پیر، 22 اگست، 2016

گوجر قوم میں بیداری کی لہر اور سوشل میڈیا کا کردار

گوجر قوم میں بیداری کی لہر اور سوشل میڈیا کا کردار

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ گوجر قوم دنیا کے مختلف خطوں میں پائی جاتی ہے۔ برصغیر کی بات کریں تو  پاکستان, انڈیا, جموں وکشمیر  اور افغانستان میں گوجر قوم کی کثیر تعداد بستی ہے۔  پاکستان میں آزاد کشمیر, مانسہرہ, ہزارہ ڈویژن اور پنجاب میں گوجر قوم کی اکثریت ہے۔ جبکہ بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں بھی خاطر خواہ آبادی موجود ہے۔

کچھ مورخین کا استدلال ہے کہ گوجر خالص ہند آریائی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ بعض علاقوں کے گوجر اپنے ترکی النسل ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں. رانا علی حسن چوہان نے ’تاریخ گرجر‘ اور محمد عبدالمک نے ’شاہان گوجر‘ لکھ کر گوجر قوم کی تاریخ مرتب کی ہے. گوجر قوم اپنے عروج کے زمانے میں برصغیر کی مختلف ریاستوں پر حکمران بھی رہی اسی لئے بہت سارے شہروں, دیہاتوں اور علاقوں کے نام گوجر قوم کے حوالے سے ہیں.

گو کہ گوجر قوم پورے پاکستان میں بکھری ہے اور پنجاب, کشمیر, مانسہرہ, سوات, گلگت بلتستان میں اس کی اکثریت ہے مگر باہمی روابط نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ قومی سطح پر کوئی مشترکہ لائحہ عمل نہیں اپنا سکے مگر اب ہر علاقے میں گوجر قوم کے لوگوں میں بیداری کی ایک لہر پیدا ہو گئی ہے۔ ہر جگہ یہ احساس بیدار ہوا ہے کہ ہمیں مل کر اپنے لوگوں کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرنا چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ گوجری ادب کے احیاء کے لئے بھی قوم میں شعور بیدار ہوا ہے۔

سوشل میڈیا نے یہ روابط قائم کرنے اور مختلف طبقات کو قریب لانے میں غیر معمولی کام کیا ہے, اسی طرح گوجر تاریخ, گوجر مشاہیر اور گوجری شعراٴ و محققین کے کام کو فروغ دیا ہے اس کے علاوہ گوجر تنظیموں کے کام سے بھی لوگوں کو روشناس کروایا ہے۔سوشل میڈیا سے قبل بھی گوجر زعماء نے قوم کے تشخص, اس کی ترقی اور امیج بلڈنگ کے لئے بہت کارہائے نمایاں سرانجام دیئے جن میں بانی انجمن گوجراں اور معمار گوجر قوم مولوی فتح الدین مرحوم کی خدمات اور جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں, ان کے بیٹوں نے جو قوم کی خدمت کی وہ بھی قابل ستائش ہے  بختاورسلطان صاحب مرحوم ،صفی عبداللہ مرحوم ،الحاج کمال الدین مرحوم جن کے دور صدارت میں بہت زیادہ کام ھوا، ڈاکٹر رشید چودھری مرحوم, عبدالرشید نون مرحوم، عبدالرشید لونیا منڈی والے, اس کے ساتھ ساتھ عبدالحمید چوہدری, عطاء الرحمان چوہان اور چوہدری محمد اشرف گوجر نے بھی گوجر قوم کے احیاء کے لئے بہت محنت کی. لٹریری طور پر رانا علی حسن چوہان ،مولانا محمد اسمعیل ذبیح ،مولانا عبدالحق، صابر آفاقی, رانا فضل حسین..... غرضیکہ ایک طویل فہرست زعمائے کرام کی ھے جنہوں نے اس قوم کو شعور وآگہی کی اعلیٰ  منازل عطاء کی ھے اب تو ٹیکنالوجی کا دور کام کی نوعیت آسان ھے مگر ھمارےان بزرگوں کی قربانیاں لازوال ھیں.
 
آجکل ٹیکنالوجی کا دور ہے،  اب ہر علاقے اور ہر خطے کے شاعر, ادیب, نقاد اور دانشور سے رابطہ آسان ہو گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اب گوجری مشاعروں، میلوں، فلموں اور گوجری ادب پر بیش بہا کام ہو رہا ہے۔
گوجر ڈیجیٹل لائبریری نے گوجری ادب اور تاریخ کے نایاب کتب کو ایک کلک پر فراہم کر دیا ہے. اسی طرح سوشل میڈیا خصوصاً فیس بُک پر ظفر حبیب گوجر کا نام اب کسی تعارف کا محتاج نہیں, سوات, گلگت, مانسہرہ پنجاب, کشمیر کے گوجر اب سوشل میڈیا کی بدولت ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں.

