اتوار، 11 ستمبر، 2016

چودھری اختر وریو! گجر قوم کا درخشندہ ستارہ


چودھری اختر وریو! گجر قوم کا درخشندہ ستارہ 
انجینئر افتخار چودھری

چودھری صاحب کے حوالے سے میں ایک تحریر لکھی تھی جو گجر رسائل میں چھپی مجھے دنیا بھر سے تعریفی اور تنقیدی کالز آئیں۔بہت سو ں نے سراہا اور بہت سوں نے گلہ گزاری بھی کی۔مجھے جوہانسبرگ سے گجر طلباءکے ایک گروپ نے جن کا تعلق سیالکوٹ اور گردونواح سے نے کہا آپ نے سب کچھ لکھا مگر ہمیں یہ نہیں بتایا کہ ان کی سوانح عمری کیا ہے سیاست کب کہاں سے شروع کی کیا حاصل کیا اور وہ دوسرے گجر لیڈران سے مختلف کیوں تھے۔ان کی اولاد کس حال میں ہے اور کیا کر رہی ہے؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان کے گھرانے سے اس عظیم شخص  کے بارے میں کچھ کام ہوتا کوئی کتاب لکھی جاتی مگر افسوس یہ کام ہو نہ سکا۔میرے کچھ سیاسی دوستوں کو کچھ جملوں پر اعتراض بھی تھا۔میں نے سوچا چلیں اسی مضمون میں کچھ ترمیم کرتے ہیں اور اپنی نوجوان نسل کو وریو سٹار کے بارے میں بتاتے ہیں۔میں کوئی مدح سراءنہیں ہوں میرے تعلقات ان خاندانوں کے ساتھ دوستانہ ہیں۔قلم سے تعلق ہے دل نے جو اچھا سمجھا اسے لکھ دیا یہ خصوصی تحریر چھپنی تو ان کی برسی پر چاہئے لیکن جب بھی چھپے یہ تاریخی حوالہ ہو گا۔اللہ ان کے درجات بلند کرے اور جنت میں اعلی مقام دے۔اس موقع پر ان کے چاہنے والوں سے درخواست ہے کہ اگر کوئی مواد آپ کے پاس ہے تو اسے شیئر کریں تا کہ اسے کتابی شکل دی جا سکے۔

 عربی میں کہتے ہیں رجل کثیرا لکن رجل القلیل۔مرد تو بہت ہوتے ہیں لیکن مرد کوئی کوئی ہوتا ہے۔اس دنیا میں بہت سے لوگ روز پیدا ہوتے ہیں اور کچھ اتنے ہی روز مر بھی جاتے ہیں۔کچھ لوگ حیوانوں کی طرح پیدا ہو کر پڑھ لکھ کر شادی بیاہ رچا کر دو چار پانچ لوگ دے کر قبرقں میں جا گھستے ہیں۔یہ حیوانی جبلت ہے اکثر دیکھا گیا میری اولاد میرے بچے میری بیوی میری بیٹی میری میری کرتے خرچ ہو جاتے ہیں جن کے پوتوں کو بھی نہیں پتہ ہوتا کہ دادا موصوف کون تھے۔اور کچھ لوگوں کے نام سے خاندان جانے جاتے ہیں گاؤں معروف ہوتے ہیں علاقہ اور وطن ان کے وجود پر فخر کرتا ہے۔آج لوگ بیسیوں جرنیلوں کے نام سے ناوقاف ہوں گے مگر میجر طفیل شہید کا نام تو بچہ بچہ جانتا ہے۔سیاست دانوں میں اور بہت سے پیدا ہوئے چلے گئے لیکن میں جس سیاست دان برادری پرست کا تعارف کرانا چاہتا ہوں وہ بہار کی ہوا کی طرح جانا جاتا ہے
میں اس کا نام نہ لوں لوگ پھر بھی پہچانیں کہ آپ اپنا تعاف ہوا بہار کی ہے
چودھری اختر علی وریو جسے میں اور آپ سب جانتے ہیں۔
مرحوم کا تعلق متحدہ ہندو ستان سے تھا سیالکوٹ کے پاس وریو گاؤں  میں ڈیرہ لگایا ۔باپ ذیلدار تھا۔

