلی کی سیڑھیوں پر قدم رکھا یوں گجر گھرانے کے چار لوگ اسمبلیوں میں پہنچے ۔وریو خاندان کا کمال یہ تھا کہ ان کی برادری تو گجر تھی مگر وہ کسی بھی برادری کے چہیتے تھے جس کا مظاہرہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ان کا ڈیرہ آج بھی لوگوں کی خدمت کے لئے کھلا ہے مگر صاحبان اقتتدار ان کی عظمت رفتہ سے ڈرے سہمے ان کے کام نہیں ہونے دیتے۔چودھری عبدالستار وریو انتہائی نیک پنجگانہ نماز ادا کرنے والے میری مدینہ منورہ میں ان سے کئی ملاقاتیں رہین شرف میزبانی بخشا میں نے انہیں کئی بار حرم مسجد نبوی میں قیام اللیل کے لئے چھوڑا ان دنوں میں مدینہ منورہ میں نوکری کیا کرتا تھا2001 میں لوکل باڈیز الیکشن میں وریو گروپ نے 124 میں سے 61 نشستیں قابو کیں2002 مین نیب نے انہیں کرپشن کے الزام میں جیل بھیجا جو لاہور ہائی کورٹ ایک فیصلے میں کالعدم قرار دی۔چودھری صاحب شوگر کے مریض تھے ان کا طرز عمل بیماری کے ساتھ بھی عاشقانہ رہا پیپسی وغیرہ خوب پیا کرتے تھے۔انہیں دل کا عارضہ لاحق ہوا پانچ دن قومے میں رہے اور 16 جون 2008 کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے 76 سال عمر پائی۔ 17 جون 2008 کو وریو ضلع سیالکوٹ میں دفن ہوئے۔غضب کے محفل آراءشخص تھے گھنٹوں لوگ ان کو سنا کرتے سگریٹ نوشی میں بھی اپنا ایک انداز تھا کھبے ہاتھ کا سوٹا لگاتے تو سیگریٹ کو بھی پتہ چل جاتا کہ کس گجر سے پالا پڑا ہے دھویں کا بھی دھواں نکال کے رکھ دیتے تھے۔شائد یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سلوک جس سے کیا عاقانہ کیا۔

یاروں کے یار تھے۔میرے بھتیجے فیصل سے دوستی تھی۔روپوشی کے دنوں میں میرے کزن چودھری ذوالفقار علی کے ہاں کچھ عرصہ گزارا۔انہوں نے بساط بھر مدد بھی کی۔یہ میرے خاندان کے لئے اعزاز تھا۔حرمین میں ان کی پذیرائی کا شرف بھی رہا۔چودھری صاحب کے ساتھ چودھری مہدی بھی ایک خدمت گزار برخوردار کی حیثیت سے رہے۔کبھی ان سے نشست ہوئی تو مزید یادیں تازہ کروں گا

سچ پوچھیں میں نے زندگی میں ان جیسا دلیر یاروں کا یار نہیں دیکھا ویسے تو گجر ماں نے بڑے جنے ہوں گے اور ضروری نہیں کہ سب سے میں ملا ہوں گا لیکن میری ملاقاتیں جان پہچان جن سے رہی ان میں چودھری اختر علی وریوں جیسا دھبنگ شخص کبھی نہیں دیکھا ان کا عروج دیکھا جب وہ عارف نکئی کے دور میں پنجاب کے حاکم بنے۔وریو خاندان سے میرا تعارف چودھری اکرم کے ذریعے ہوا چودھری اکرم جدہ میں رہتا ہے منحنی سا شخص بڑے دل گردے کا مالک ہے ہاتھوں میں اپنے قد جتنی سگریٹ کی ڈبی خوبصورت سیگریٹ لائٹر لئے زہرہ ہوٹل کے دائیں بائیں آپ کو نظر آئے گا۔ دوستوں کا دوست ہے 90 فی صد اس سے ڈر کے دوستی کرتے ہیں باقی دس فیصد پتہ نہیں کدھر ہوتے ہیں؟اس کے ساتھ دوستی کی اتار چڑھاؤ کی کافی منزلیں طے کی ہیں۔وریو خاندان اس کا قطب نما ہے جدھر وریو ادھر اکرم۔اس کے بارے میں ایک دوست ریاض بخاری جو پیپلز پارٹی سعودی عرب کا تا حیات صدر ہے اس کا کہنا ہے چودھری اکرم سڑک صاف ہو تا حد نگاہ روشنی ہو وہ گاڑی کچے میں اتارے ہی اتارے ۔پارہ صفت شخص کا لیڈر بھی پارہ تھا۔خالص گجروں کی صلاحیتیں رکھنے والے اس دوست کی دوستی مشکل وقت میں کام آتی ہے۔اس کے ڈھیرے پر چودھری اختر سے ملاقاتیں رہیں۔چودھری صاحب بڑی ھکلی ڈلی پنجابی کا استعمال کرتے تھے۔لوگ کہا کتے تھے چودھری دیاں گالاں گھیو دیاں نالاں ۔ویسے بھی وسطی پنجاب میں گالی ایک تکئیہ کلام سی بن کے رہ گئی ہے وہ تو اس فن میں مشاق تھے۔چودھری امیر حسین کے بارے میں بتایا کہ میں نواز شریف کو بتایا کرتا تھا کہ امیر حسین میرا بھائی ہے۔کہنے لگے افتخار ایک بار میاں نے مجھے کہا کہ امیر حسین کا نام دو تا کہ میں اسے وزیر بناں ،کہنے مجھے ۔۔۔۔اس کے باپ کا نام بھی معلوم نہیں تھا بڑی مشکل سے پتہ کرایا۔یاد رہے ان دنوں چودھری اختر میاں صاحبان سے دور ہو چکے تھے اور چودھری امیر حسین ان تھے۔