ذیل میں معروف گوجر ویب سائٹس, گوجر بلاگز اور گوجر فیس بُک و سوشل میڈیا لنکس دیے جا رہے ہیں۔
اگر آپ کوئی پیج،   بلاگ اور ویب سائٹ چلا رہے ہیں جو کہ گوجر قوم کی نمائندہ ہے اور اس کا لنک اس لسٹ میں موجود نہیں تو ضرور مطلع کریں. وہ لنک کمنٹ میں لکھ دیں میں اسے اپ ڈیٹ کر دوں گا۔

تحریر: ابرار حسین گوجر


Gujjar Web Sites:


Gujjar Facebook Pages:



Gujjar Blogs:

ماں جی اور "مام"

ماں جی اور "مام"

ماں جی کے لفظ میں محبت ، میٹھاس اور انسیت چھپی بیٹھی ہے۔ جب میں یہ لفظ ادا کرتا ہوں تو اطمینان و سکون محسوس ہوتا ہے ایسے لگتا ہے محبت کی آغوش میں جا بیٹھا  ہوں ، کچھ ایسے ہی" بابا جانی"  کہنے پر تحفط کا احساس ہوتا ہے۔ پتہ نہیں ہمارے ہاں  لوگوں نے ماما  (مام) اور   پاپا (ڈیڈ)  کہنا کب شروع کیا  اور کب ہم اس  پیارے ، عظیم اور خوبصورت جذبےو احساس سے محروم ہو ئے۔  کبھی ہم نے سوچا کہ ہر زبان کے الفاظ میں اس معاشرے کا رنگ ہوتا ہے، ہزاروں سال کا تہذیبی و ثقافتی پس منظراور  ورثہ لوگوں کے ذہنوں میں رچا بسا ہوتا ہے۔ معاشروں پر زبان کا گہرا اثر ہوتا ہے، آج جب ہم اپنی زبانوں (قومی اور علاقائی) کو کھو رہے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ ہم اپنی اقدار، تہذیب و ثقافت، روایات، رشتوں کی اہمیت و تقدس اور مشرقیت کو بھی کھوتے چلے جا رہے ہیں۔ جب لوگ کہتے ہیں اردو میں وسعت بیاں نہیں تو میں زیر لب مسکرا دیتا ہوں ، بات یہ نہیں کہ اردو یا مقامی زبانوں میں وسعت زباں نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ ہم اس سے ناتا توڑ چکے ہیں۔

اگر معاشرے کی اکائی خاندان  میں رشتوں کی بات کی جائے تو ہم تایا، چچا، پھوپھا، خالو، ماموں اور گلی میں آواز لگانے والے کو بھی انکل کہتے ہیں ، جبکہ ان تمام رشتوں کا الگ الگ  مقام و مرتبہ اور عزت ہے اسی طرح تائی، چاچی، پھوپھی، خالہ اور ممانی کو آنٹی۔  بھابی اور سالی دونوں سسٹر ان لاء، سالا اور سانڈو دونوں برادر ان لاء، داد- دادی ، نانا-   نانی  بالترتیب گرینڈ فادراور گرینڈ مادر۔

صاحبو ! سنتا ہوں کہ آجکل کی نسل میں ادب آداب تو ہیں ہی نہیں،  نہ عمر کا لحاظ ، نہ رشتوں کا احترام تو سوچتا ہوں ہم نے اپنی نسل کو جو سیکھایا وہی جھیل رہے ہیں تو پھر شکوہ کیسا؟  ایک بچے  کے لئے تایا، چچا، پھوپھا، خالو اور  ماموں بھی انکل ہیں اور گلی میں پھیری  لگانے والا بھی انکل۔۔۔ اسے کیا معلوم ان سب انکلوں کا الگ الگ مقام ہے، انکا مرتبہ اپنا اپنا ہے ، وہی بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو  تائی، چاچی، پھوپھی، خالہ اور ممانی اس کے لئے وہی حیثیت رکھتی ہیں جو محلے میں کمیٹی ڈالنے والی ،اس کے لئے سبھی برابر ہیں کیونکہ بچپن سے وہ ان سب کو آنٹی ہی کہتا آیا ہے۔ اس کے لئے تایازاد  چچا زاد  بہن ، خالہ زاد بہن ، پھوپھی زاد بہن   کے لئے شرم و حیا کا وہ تصور بن ہی نہیں سکا  کیونکہ  وہ سب کو کزن کی نظر سے دیکھتا ہے "اور کزنز میں تو   سب چلتا ہے"۔ مام، ڈیڈ،انکل، آنٹی، کزن  کا مفہوم ہمارے اردو الفاظ کے مقابلے میں ہو ہی نہیں سکتا اور نہ ہی عزت و احترام کی وہ نسبت قائم ہو سکتی ہے۔