 1979 سے 1985 تک ڈسٹرکٹ کونسل سیالکوٹ کے چیئرمین بنے 85 میں پی پی 143 سے صوبائی اسمبلی میں قدم رکھا 1988 میں آئی جے آئی کے ٹکٹ پر پی پی 104 سے ایک بار فتح حاصل کے وزیراعلی نواز شریف کے صوبائی وزیر برائے مواصلات بنے تیسری بار پی پی 106 سے میدان مارا1993 میں این اے ۰۸ سے چودھری امیر حسین کو شکست دیجو اسپیکر قومی اسمبلی بھی رہے تھے ان کا تعقل بھی گجر برادری سے تھا لیکن اقتتدار کی دوڑ میں وہ چودھری اختر علی سے جدا ہو گئے تھے جس کا ذکر میں آگے کروں گا۔مزے کی بات ہے اسی سال این اے 88 سے چودھری عبدالستار وریو بھی دوسری بار اسلام آباد کے ایوان میں پہنچے یہ سال وریو خاندان کی سیاسی معراج کا سال ہے اسی سال چودھری خوش اختر سبحانی کم عمر رکن صوبائی اسمبلی بنے اور منظور وٹو کی حکومت میں امور جیل خانہ جات اور دیگر کئی منسٹریوں کے قلمدان سنبھالے ارمغان سباھنی نے بھی اسی سال پہلی مرتبہ لاہور میں صوبائی اسمبلی کی سیڑھیوں پر قدم رکھا یوں گجر گھرانے کے چار لوگ اسمبلیوں میں پہنچے ۔وریو خاندان کا کمال یہ تھا کہ ان کی برادری تو گجر تھی مگر وہ کسی بھی برادری کے چہیتے تھے جس کا مظاہرہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ان کا ڈیرہ آج بھی لوگوں کی خدمت کے لئے کھلا ہے مگر صاحبان اقتتدار ان کی عظمت رفتہ سے ڈرے سہمے ان کے کام نہیں ہونے دیتے۔چودھری عبدالستار وریو انتہائی نیک پنجگانہ نماز ادا کرنے والے میری مدینہ منورہ میں ان سے کئی ملاقاتیں رہین شرف میزبانی بخشا میں نے انہیں کئی بار حرم مسجد نبوی میں قیام اللیل کے لئے چھوڑا ان دنوں میں مدینہ منورہ میں نوکری کیا کرتا تھا2001 میں لوکل باڈیز الیکشن میں وریو گروپ نے 124 میں سے 61 نشستیں قابو کیں2002 مین نیب نے انہیں کرپشن کے الزام میں جیل بھیجا جو لاہور ہائی کورٹ ایک فیصلے میں کالعدم قرار دی۔چودھری صاحب شوگر کے مریض تھے ان کا طرز عمل بیماری کے ساتھ بھی عاشقانہ رہا پیپسی وغیرہ خوب پیا کرتے تھے۔انہیں دل کا عارضہ لاحق ہوا پانچ دن قومے میں رہے اور 16 جون 2008 کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے 76 سال عمر پائی۔ 17 جون 2008 کو وریو ضلع سیالکوٹ میں دفن ہوئے۔غضب کے محفل آراءشخص تھے گھنٹوں لوگ ان کو سنا کرتے سگریٹ نوشی میں بھی اپنا ایک انداز تھا کھبے ہاتھ کا سوٹا لگاتے تو سیگریٹ کو بھی پتہ چل جاتا کہ کس گجر سے پالا پڑا ہے دھویں کا بھی دھواں نکال کے رکھ دیتے تھے۔شائد یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سلوک جس سے کیا عاقانہ کیا۔