ایک اور موقع پر بتایا کہ ایک جلسے میں میاں نواز شریف نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سنا ہے چودھری اختر گالیاں بہت دیتے ہیں۔کہنے لگے میں نے مائیک پکڑ لیا اور کہا گالیاں تو میں دیتا ہوں کوئی اور،،،،،مک دے کر تو دکھائے۔چودھری صاحب وہ شخص تھے جنہوں نے اپنے علاقے سے دو بار مختلف لوگوں کو ممبر قومی اسمبلی بنوایا ایک نواز شریف اور دوسرے غلام مصطفی جتوئی تھے۔غلام مصطفی جتوئی کا ساتھ دینا انہیں مہنگا پڑ گیا اور ان کا زوال جتوئی صاحب کے وزیر اعظم نہ بننے سے ہوا۔چودھری اختر علی کی شہرہ آفاق شخصیت کو میں جتنا قریب سے دیکھا میں تو اتنا ہی لکھ سکتا ہوں۔آج جب پانامہ لیکس کا ذکر چل نکلا ہے تو مجھے ڈر ہے کہ ان کانام بھی کسی وقت سامنے آ سکتا ہے اس لئے کہ شنید ہے آسٹریلیا میں دنیا کا سب سے بڑا شیپ فارم ان کا ہے۔اللہ جانے سچ کہے یا جھوٹ اگر نام آیا تو سمجھ لیجئے کہ ہمارا چودھری بھی نمک منڈی کی ڈل ہے۔انسان کی خوبیاں خرابیاں اپنی جگہ اللہ شیطان کے کان ڈورے کرے۔چودھری صاحب انسان ہی تو تھے فرشتہ تو نہ تھے۔

چودھری اکرم کے گھرمیں نے ان سے سوال کیا کہ آپ کس طرح چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل بنے تو کہنے لگے الیکشن تو میں جیت گیا ان دنوں جنرل سوار خان جو تگڑے گجر پرست جرنیل تھے۔وہ جنرل ضیاءجو ارائیں پرستی میں ان سے آگے نکلے ہوئے ان کے نیچے پنجاب کے گورنر تھے۔جنرل سوار خان کی اللہ لمبی عمر کرے ان تک چودھری صاحب نے رسائی کی۔چودھری صاحب دانیال عزیز کے والد چودھری انور عزیز کی بھی قدر کیا کرتے تھے۔بیٹا تو چودھری انور عزیز کے رتی برابر بھی ثابت ہوا اسی نواز شریف کا سپیکر بن گیا ہے جس کے بارے میں دنیا کو بتاتا رہا کہ وہ پاکستان کے وسائل سے کھیل رہے ہیں۔سیاست میں دو رخی کے کئی نام رکھ دئے گئے ہیں۔خیر بات ڈسٹرکٹ کونسل کی چیئرمین شپ کی بات ہو رہی تھی کہنے لگے میں نے انہیں کہا گجر ہوں جیت آیا ہوں آگے آپ کی مرضی چیئرمین بنائیں یا چپڑاسی۔گورنر صاحب نے ان کے اوپر ہاتھ رکھا۔چودھری صاحب کی چیئرمینی کا دور سیالکوٹ میں تبدیلی کا دور ثابت ہوا کھانے پینے کے شوقین تو تھے ہی لیکن غریب پروری مین ان کا جوڑ نہیں تھا۔علاقے کی قسمت بدل کے رکھ دی۔سوچئے یہ وہ دور تھا جب خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدرجنرل ضیاء کی ناک کا بال تھے۔چودھری اختر علی وریو نے خواجہ صفدر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور سیالکوٹ میں گجر شاہی کا عملی نفاذ کر کے دکھا دیا۔یہی وجہ ہے کہ خواجہ آصف آج ان کی اولاد کو اٹھنے نہیں دیتے۔