اب اگر ہم اس سارے بکھیڑے کو سمیٹیں تو زیر نظر مثالوں  سے اس مسلئے کی حساسیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں :
"ہمارے معاشرے میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے "زنا"کی  جو کہ بغیر نکاح کے مرد و عورت کے تعلقات کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ اب اس لفظ کے سنتے ہی ہمارے ذہن میں جرم، سنگساری اور گناہ کبیرہ کا تصور ابھرتا ہےاور ہماری روح تک کانپ جاتی ہے مگر وہیں جب ہم "زنا" کی جگہ  "ریپ" کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں وہ گناہ کی شدت نہیں ابھرتی ہم اسے روز مرہ زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں اور ایک اخباری ہیڈ لائن سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔"
اسی طرح ایک اور مثال پیش خدمت ہے کہ " جب ہم یہ کہتے ہیں فلاں سودی کاروبار کرتا ہےیا سود کا لین دین کرتا ہے تو ہمارے ہاتھ کانوں کی طرف خود بخود اٹھ جاتے ہیں۔ فوراََ کہتے ہیں "اللہ معاف کرے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ؟" پھر بہت ساری احادیث مبارکہ اور وعیدیں ہمارے ذہن میں آتی ہیں مگر جب ہم اسی لفظ کو" انٹرسٹ" سے بدل دیتے ہیں تو وہ تصور ہی ختم ہو جاتا ہے۔ تمام احادیث ، تمام وعیدیں اور  قرآن کریم کے احکامات ایک طرف دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور ہم بینکوں کے ذریعے سود  لیتے بھی ہیں اور دیتے بھی ہیں ساتھ حج بھی کرتے ہیں،  روزے بھی رکھتے ہیں اور نمازیں بھی پڑتے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کے  ہمارا ذہن گناہ کو گناہ تسلیم کرنے سے ہی انکاری رہتا ہے"

یہ اخلاقی و مذہبی  زوال  بچوں نے نہیں ہم لوگوں نے خود پیدا کیا ہے بلکہ یقین کریں خریدا ہے اور خوشی خوشی خریدا ہے، اپنا خون پسینہ ایک کر کے خریدا ہے، اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں، آرزوؤں اور تمناوؤں کا گلا گھونٹ کر خریدا ہے مگر ہم کتنے کمزور و بے بس ہیں کہ اپنے کئے کا الزام دوسروں کے سر دھرتے ہیں، معصوم بچوں پر اسکا بوجھ ڈالتے ہیں مگر پھر خیال آتا ہے کیا واقعی اس سب کے ذمہ دار ہم والدین ہیں، ہمارے بچے ہیں یا کہ یہ معاشرہ ہے یا وہ ہمارے حکمران ہیں جنہوں نے اس جال میں ہمیں پھنسا یا ہے۔  اس اخلاقی و مذہبی  زوال کاحل کسی کے پاس نہیں اور حل تو تب ہو جب ہم اس کو مسئلہ سمجھیں ، جب ہم مرض کو مرض ماننے کو ہی تیار نہیں تو دوا کہاں۔۔۔

 1998 میں میں اپنے بڑے بیٹے ضیغم کی تعلیم کے لئے اپنی فیملی راولپنڈی لے آیا۔ اچھی تعلیم کی خاطر، اچھے مستقبل کی خاطر۔ میں اپنا گھر بار چھوڑ آیا، اپنے بوڑھے والدین کی آنکھوں میں وسوسے اور اندیشے چھوڑ آیا ، آتے وقت ماں بولی بیٹا تو ہماری فکر نہ کرنا یہ قریب ہی تو ہے راولپنڈی تو ضیغم کو پڑھانا چاہتا ہے ناں تو  ہم تمہارے ساتھ ہیں ،  بیٹا خوش رہنا  اور اپنی صحت کا بھی خیال رکھنا۔  بابا بس اتنا ہی کہہ سکے یار ابھی تو یہ صرف اڑھائی سال کا ہے اس کو کیا پڑھاؤ گے ابھی تو اسے ماں کی گرم گود کی ضرورت ہے، ابھی تو اسے اپنے دادے اور دادی کی ضرورت ہے ۔۔۔ چل جیسے تو کہتا ہے پر ہمیں ملوانے ضرور لانا ۔ راولپنڈی آنے کے بعد ہم نے دو کمروں،  ایک کچن اور ایک باتھ روم پر مشتمل سیٹ کرائے پر لے لیا ۔  اسے اچھے انگلش میڈیم سکول میں داخل کروایا ، اسکی ماہانہ فیس، سالانہ ایڈمشن فیس، کلر ڈیز اور مختلف ایکٹیوٹیز کے لئے درکار وسائل کے لئے  مجھے دن رات ایک کرنا پڑا،ایک کی جگہ دو دو نوکریاں کیں۔  مجھے اور میری بیوی کو روکھی سوکھی کھانی پڑی، اپنی خواہشوں کو دبانا پڑا مگر ہم خوش تھے کہ ہمارے بیٹے کا مستقبل اچھا ہو گا ۔ ہم خوش حال ہو جائیں گے ۔  اچھا وقت ضرور آئے گا۔