یاروں کے یار تھے۔میرے بھتیجے فیصل سے دوستی تھی۔روپوشی کے دنوں میں میرے کزن چودھری ذوالفقار علی کے ہاں کچھ عرصہ گزارا۔انہوں نے بساط بھر مدد بھی کی۔یہ میرے خاندان کے لئے اعزاز تھا۔حرمین میں ان کی پذیرائی کا شرف بھی رہا۔چودھری صاحب کے ساتھ چودھری مہدی بھی ایک خدمت گزار برخوردار کی حیثیت سے رہے۔کبھی ان سے نشست ہوئی تو مزید یادیں تازہ کروں گا

سچ پوچھیں میں نے زندگی میں ان جیسا دلیر یاروں کا یار نہیں دیکھا ویسے تو گجر ماں نے بڑے جنے ہوں گے اور ضروری نہیں کہ سب سے میں ملا ہوں گا لیکن میری ملاقاتیں جان پہچان جن سے رہی ان میں چودھری اختر علی وریوں جیسا دھبنگ شخص کبھی نہیں دیکھا ان کا عروج دیکھا جب وہ عارف نکئی کے دور میں پنجاب کے حاکم بنے۔وریو خاندان سے میرا تعارف چودھری اکرم کے ذریعے ہوا چودھری اکرم جدہ میں رہتا ہے منحنی سا شخص بڑے دل گردے کا مالک ہے ہاتھوں میں اپنے قد جتنی سگریٹ کی ڈبی خوبصورت سیگریٹ لائٹر لئے زہرہ ہوٹل کے دائیں بائیں آپ کو نظر آئے گا۔ دوستوں کا دوست ہے 90 فی صد اس سے ڈر کے دوستی کرتے ہیں باقی دس فیصد پتہ نہیں کدھر ہوتے ہیں؟اس کے ساتھ دوستی کی اتار چڑھاؤ کی کافی منزلیں طے کی ہیں۔وریو خاندان اس کا قطب نما ہے جدھر وریو ادھر اکرم۔اس کے بارے میں ایک دوست ریاض بخاری جو پیپلز پارٹی سعودی عرب کا تا حیات صدر ہے اس کا کہنا ہے چودھری اکرم سڑک صاف ہو تا حد نگاہ روشنی ہو وہ گاڑی کچے میں اتارے ہی اتارے ۔پارہ صفت شخص کا لیڈر بھی پارہ تھا۔خالص گجروں کی صلاحیتیں رکھنے والے اس دوست کی دوستی مشکل وقت میں کام آتی ہے۔اس کے ڈھیرے پر چودھری اختر سے ملاقاتیں رہیں۔چودھری صاحب بڑی ھکلی ڈلی پنجابی کا استعمال کرتے تھے۔لوگ کہا کتے تھے چودھری دیاں گالاں گھیو دیاں نالاں ۔ویسے بھی وسطی پنجاب میں گالی ایک تکئیہ کلام سی بن کے رہ گئی ہے وہ تو اس فن میں مشاق تھے۔چودھری امیر حسین کے بارے میں بتایا کہ میں نواز شریف کو بتایا کرتا تھا کہ امیر حسین میرا بھائی ہے۔کہنے لگے افتخار ایک بار میاں نے مجھے کہا کہ امیر حسین کا نام دو تا کہ میں اسے وزیر بناں ،کہنے مجھے ۔۔۔۔اس کے باپ کا نام بھی معلوم نہیں تھا بڑی مشکل سے پتہ کرایا۔یاد رہے ان دنوں چودھری اختر میاں صاحبان سے دور ہو چکے تھے اور چودھری امیر حسین ان تھے۔