چودھری صاحب پورے پاکستان کے گجروں کے پسندیدہ تھے۔
ایک بار غلام حیدر وائیں
وائیں مرحوم کے پاس کسی کی سفارش لے کر چلے گئے کہ اسے نوکری دو وائیں صاحب نے کہا چودھری صاحب یہ میرٹ پر پورا نہیں اترتا کہا وائیں جی نہ تسی میرٹ تے وزیر اعلی بنے او نہ میں ایتھے کگھی مارو۔

کاغان سے کراچی بلوچستان سے لنڈی کوتل غرض افغانستان کے گجر بھی اگر کوئی کام لے کر آتے تو جان لڑا دیتے تھے۔میں ایک بار جدہ کے مہران ہوٹل میں سپاس نامہ پیش کر رہا تھا ،میں نے کہا کہ چونگیوں والے ہمیں تنگ کرتے ہیں انہیں سمجھائین وہیں مائیک پکڑ کر اعلان کیا عارف نکئی یہ تمہاری طرف سے اعلان ہے آج سے کوئی چونگی والا آپ کو نہیں روکے گا۔چودھری اختر علی کا ایک مشہور واقعہ ہے کسی کام سے وزیر اعظم ہاس جا رہے تھے غالبا دیر کے گجروں کے معاملے جو الجھ گئے تھے اس سلسے میں جا رہے تھے گیٹ پر پولیس نے انہیں روک لیا بی بی وزیراعظم تھیں۔ڈیوٹی پر تعینات افسر نے مزاحمت کی۔چودھری صاحب نے ڈرائیور سے کہا کہ گیٹ توڑ دو اس نے گیٹ پر گاڑی مار دی جس سے گیٹ ٹوٹ گیا۔وہ وزیر اعظم تک پہنچے اور سخت الفاظ میں کہا کہ حکومت ہماری وجہ سے اور ہم غریب عوام کی بات کرنے آئیں تو روک لیئے جائیںیاد رہے چودھری صاحب بونیر کے گجروں کے مسائل کے لئے گئے تھے وہاں کے جاگیر داروں نے ان کے گھر جلا دےے تھے جس پر وہ شور کرتے ہوئے اسمبلی ہال پہنچے جہاں کسی نے انہیں کہا کہ گجر ہو تو اختر علی وریو سے ملو وہ کام کروا دے گا۔بڑے آ کڑ خان تھے ایک بار جدہ سے مدینہ جا رہے تھے ایئرپورٹ پر دوستوں سے گپوں میں مصروف تھے ایک شرطے نے کہا ذرا پرے ہو کر کھڑے ہوں اسے پنجابی میں ڈانٹ دیا ۔

ایک بار شیر پا کو ملنے گئے تو وہ انہیں چھوڑنے باہر آئے چند غریب گجر شیر پاؤ، جو اس وقت کے وزیر اعلی تھے،انہوں نے جب دیکھا کہ آفتاب شیر پاؤ  تو چودھری صاحب کے بڑے قریبی ہیں ان سے درخواست کی کہ ہمارا کام ہے جو وزیر اعلی نہیں کر رہے ۔چودھری اختر علی نے شیرپا کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔ یہ گجر ہیں اور تم بھی ،اور میں بھی فرق یہ ہے تمہیں گن آتی ہے اور مجھے خوشبو،ان کا کام کرو ورنہ میں بی بی سے کروا لوں گا۔