اب ضیغم اکیس سال کا جوان ہے۔ مگر اب محسوس ہوتا ہے وہ اور ہم اجنبی ہیں لگتا ہے، ہم الگ راہوں کے مسافر ہیں،  وہ کسی اور سیارے سے ہے اور ہم کسی اور سیارے سے، وہ کہتا ہے ڈیڈ میرے کلاس فیلوز کے والدین بہت امیر ہیں ، سلجھے ہوئے اور مہذب ہیں اور تم لوگوں کو تو زندگی گزارنے کا ڈھنگ ہی نہیں آتا۔ وہ انگلش گانے سنتا ہے، انگلش بولتا ہے، جینز اور ٹائٹ پہنتا ہے، سپائسیز / پف بناتا ہے، برگر اور پیزا پسند کرتا ہے، میں اور میری بیوی اسے دیکھتے ہیں اسے سنتے ہیں اور سوچتے ہیں ہم ضیغم کو یہی بنانا چاہتے تھے ؟ کیا یہی تعلیم دلوانا چاہتے تھے ؟ پھر ایک دوسرے کو دیکھ کر سر جھکا لیتے ہیں کیونکہ ہم نے یہ ماہ و سال بڑی تنگی و عسرت میں گزارے تھے۔ کبھی کبھی کہنے کو ہمارے پاس کچھ نہیں رہتا ۔


ماں جی کا کردار، انکا رویہ ، ان کے بات کرنے کا انداز ، معاملہ فہمی اور رکھ رکھاؤدیکھ  میں سوچتا ہوں یہ تعلیم انہیں کس انسٹیٹیوٹ سے ملی، یہ تربیت انہیں کس درسگاہ سے حاصل ہوئی، بابا جان کی وفات کے بعد ماں جی کو میں اپنے ساتھ راولپنڈی لے آیا، وہ مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے میری بات کی تہہ تک پہنچ گئیں بولیں بیٹا پریشان نہ ہو مسئلہ صرف " ماں جی اور مام " کا ہے اور کچھ نہیں ۔۔۔ 

تحریر: ابرار حسین گوجر 

بدھ، 17 اگست، 2016

کچھ خاص بات تو نہ تھی



کچھ خاص بات تو نہ تھی

"کچھ خاص بات تو نہ تھی" ہاں سب کچھ ویسے کا ویسا ہی تھا  جیسے روز ہوتا تھا سارے کام ، ساری  باتیں  ۔ ۔ ۔ ۔ 
وہی صبح آفس کی تیاری ، وہی آفس کی بس میں سفر ، آفس میں سب سے ملنا ملانا ، ، کام ، چائے اور کھانا  ۔ ۔ ۔  
ساری روٹین معمول کے مطابق تھی ۔ موسم بھی بے حد خوشگوار تھا سردیوں کی آمد آمد تھی دو تین دن پہلے بارش ہوئی تھی جس سے صبح و شام کافی ٹھنڈے اور خنک تھے ۔ دن 10بجے کے قریب جب بیٹھے بیٹھے اچانک اسے گھٹن محسوس ہونے لگی تو اسکا دل چاہا کہ باہر کھلی ہوا، کھلی فضاء میں جائے  لمبے لمبے سانس لے تو وہ باہر دھوپ میں آ گیا۔
اکتوبر کی اس صبح اسلام آباد کی دلکشی کے کیا کہنے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ایک طرف بادل اپنا سر مارگلہ کی پہاڑیوں کے کندھوں پر ٹکائے راز و نیاز میں مصروف تھے  تو دوسری طرف مارگلہ کے پہاڑ بانہیں  پھیلائےموسم سرما کو خوش آمدید کہنے کے لیےمکمل تیار تھے اور  خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے ، پہاڑوں سے آنے والی دبے پاؤں ، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نے جب اسکے ستے ہوئے اداس چہرے کو چھوا تو اسے ایک گداز  گدگدی کا احساس ہوا ، خوبصورت ، خوشگوار لذت بھرا ا حساس جس سے اس نے آنکھیں کھولیں اور قدرت کے اس لینڈ سکیپ میں اسکی دلچسپی پیدا ہوئی ۔ دھوپ تو دھوپ ہی تھی اور چمکدار بھی تھی مگر  اسکی حرارت اب ویسی جون ، جولائی جیسی نہ تھی، کیونکہ  یہ اکتوبر تھا مگر اس کی تمازت اور گرمائش کا لطف تھا ایک مزا تھا چھبن نہ تھی اور اسے یہ بہت اچھی لگی۔ ۔ ۔ ۔ سورج کی روشنی ہر سو ہر چیز کو واضح کر  رہی تھی جس سے تمام منظر رنگا رنگ لگ رہا تھا ۔