ایک اور موقع پر بتایا کہ ایک جلسے میں میاں نواز شریف نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سنا ہے چودھری اختر گالیاں بہت دیتے ہیں۔کہنے لگے میں نے مائیک پکڑ لیا اور کہا گالیاں تو میں دیتا ہوں کوئی اور،،،،،مک دے کر تو دکھائے۔چودھری صاحب وہ شخص تھے جنہوں نے اپنے علاقے سے دو بار مختلف لوگوں کو ممبر قومی اسمبلی بنوایا ایک نواز شریف اور دوسرے غلام مصطفی جتوئی تھے۔غلام مصطفی جتوئی کا ساتھ دینا انہیں مہنگا پڑ گیا اور ان کا زوال جتوئی صاحب کے وزیر اعظم نہ بننے سے ہوا۔چودھری اختر علی کی شہرہ آفاق شخصیت کو میں جتنا قریب سے دیکھا میں تو اتنا ہی لکھ سکتا ہوں۔آج جب پانامہ لیکس کا ذکر چل نکلا ہے تو مجھے ڈر ہے کہ ان کانام بھی کسی وقت سامنے آ سکتا ہے اس لئے کہ شنید ہے آسٹریلیا میں دنیا کا سب سے بڑا شیپ فارم ان کا ہے۔اللہ جانے سچ کہے یا جھوٹ اگر نام آیا تو سمجھ لیجئے کہ ہمارا چودھری بھی نمک منڈی کی ڈل ہے۔انسان کی خوبیاں خرابیاں اپنی جگہ اللہ شیطان کے کان ڈورے کرے۔چودھری صاحب انسان ہی تو تھے فرشتہ تو نہ تھے۔

چودھری اکرم کے گھرمیں نے ان سے سوال کیا کہ آپ کس طرح چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل بنے تو کہنے لگے الیکشن تو میں جیت گیا ان دنوں جنرل سوار خان جو تگڑے گجر پرست جرنیل تھے۔وہ جنرل ضیاءجو ارائیں پرستی میں ان سے آگے نکلے ہوئے ان کے نیچے پنجاب کے گورنر تھے۔جنرل سوار خان کی اللہ لمبی عمر کرے ان تک چودھری صاحب نے رسائی کی۔چودھری صاحب دانیال عزیز کے والد چودھری انور عزیز کی بھی قدر کیا کرتے تھے۔بیٹا تو چودھری انور عزیز کے رتی برابر بھی ثابت ہوا اسی نواز شریف کا سپیکر بن گیا ہے جس کے بارے میں دنیا کو بتاتا رہا کہ وہ پاکستان کے وسائل سے کھیل رہے ہیں۔سیاست میں دو رخی کے کئی نام رکھ دئے گئے ہیں۔خیر بات ڈسٹرکٹ کونسل کی چیئرمین شپ کی بات ہو رہی تھی کہنے لگے میں نے انہیں کہا گجر ہوں جیت آیا ہوں آگے آپ کی مرضی چیئرمین بنائیں یا چپڑاسی۔گورنر صاحب نے ان کے اوپر ہاتھ رکھا۔چودھری صاحب کی چیئرمینی کا دور سیالکوٹ میں تبدیلی کا دور ثابت ہوا کھانے پینے کے شوقین تو تھے ہی لیکن غریب پروری مین ان کا جوڑ نہیں تھا۔علاقے کی قسمت بدل کے رکھ دی۔سوچئے یہ وہ دور تھا جب خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدرجنرل ضیاء کی ناک کا بال تھے۔چودھری اختر علی وریو نے خواجہ صفدر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور سیالکوٹ میں گجر شاہی کا عملی نفاذ کر کے دکھا دیا۔یہی وجہ ہے کہ خواجہ آصف آج ان کی اولاد کو اٹھنے نہیں دیتے۔

چودھری صاحب پورے پاکستان کے گجروں کے پسندیدہ تھے۔
ایک بار غلام حیدر وائیں
وائیں مرحوم کے پاس کسی کی سفارش لے کر چلے گئے کہ اسے نوکری دو وائیں صاحب نے کہا چودھری صاحب یہ میرٹ پر پورا نہیں اترتا کہا وائیں جی نہ تسی میرٹ تے وزیر اعلی بنے او نہ میں ایتھے کگھی مارو۔