مر گئے زمین میں دفن ہو گئے اس قسم کے لیڈر آج گجر قوم کو وہ سردار ملے ہیں جن کے بارے میں میں نے پنڈی کے جلسے میں کہا تھا کہ ہمیں وہ سرادرا قوم چاہئے حقیقی معنوں میں سر دار ثابت ہو اور کسی بھی غیر قوم کے سامنے جھکے نہیں دبے نہیں۔گجر قوم کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ کہ دھبنگ ،دلیر اور بہادر قوم کو اس کے مزاج کا لیڈر نہیں ملا ہے۔مسکین اور بزدل سردار کبھی قوم کو مشکلات سے نہیں نکال سکتے۔جن کی اپنی خواہشات کی چادریں وسیع ہوں وہ اس قوم کو کیا دیں گے جو اب سر اٹھا رہی ہے ۔البتہ اتنا ضرور ہے کہ گجروں کو اپنی طاقت کا اندازہ ہو چکا ہے وہ غیر گجروں کی زبانی ہمیں بھی علم ہے مانسہرہ میں گجر طاقت کے سامنے اب لرزاں لوگ کبھی کبھی ہمیں بھی دکھڑے سنانے آتے ہیں۔ صرف گجر نام کے لئے تڑپتی اس قوم کو ہر قدم پر مخلص ساتھی اور قائد کی ضرورت ہے۔جو میں سمجھتا ہوں چودھری اختر علی کی شکل میں ہو۔

اپنے سے جو ہو سکا کیا جائیں نواز شریف سے پوچھیں کہ جدہ جیل میں جب ان کےلئے جیل گیا تو کیا سوال
 تھا اور کیا جواب تھا۔گجر بزدل پیدا نہیں ہوتا اسے کر دیا جاتا ہے اور کرنے والے قصائی کی طرح ہیں جو داندھ کو بن کر خسی کرتے ہیں اسی طرح اس قوم کے ساتھ وہی بہیمانہ سلوک ہو رہا ہے جس کا ماتم میں کر رہا ہوں۔ادھر ادھر سے قوم کو اکٹھا کر کے اپنی سیاسی دکان کو چمکایا جا رہا ہے اس میں سب شامل ہیں کچھ نئے سر اٹھانے کے لئے کوشش میں ہیں۔بدقسمتی سے کچھ لوگ کرائے پر دستیاب ہیں جن کا کام شامیانے تنبو قناتیں لگانا ہے۔ایسے لوگ ہما وقت مناسب قیمت پر گجر منڈی میں مل جاتے ہیں۔

میں نے سردار یوسف صاحب کو جدہ میں کہا تھا کہ سرداری کرنی ہے تو وزارت چھوڑیں کہا آپ کی مرضی ہے کہ وزارت بھی ہاتھوں سے جائے۔میں یہ کبھی نہیں کہوں گا کہ وہ وزارت چھوڑیں لیکن اتنا ضرور کریں کہ برادری کے لئے کوئی ایسا کام کر جائیں کہ تاریخ میں امر ہوں۔سارے گجر اگر مل کر چودھری رحمت علی کے جسد خاکی کو ہی پاکستان لے آئیں تو سمجھتا ہوں کہ کام بن جائے گا.

ہمیں سچ پوچھیں چودھری اختر علی وریو جیسے دلیر شخص کی ضرور ت ہے۔جو سیاسی میدان کا شہسوار ہو کر بھی قوم کا خادم ہو۔چودھری صاحب سے تعلق اور تعارف بھی عجیب تھا میں کوشش کروں گا کہ وہ تصویر مل جائے جب ان سے تعارف کرایا گیا کہ انجینئر افتخار چودھری گجروں کی سب سے بڑی تنظیم کے چیئرمین ہیں ہاتھ ملایا اور کہا کہ میں بھی گجر ہوں اگر گجروں کے کام نہ آں تو فلاں۔۔۔ہوں۔زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے۔ان کے بھائی چودھری عبدالستار وریو محبت پیار کا زمزمہ۔نرم دم گفتگو گرم دم جستجو۔ اختر صاحب نے کہا عبدالستار بڑی نمازیں پڑھتا ہے دیکھو وہ تو جیل سے ہو آیا میرا اللہ مجھے ان گستاخیوں کے باوجود پناہ میں رکھے ہوئے ہے۔چودھری صاحب کی میزبانی بھی اکرم کی پارہ مزاجی کا شکار ہوتی رہی۔کبھی وہ خوش ہوتا تو چودھری صاحب کی فیملی کو بھی ہمیں خدمت کا موقع دے دیتا نہ بنی ہوئی ہوتی تو پر نہیں مارنے دیتا تھا ایک بار صرف چائے کا ٹائم دیا میں اپنے اس چھوٹے سے گھر میں ۴۶ ڈشوں کا اہتمام کر ڈالا جس مین پنجابی بیر بھی تھے جدہ میں میرے گھر شاہ اترا تھا کیوں نہ کرتا۔کہنے لگے چوئری وہ  چودھری کو چوئری کہا کرتے تھے تیر اس مہمان نوازی نے دل جیت لیا ہے۔ایسا ہی کرنا چاہئے یہ اس پر منحصر نہیں ہوتا کہ مہمان کھائے گا کیا؟یہ اس آنے والے کی عزت ہوتی ہے۔فقیر کی جیب خالی تو ہو سکتی ہے دسترخوان پر فرشتے ڈھیر لگا جاتے ہیں۔صدقے آج بھی چودھری اختر علی لوٹے تو گھر لوٹا دوں۔