بائیں ہاتھ پر شاہراہ دستور کی بلند و بالا عمارتیں تھیں ، سٹیٹ لائف اور یو بی ایل کی بلڈنگز تھیں ، سعودی پاک ٹاور تھا اور ٹیلیکام ٹاور کی حیثیت تو سب سے جدا تھی اسکی بلکل سیدھ میں سامنے پاکستان مونومنٹ کی منفرد تخلیق جگمگا رہی تھی ،  ٹیلیکام ٹاورکے دائیں ہاتھ سینٹورس مال تھا جس کے تین ٹاور تھے اس کے سامنے والے ٹاور  پر ایک موبائیل کمپنی نے اپنا کوٹیڈ ایڈ لگایا ہوا تھا اور اسی کی وجہ سے وہ دور سے نیلی نیلی دیکھائی دیتی تھی۔ 


وہ کچھ لمحے اس قدرتی حسن سے محظوظ ہوا اور پھر واپس اپنے کیبن میں آ گیا،   کام کرنے کا جی نہیں کر رہا تھا عجیب سی فیلنگز تھیں اسکی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے برسوں کا تھکا تھکا ہو، دور مشکل اور کٹھن سفر کی مشکلات جھیل کر آیا ہو۔ آنکھیں دکھ رہی تھیں ، ان میں ایک ساڑ سی تھی اور سر گھوم رہا تھا جیسے گلوب ۔ لہجہ تلخ اور باتوں میں چڑچیڑا پن واضح تھا  مگر کیا وہ ایسا ہی تھا ؟
 نہیں وہ ایسا نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

اس کے چہرے پر تو ہروقت مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی
 اسکے منہ پر ہر وقت کوئی شوخ فقرہ کھلبلاتا رہتا تھا
اسکے اٹھنے بیٹھنے ، اسکے چلنےپھرنے میں ایک ردھم ایک ادا تھی
تو ۔۔۔۔۔۔۔

"کچھ خاص بات تو نہ تھی" ہاں سب کچھ ویسے کا ویسا ہی تھا  جیسے روز ہوتا تھا سارے کام ، ساری  باتیں  ۔ ۔ ۔ ۔ 
وہی صبح آفس کی تیاری ، وہی آفس کی بس میں سفر ، آفس میں سب سے ملنا ملانا ، ، کام ، چائے اور کھانا  ۔ ۔ ۔  
مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
اسکے کندھون پر ایک بوجھ تھا ۔۔۔۔۔
 کونسا بوجھ؟   ان کہی کا بوجھ۔۔۔۔۔۔
وہ بات جو اسے کہنی تھی اور نہ کہہ سکا۔۔۔۔۔ اسکا بوجھ
وہ جذبات جنھیں اس نے محسوس کیا مگر  اسی تک محدود رہ گئے۔۔۔۔۔۔ انکا بوجھ
وہ حقیقت جو اس پر آشکار ہوئی مگر کسی کو باور نہ کروا سکا  ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکا بوجھ

ہاں وہ اسی بوجھ کے نیچے سسک رہا تھا مگر دوستو !
یہ "کچھ خاص بات تو نہ تھی" ہاں سب کچھ ویسے کا ویسا ہی تھا  جیسے روز ہوتا تھا سارے کام ، ساری  باتیں  ۔ ۔ ۔ ۔  

ابرار حسین گوجر


پیر، 8 اگست، 2016

شاہدرہ پکنک پوائنٹ، اسلام آباد



شاہدرہ پکنک پوائنٹ:

شاہدرہ ویلی بارہ کہو کے شمال میں جبکہ  ایوان "صدر و وزیر اعظم" کے  شمال مشرق میں واقع ہے، یہ سرسبز و شاداب پہاڑوں سے گھری ہوئی جنت نظیر وادی ہے۔  فیض آباد سے 15 کلو میٹر ، بارہ کہوسے 7 کلو میٹر جبکہ ایوان "صدر و وزیر اعظم" سے 10 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ شاہدرہ کے گاؤں کی وجہ شہرت "شاہدرہ پکنک پوائنٹ " ہے۔  


فیض آباد سے مری جاتے ہوئے لیک ویو پارک سے چند منٹ  کے فاصلے پر"شاہدرہ " کا سائن بورڈ آتا ہے۔ یہاں سے "شاہدرہ پکنک پوائنٹ " تک تقریباََ 12 منٹ کی ڈرائیو ہے۔ "شاہدرہ پکنک پوائنٹ " بہت پرسکون جگہ ہے ، جس کے درمیان سے ٹھنڈے میٹھے پانی کا بہت بڑا چشمہ نکلتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہدرہ قدرتی حسن کی لازوال داستان ہے۔ مگر یہاں تک پبلک ٹرانسپورٹ نہیں چلتی اس لئے سپیشل گاڑی بک کرنی پڑتی ہے یا ذاتی ٹرانسپورٹ کا ہونا لازم ہے۔سڑک کی حالت بہت اچھی ہے،  مقامی لوگوں نے  یہاں پرکھانےپینے  کی مختلف روائتی  اشیاء کے سٹال لگائے ہوئے ہیں جبکہ ایک ہوٹل بھی ہے۔