کاغان سے کراچی بلوچستان سے لنڈی کوتل غرض افغانستان کے گجر بھی اگر کوئی کام لے کر آتے تو جان لڑا دیتے تھے۔میں ایک بار جدہ کے مہران ہوٹل میں سپاس نامہ پیش کر رہا تھا ،میں نے کہا کہ چونگیوں والے ہمیں تنگ کرتے ہیں انہیں سمجھائین وہیں مائیک پکڑ کر اعلان کیا عارف نکئی یہ تمہاری طرف سے اعلان ہے آج سے کوئی چونگی والا آپ کو نہیں روکے گا۔چودھری اختر علی کا ایک مشہور واقعہ ہے کسی کام سے وزیر اعظم ہاس جا رہے تھے غالبا دیر کے گجروں کے معاملے جو الجھ گئے تھے اس سلسے میں جا رہے تھے گیٹ پر پولیس نے انہیں روک لیا بی بی وزیراعظم تھیں۔ڈیوٹی پر تعینات افسر نے مزاحمت کی۔چودھری صاحب نے ڈرائیور سے کہا کہ گیٹ توڑ دو اس نے گیٹ پر گاڑی مار دی جس سے گیٹ ٹوٹ گیا۔وہ وزیر اعظم تک پہنچے اور سخت الفاظ میں کہا کہ حکومت ہماری وجہ سے اور ہم غریب عوام کی بات کرنے آئیں تو روک لیئے جائیںیاد رہے چودھری صاحب بونیر کے گجروں کے مسائل کے لئے گئے تھے وہاں کے جاگیر داروں نے ان کے گھر جلا دےے تھے جس پر وہ شور کرتے ہوئے اسمبلی ہال پہنچے جہاں کسی نے انہیں کہا کہ گجر ہو تو اختر علی وریو سے ملو وہ کام کروا دے گا۔بڑے آ کڑ خان تھے ایک بار جدہ سے مدینہ جا رہے تھے ایئرپورٹ پر دوستوں سے گپوں میں مصروف تھے ایک شرطے نے کہا ذرا پرے ہو کر کھڑے ہوں اسے پنجابی میں ڈانٹ دیا ۔

ایک بار شیر پا کو ملنے گئے تو وہ انہیں چھوڑنے باہر آئے چند غریب گجر شیر پاؤ، جو اس وقت کے وزیر اعلی تھے،انہوں نے جب دیکھا کہ آفتاب شیر پاؤ  تو چودھری صاحب کے بڑے قریبی ہیں ان سے درخواست کی کہ ہمارا کام ہے جو وزیر اعلی نہیں کر رہے ۔چودھری اختر علی نے شیرپا کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔ یہ گجر ہیں اور تم بھی ،اور میں بھی فرق یہ ہے تمہیں گن آتی ہے اور مجھے خوشبو،ان کا کام کرو ورنہ میں بی بی سے کروا لوں گا۔

مر گئے زمین میں دفن ہو گئے اس قسم کے لیڈر آج گجر قوم کو وہ سردار ملے ہیں جن کے بارے میں میں نے پنڈی کے جلسے میں کہا تھا کہ ہمیں وہ سرادرا قوم چاہئے حقیقی معنوں میں سر دار ثابت ہو اور کسی بھی غیر قوم کے سامنے جھکے نہیں دبے نہیں۔گجر قوم کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ کہ دھبنگ ،دلیر اور بہادر قوم کو اس کے مزاج کا لیڈر نہیں ملا ہے۔مسکین اور بزدل سردار کبھی قوم کو مشکلات سے نہیں نکال سکتے۔جن کی اپنی خواہشات کی چادریں وسیع ہوں وہ اس قوم کو کیا دیں گے جو اب سر اٹھا رہی ہے ۔البتہ اتنا ضرور ہے کہ گجروں کو اپنی طاقت کا اندازہ ہو چکا ہے وہ غیر گجروں کی زبانی ہمیں بھی علم ہے مانسہرہ میں گجر طاقت کے سامنے اب لرزاں لوگ کبھی کبھی ہمیں بھی دکھڑے سنانے آتے ہیں۔ صرف گجر نام کے لئے تڑپتی اس قوم کو ہر قدم پر مخلص ساتھی اور قائد کی ضرورت ہے۔جو میں سمجھتا ہوں چودھری اختر علی کی شکل میں ہو۔