 چودھری اختر علی کی میاں نواز شریف فیملی سے ناراضگی پیدا کرنے میں کہتے ہیں چودھری امیر حسین کا ہاتھ ہے انہوں نے میاں شریف کو چودھری صاحب کی ایک ایسی کیسٹ سنوا دی جس میں چودھری اختر علی اپنے خاص موڈ میں گفتگو کرتے دکھائی دےے ۔جنرل مشرف دور میںان پر زوال آیا ۔ان کی طبیعت خراب رہنے لگی ڈسکہ میں چودھری اکرم کے بھائی کی وفات پر گیا تھا ملا ان کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔کچھ عرصہ قبل وہ اس جہان سے رخصت ہوگئے۔قوم ایک شاہسوار سے محروم ہوئی ۔ان کی موت پر نوحہ ءانیس لکھا جا سکتا ہے ۔افسوس یہ کہ وہ اولاد تو چھوڑ گئے مگر ان کا مقصد حیات ان کے ساتھ ہی مر گیا۔جس مشن پے باپ ڈٹا رہا اسے پس پشت ڈال کروہ اسمبلیوں میں تو پہنچ گئے مگر کینہ پرور لوگوں نے انہیں پیچھے دھکیل دیا خواجہ آصف کو جو مار چودھری اختر علی نے دی تھی اور جو رویہ میاں صاحب کے ساتھ تھا وہ کوئی بھی نہیں بھولا ۔ اپنے باپ کی انکھ اور خودداری کو پس پشت ڈال کے۔یقین کیجئے مجھے آج بھی خانوادہ،  وریو سے پیار ہے میں ان میں وہی شعلہ وہی لپک دیکھنا چاہتا ہوں ۔کسی نے سچ کہا ہے کہ خودی کی سر بلندی قربانیاں مانگتی ہے ہو سکتا ہے وہ دیتے دیتے تھک گئے ہوں۔انہیں البتہ یہ یاد رہنا چاہئے کہ کہ اونٹ اور کسی سیاسی دشمن کبھی وار کرنے سے باز نہیں رہتے.

چودھری اختر آج بھی جدہ کے ہوٹل میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں چمکدار روشن آنکھوں کے ساتھ۔لوگو! نر تو سب نے ہی جانا ہے اس نے بھی جو خوشامدی اور چاپلوس ہے اور اس نے بھی جس نے اپنی انا کو سودہ نہیں کیا۔پہاڑ میں میر ا بھائی مختار گجر چودھری اختر علی تھا اور ادھر میں بساط بھر اس دئیے کو جلائے رکھنے کی سعی کر رہا ہوں۔دعا کرنا اختر مریں نہیں زندہ رہیں۔کبھی مختار گجر سے بھی آپ کو ملواں گا جس نے  اسلام آباد کے پیچھے پہاڑ کے لوگوں کو راجاں کی کلچ سے نکالا۔ اور جدوجہد کرتا زیر زمین چلا گیا۔ہزارہ کا سب سے پہلا گجر نام انہی کا تھا۔وریو کی سوچ ان کے مرنے سے مری نہیں البتہ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس کی صورت زندہ ملتی ہے۔گھوڑا اور میدان دونوں موجود ہیں دیکھتے ہیں کون جیتتا ہے۔

چودھری اختر علی وریو کے لئے یہی کافی ہے
تیرے جئے پت جمن مانواں
کدھرے کدھرے کوئی کوئی

____________________________________________________________________________
نوٹ: میراث  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو/ گوجری  بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ مندرجہ ذیل ای میل ایڈریس  پر ای میل کریں۔