"شاہدرہ پکنک پوائنٹ "  پر سیاح پانی میں ٹیبل اور کرسیاں لگا کر بیٹھتے ہیں، پانی میں نہاتے ہیں، تیراکی کرتے ہیں، ایک دوسرے پر پانی پھینکتے ہیں ، اٹکھیلیاں کرتے ہیں اور محظوظ ہوتے ہیں،  زیادہ تر لوگ فیملیز کے ساتھ آتے ہیں خصوصاََ بچے اور خواتین اس جگہ  کے سحر میں کھوجاتے ہیں، پانی کی گہرائی کم ہونے کی وجہ سے وہ بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔  اسلام آباد / راولپنڈی سے قریب ترین ہونے کی بنا پر یہاں  ویک  اینڈ میں بہت رش ہوتا ہے۔



"شاہدرہ پکنک پوئنٹ "  پر راک کلائمبنگ کے لئے  10-15 میٹر  کا ایک پوئنٹ بھی ہے  نوجوان اس پر اپنی کلائمبنگ کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ اس طرح کے  کلائمبنگ پوائنٹس اور بھی ہیں۔ مگر لوگوں کی دلچسپی زیادہ تر پانی میں تیرنے، بیٹھنے میں ہوتی ہے۔ "شاہدرہ پکنک پوئنٹ " کے قریب سی ڈی اے مستقبل میں "واٹر پارک" بنانے کا ارادہ رکھتا ہے، جو کے جڑواں شہروں کے رہائشیوں  کے لئے خوشخبری ہے۔



 دیکھا گیا ہے کہ  سیاح شاپنگ بیگ، ریپر اور پھلوں  کے چھلکے وغیرہ  جا بجا پھینک دیتے  ہیں جو کے ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتے ہیں  اور قدرتی حسن کو گہناتے ہیں۔ سیر کرنے والے تمام سیاحوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے ساتھ ایک شاپنگ بیگ رکھیں اور تمام فالتوں اشیاء اس میں ڈالیں تاکہ یہاں کی خوبصورتی قائم ودائم رہے۔ اس سلسلے میں اگر سی ڈی اے اپنا کردار ادا کرے تو یہ بہت احسن بات ہوگی۔

  یہاں کے مقامی لوگ ہندکو بولتے ہیں مگر پنجابی اور اردو بخوبی سمجھتے ہیں۔  یہاں کے رہائشی لوگوں کے بقول شاہدرہ کے دیہات میں اکثریت گوجر قوم کے باشندوں کی ہے جو اپنے نام کے ساتھ چوہدری یا گوجر لکھتے ہیں۔  مقامی دیہات  "شاہدرہ پکنک پوئنٹ " سے آگے دور تک پھیلے ہوئے ہیں  جن کی سرحد ایک طرف اسلام آباد کے ساتھ دوسری طرف مری (پنجاب) کے ساتھ جبکہ تیسری طرف خیبر پختون خواہ کے ساتھ لگتی ہے۔


تحریر: ابرار حسین گوجر 












جمعرات، 4 اگست، 2016

مارگلہ ہلز، اسلام آباد


پاکستان قدرتی حسن کا شاہکار ہے اس میں برف پوش وادیاں ، ٹھنڈے میٹھے پانی کے جھرنے ، آنکھوں کو فرحت بخشنے والے خوبصورت سیاحتی مقامات اور دل لبھانے والے قصبات و سرسبز گاؤں ہیں۔ سوات، گلگت، چترال، وادی ہنزہ،  مری، نتھیا گلی، تولی پیر اور وادی نیلم سمیت بے شمار ایسی جگہیں ہیں جنہیں دیکھ کر انسان دھنگ رہ جاتا ہے اور اس کا  خالق کائنات کی تسبیح و توصیف کرنے کا بے اختیار دل چاہتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال ہزاروں سیاح ان مقامات کی سیر کرتے ہیں مگر بہت سارے لوگ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ان دلکش جگہوں پر جانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔  وہ لوگ جو وسائل کی کمی  یا مصروفیت کے باعث دور دراز کےسیاحتی مقامات کی سیر نہیں کر سکتے   وہ مارگلہ ہلزمیں ہائیکنگ و کیمپنگ  کے ساتھ سیر و سیاحت کر کے ذہنی سکون و تسکین حاصل کر سکتے ہیں۔