اپنے سے جو ہو سکا کیا جائیں نواز شریف سے پوچھیں کہ جدہ جیل میں جب ان کےلئے جیل گیا تو کیا سوال
 تھا اور کیا جواب تھا۔گجر بزدل پیدا نہیں ہوتا اسے کر دیا جاتا ہے اور کرنے والے قصائی کی طرح ہیں جو داندھ کو بن کر خسی کرتے ہیں اسی طرح اس قوم کے ساتھ وہی بہیمانہ سلوک ہو رہا ہے جس کا ماتم میں کر رہا ہوں۔ادھر ادھر سے قوم کو اکٹھا کر کے اپنی سیاسی دکان کو چمکایا جا رہا ہے اس میں سب شامل ہیں کچھ نئے سر اٹھانے کے لئے کوشش میں ہیں۔بدقسمتی سے کچھ لوگ کرائے پر دستیاب ہیں جن کا کام شامیانے تنبو قناتیں لگانا ہے۔ایسے لوگ ہما وقت مناسب قیمت پر گجر منڈی میں مل جاتے ہیں۔

میں نے سردار یوسف صاحب کو جدہ میں کہا تھا کہ سرداری کرنی ہے تو وزارت چھوڑیں کہا آپ کی مرضی ہے کہ وزارت بھی ہاتھوں سے جائے۔میں یہ کبھی نہیں کہوں گا کہ وہ وزارت چھوڑیں لیکن اتنا ضرور کریں کہ برادری کے لئے کوئی ایسا کام کر جائیں کہ تاریخ میں امر ہوں۔سارے گجر اگر مل کر چودھری رحمت علی کے جسد خاکی کو ہی پاکستان لے آئیں تو سمجھتا ہوں کہ کام بن جائے گا.

ہمیں سچ پوچھیں چودھری اختر علی وریو جیسے دلیر شخص کی ضرور ت ہے۔جو سیاسی میدان کا شہسوار ہو کر بھی قوم کا خادم ہو۔چودھری صاحب سے تعلق اور تعارف بھی عجیب تھا میں کوشش کروں گا کہ وہ تصویر مل جائے جب ان سے تعارف کرایا گیا کہ انجینئر افتخار چودھری گجروں کی سب سے بڑی تنظیم کے چیئرمین ہیں ہاتھ ملایا اور کہا کہ میں بھی گجر ہوں اگر گجروں کے کام نہ آں تو فلاں۔۔۔ہوں۔زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے۔ان کے بھائی چودھری عبدالستار وریو محبت پیار کا زمزمہ۔نرم دم گفتگو گرم دم جستجو۔ اختر صاحب نے کہا عبدالستار بڑی نمازیں پڑھتا ہے دیکھو وہ تو جیل سے ہو آیا میرا اللہ مجھے ان گستاخیوں کے باوجود پناہ میں رکھے ہوئے ہے۔چودھری صاحب کی میزبانی بھی اکرم کی پارہ مزاجی کا شکار ہوتی رہی۔کبھی وہ خوش ہوتا تو چودھری صاحب کی فیملی کو بھی ہمیں خدمت کا موقع دے دیتا نہ بنی ہوئی ہوتی تو پر نہیں مارنے دیتا تھا ایک بار صرف چائے کا ٹائم دیا میں اپنے اس چھوٹے سے گھر میں ۴۶ ڈشوں کا اہتمام کر ڈالا جس مین پنجابی بیر بھی تھے جدہ میں میرے گھر شاہ اترا تھا کیوں نہ کرتا۔کہنے لگے چوئری وہ  چودھری کو چوئری کہا کرتے تھے تیر اس مہمان نوازی نے دل جیت لیا ہے۔ایسا ہی کرنا چاہئے یہ اس پر منحصر نہیں ہوتا کہ مہمان کھائے گا کیا؟یہ اس آنے والے کی عزت ہوتی ہے۔فقیر کی جیب خالی تو ہو سکتی ہے دسترخوان پر فرشتے ڈھیر لگا جاتے ہیں۔صدقے آج بھی چودھری اختر علی لوٹے تو گھر لوٹا دوں۔