مارگلہ ہلز نیشنل پارک (ایم ایچ این پی):
مارگلہ ہلز نیشنل پارک، اسلام آباد کے شمال میں ، اسلام آباد کی حدود میں ہی واقع ہے۔ یہ پارک 1980 میں بنایا گیا جو تقریباََ 17،386 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ اس میں سب سے اونچی چوٹی ٹیلا چرونی  کی اونچائی 1،604 میٹر ہے۔اس پارک میں آٹھ ٹریل، کلیمبنگ کے لئے مختلف جگہوں سمیت دامن کوہ، پیر سوہاوہ، شکرپڑیاں ثقافتی  کمپلیکس اور لیک ویو پارک  سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔  مارگلہ ہلز کوہ ہمالیہ کے سلسلے کا ہی حصہ ہیں ۔ یہاں کی مٹی ذرخیز ہے جس کی وجہ سے ان پہاڑیوں نے سبزے کی چادر اوڑی ہوئی ہے۔ ان پہاڑیوں پر کچنار، دیوداراور بیڑکے درخت بھی ہیں مگر زیادہ تر سنتھے کے چھوٹے قد کے جھاڑی نما درخت ہیں جنھوں نے تمام مارگلہ کی پہاڑیوں پر قبضہ جمایا ہوا ہے۔  پاکستان ٹورزم ڈیپارٹمنٹ ، کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور محکمہ جنگلات کے اہلکار ہائیکرز کے ساتھ مل کرہر سال شجر کاری مہم بھی چلاتے ہیں اوران پودوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔  مارگلہ ہلز میں مختلف قسم کے جانور (چیتا، بندر، گلیریاں، ہرن ، سنہری گیدڑ اورسرخ  لومڑی )اور رنگ برنگے پرندے پائے جاتے ہیں جن سے سیاح خوب لطف اٹھاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ٹھنڈے پانی کے چشمے بھی جا بجا موجود ہیں۔  مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی انتظامیہ یہاں چیئر لفٹ لگانے کے منصوبے پر بھی غور کر رہی ہے۔ کلیمبنگ کے شوقین حضرات کے لئے یاسمین کارنر(15 میٹر)، میوزیکل لاج (18 میٹر)، سید پور گاؤں (15 میٹر)، شاہدرہ وال (13 میٹر) پہاڑی ٹریک بنائے گئے  ہیں ۔





اسلام آباد کے مختلف کلب  کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)  کے حکام کے ساتھ مل کر یہاں ہائیکنگ کے مختلف پروگرام ترتیب دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو ہائیکنگ، کیمپنگ  اور سیاحت  کی طرف راغب کیا جا سکے۔ مارگلہ ہلز میں بنائے گئے تمام ٹریلز  قدرتی حسن سے بھرپور ، محفوظ ترین اور سیاحوں کی ضروریات  کے مطابق سہولیات سے آراستہ ہیں۔ پرندوں کے شوقین  حضرات کے لئے مارگلہ کے ٹریلز کسی نعمت سے کم نہیں، یہاں پورا سال بہت ہی خوبصورت پرندے دیکھنے کو ملتے ہیں۔










مارگلہ ہلز میں 8 ٹریلز بنائے گئے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف خصوصیات کے حامل ، آسان ، خوبصورت اور نظارہ پرور ہیں ۔ پہلے چھ ٹریلز کو 1 سے 6تک نمبر دئیے گئے ہیں مثلاََ: ٹریل نمبر 6،5،4،3،2،1 جبکہ ٹریل نمبر 7 اور 8 کو نام دئیے گئے ہیں جو با لترتیب "سید پور ٹریل" اور " بری امام ٹریل" ہیں۔

 مارگلہ ہلز میں ٹریلز کی تفصیلات:

ٹریل نمبر 1:
اس ٹریل پر  پیر سوہاوہ روڈ تک پہنچنے میں تقریباََ  دو گھنٹے کی مسافت طے کرنی پڑتی  ہے اگر آپ مزید 20 منٹ چلیں گے تو مونال ریسٹورنٹ پہنچ جائیں گے۔ یہ ٹریل تھوڑا مشکل ہے اس پر صبح کے وقت ہائیکنگ کرنے کو بہتر سمجھا جاتا ہے۔ اس کے راستے میں پانی کے چشمے / آبشاریں موجود ہیں۔  

ٹریل نمبر 2:
یہ اسلام آباد چڑیا گھر کے قریب سے شروع ہوتا ہے اور 1 - 1.5 گھنٹے کی مسافت پر دامن کوہ پہنچ کر اختتام پزیرہوتا ہے۔ یہ بہت آسان ٹریل ہے مگر اس کے درمیان پانی میسر نہیں ہو گا اس لئے ہائیکنگ کرنے والوں کو ساتھ پانی کی بوتل ضرور رکھنی چاہئے۔ اس ٹریل پر شام میں چلنے کا مزاء زیادہ آتا ہے۔

ٹریل نمبر 3:
یہ مارگلہ روڈ  F-7 کے قریب سے شروع ہوتا ہے جہاں مارگلہ روڈ اور اتاترک ایونیو ملتے ہیں۔ یہ ٹریل تھوڑا  فاصلے پرعمودی چٹانوں کی وجہ سے مشکل ہو جاتا ہے ۔ یہ تقریباََ ڈیڑھ سے دو گھنٹے کا راستہ ہے جو کے پیر سوہاوہ کے تین مشہور ریسٹورنٹس کے قریب سے جا کر نکلتا ہے۔ اس میں ٹھنڈے میٹھے پانی کی آبشاریں  ہیں۔ اس ٹریل پر راہنمائی کے لئے سائن بورڈ جگہ جگہ موجود ہیں۔




ٹریل نمبر 4:
ٹریل 4 الگ سے کوئی ٹریل نہیں ہے بلکہ ٹریل 3 اور ٹریل 5 کو ملانے والا درمیانی راستہ ٹریل 4 کہلاتا ہےاسکا فاصلہ  تقریباََ 1.5 کلو میٹر ہے۔ یہ مشکل راستہ ہےمگر بہت جاذب نظر اور خوبصورت ہے۔

ٹریل نمبر 5:
یہ سیکٹر F-5 مارگلہ روڈ  سےشروع ہوتا ہے۔ بہت آسان اور خوبصورت ٹریل ہے۔ ٹریل 5، ٹریل 3 کے متوازی چلتا ہے جبکہ ٹریل 4 ان دونوں کو آپس میں ملا دیتا ہے یہ درمیانی راستہ تقریباََ 1.5 کلو میٹر بنتا ہے۔ ٹریل 5 کا سفر 2.5 سے 3.5 گھنٹے تک کا ہے۔ ٹریل 5 بھی  پیر سوہاوہ روڈسے جا کر مل جاتا ہے۔





ٹریل نمبر 6:
فیصل مسجد (E-7)کے پیچھے  (بیک سائیڈ) سے ٹریل 6 شروع ہوتا  ہے۔  عام طور پر لوگوں کو  اس ٹریل کے سٹارٹ پوائنٹ کا پتہ نہیں ہے فیصل مسجد  کے ساتھ شجر کاری کا ایک سائن بورڈ ہے اس کے ساتھ ہی سے راستہ اوپر جاتا ہے۔ یہ ٹریل بھی ضروری ہدایات سے آراستہ ہے اور اس میں ایک چھوٹا سا چڑیا گھر بھی ہے۔ ٹریل  سکس بھی پیر سوہاوہ روڈ پر پہنچ کر اختتام پزیرہوتا ہے۔





سید پور ٹریل:
سید پور ٹریل، سید پور گاؤں کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اگر آپ اس پر آگے بڑھتے جائیں تو مونال  ریسٹورنٹ تک پہنچ جائیں گے۔ اس ٹریل کےساتھ پہاڑی نالہ بھی گزرتا ہے جو حسین منظر ہیش کرتا ہے جس سے ہائیکنگ کے دلدادہ  سیاح محظوظ ہوتے ہیں۔ یہ ٹریل عام طور پر سید پور گاؤں کےمقامی  لوگ استعمال کرتے ہیں جبکہ  ہائیکنگ و کیمپنگ  کے شوقین اس کا استعمال بہت کم کرتے ہیں۔  
 
بری امام ٹریل:
یہ ٹریل مارگلہ روڈ کے بلکل آخر پر سیکٹر F-5 کے قریب سے شروع ہوتا ہے۔ راستہ بری امام کمپلیکس (مزار) کے ساتھ سے لوئی دندی (غار) تک جاتا ہے، تھوڑا سا مزید اوپرچلیں تو پیرسوہاوہ روڈ تک پہنچ جاتے ہیں ، وہیں سے ایک راستہ  ٹریل 3 کی طرف نکلتا ہے جو تقریباََ 5.5 کلومیٹر ہے۔

تمام ٹریلز پر ہائیکنگ اور کیمپنگ  کرنے سے منفرد تجربہ حاصل ہوتا ہے مگرپہلی بار  ہائیکنگ و کیمپنگ کرنے والوں کے لئے ٹریل نمبر 3 اور 5 بہترین ہیں کیونکہ یہ زیادہ آسان،  منظم اور سہولتوں سے آراستہ ہیں ۔ ٹریل نمبر 3 اور 5 میں حکام کی طرف سے واضح ہدایات  بھی دی گئی ہیں جو راہنمائی کے لئے کافی مددگار ہیں۔  
میں نے مارگلہ ہلز اور اس میں بنائے گئے آٹھوں ٹریلز کا آپ سے تعارف کروا دیا ہے انشاءاللہ اسی سلسلے میں ہر ٹریل کا تفصیلی تعارف ، اس کی خصوصیات، اس میں دلچسپی کے مقامات اور سہولیات کے حوالے سے مزید بلاگ بھی لکھنے کا ارادہ ہے۔ امید ہے آپ اس بلاگ کو پسند کریں گے ۔ مجھے آپکی  آراء اور مثبت تجاویز کا انتظار رہے گا۔

تحریر: ابرار حسین گوجر 






  



  








#Bird, #CDA, #Daman-e-Koh, #Hiking, #Islamabad, #LakeViewPark, #MargallaHillsNationalPark, #MHNP, #PirSohawa, #Rockclimbing, #Shakarparian #CultutalComplex, #Track, #Trail1, #Trail2, #Trail3, #Trail5, #Trail6