 چودھری اختر علی کی میاں نواز شریف فیملی سے ناراضگی پیدا کرنے میں کہتے ہیں چودھری امیر حسین کا ہاتھ ہے انہوں نے میاں شریف کو چودھری صاحب کی ایک ایسی کیسٹ سنوا دی جس میں چودھری اختر علی اپنے خاص موڈ میں گفتگو کرتے دکھائی دےے ۔جنرل مشرف دور میںان پر زوال آیا ۔ان کی طبیعت خراب رہنے لگی ڈسکہ میں چودھری اکرم کے بھائی کی وفات پر گیا تھا ملا ان کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔کچھ عرصہ قبل وہ اس جہان سے رخصت ہوگئے۔قوم ایک شاہسوار سے محروم ہوئی ۔ان کی موت پر نوحہ ءانیس لکھا جا سکتا ہے ۔افسوس یہ کہ وہ اولاد تو چھوڑ گئے مگر ان کا مقصد حیات ان کے ساتھ ہی مر گیا۔جس مشن پے باپ ڈٹا رہا اسے پس پشت ڈال کروہ اسمبلیوں میں تو پہنچ گئے مگر کینہ پرور لوگوں نے انہیں پیچھے دھکیل دیا خواجہ آصف کو جو مار چودھری اختر علی نے دی تھی اور جو رویہ میاں صاحب کے ساتھ تھا وہ کوئی بھی نہیں بھولا ۔ اپنے باپ کی انکھ اور خودداری کو پس پشت ڈال کے۔یقین کیجئے مجھے آج بھی خانوادہ،  وریو سے پیار ہے میں ان میں وہی شعلہ وہی لپک دیکھنا چاہتا ہوں ۔کسی نے سچ کہا ہے کہ خودی کی سر بلندی قربانیاں مانگتی ہے ہو سکتا ہے وہ دیتے دیتے تھک گئے ہوں۔انہیں البتہ یہ یاد رہنا چاہئے کہ کہ اونٹ اور کسی سیاسی دشمن کبھی وار کرنے سے باز نہیں رہتے.

چودھری اختر آج بھی جدہ کے ہوٹل میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں چمکدار روشن آنکھوں کے ساتھ۔لوگو! نر تو سب نے ہی جانا ہے اس نے بھی جو خوشامدی اور چاپلوس ہے اور اس نے بھی جس نے اپنی انا کو سودہ نہیں کیا۔پہاڑ میں میر ا بھائی مختار گجر چودھری اختر علی تھا اور ادھر میں بساط بھر اس دئیے کو جلائے رکھنے کی سعی کر رہا ہوں۔دعا کرنا اختر مریں نہیں زندہ رہیں۔کبھی مختار گجر سے بھی آپ کو ملواں گا جس نے  اسلام آباد کے پیچھے پہاڑ کے لوگوں کو راجاں کی کلچ سے نکالا۔ اور جدوجہد کرتا زیر زمین چلا گیا۔ہزارہ کا سب سے پہلا گجر نام انہی کا تھا۔وریو کی سوچ ان کے مرنے سے مری نہیں البتہ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس کی صورت زندہ ملتی ہے۔گھوڑا اور میدان دونوں موجود ہیں دیکھتے ہیں کون جیتتا ہے۔

چودھری اختر علی وریو کے لئے یہی کافی ہے
تیرے جئے پت جمن مانواں
کدھرے کدھرے کوئی کوئی

____________________________________________________________________________
نوٹ: میراث  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو/ گوجری  بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ مندرجہ ذیل ای میل ایڈریس  پر ای میل کریں۔

کوئی تبصرے نہیں: