بدھ، 17 اگست، 2016

کچھ خاص بات تو نہ تھی



کچھ خاص بات تو نہ تھی

"کچھ خاص بات تو نہ تھی" ہاں سب کچھ ویسے کا ویسا ہی تھا  جیسے روز ہوتا تھا سارے کام ، ساری  باتیں  ۔ ۔ ۔ ۔ 
وہی صبح آفس کی تیاری ، وہی آفس کی بس میں سفر ، آفس میں سب سے ملنا ملانا ، ، کام ، چائے اور کھانا  ۔ ۔ ۔  
ساری روٹین معمول کے مطابق تھی ۔ موسم بھی بے حد خوشگوار تھا سردیوں کی آمد آمد تھی دو تین دن پہلے بارش ہوئی تھی جس سے صبح و شام کافی ٹھنڈے اور خنک تھے ۔ دن 10بجے کے قریب جب بیٹھے بیٹھے اچانک اسے گھٹن محسوس ہونے لگی تو اسکا دل چاہا کہ باہر کھلی ہوا، کھلی فضاء میں جائے  لمبے لمبے سانس لے تو وہ باہر دھوپ میں آ گیا۔
اکتوبر کی اس صبح اسلام آباد کی دلکشی کے کیا کہنے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ایک طرف بادل اپنا سر مارگلہ کی پہاڑیوں کے کندھوں پر ٹکائے راز و نیاز میں مصروف تھے  تو دوسری طرف مارگلہ کے پہاڑ بانہیں  پھیلائےموسم سرما کو خوش آمدید کہنے کے لیےمکمل تیار تھے اور  خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے ، پہاڑوں سے آنے والی دبے پاؤں ، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نے جب اسکے ستے ہوئے اداس چہرے کو چھوا تو اسے ایک گداز  گدگدی کا احساس ہوا ، خوبصورت ، خوشگوار لذت بھرا ا حساس جس سے اس نے آنکھیں کھولیں اور قدرت کے اس لینڈ سکیپ میں اسکی دلچسپی پیدا ہوئی ۔ دھوپ تو دھوپ ہی تھی اور چمکدار بھی تھی مگر  اسکی حرارت اب ویسی جون ، جولائی جیسی نہ تھی، کیونکہ  یہ اکتوبر تھا مگر اس کی تمازت اور گرمائش کا لطف تھا ایک مزا تھا چھبن نہ تھی اور اسے یہ بہت اچھی لگی۔ ۔ ۔ ۔ سورج کی روشنی ہر سو ہر چیز کو واضح کر  رہی تھی جس سے تمام منظر رنگا رنگ لگ رہا تھا ۔


بائیں ہاتھ پر شاہراہ دستور کی بلند و بالا عمارتیں تھیں ، سٹیٹ لائف اور یو بی ایل کی بلڈنگز تھیں ، سعودی پاک ٹاور تھا اور ٹیلیکام ٹاور کی حیثیت تو سب سے جدا تھی اسکی بلکل سیدھ میں سامنے پاکستان مونومنٹ کی منفرد تخلیق جگمگا رہی تھی ،  ٹیلیکام ٹاورکے دائیں ہاتھ سینٹورس مال تھا جس کے تین ٹاور تھے اس کے سامنے والے ٹاور  پر ایک موبائیل کمپنی نے اپنا کوٹیڈ ایڈ لگایا ہوا تھا اور اسی کی وجہ سے وہ دور سے نیلی نیلی دیکھائی دیتی تھی۔ 


وہ کچھ لمحے اس قدرتی حسن سے محظوظ ہوا اور پھر واپس اپنے کیبن میں آ گیا،   کام کرنے کا جی نہیں کر رہا تھا عجیب سی فیلنگز تھیں اسکی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے برسوں کا تھکا تھکا ہو، دور مشکل اور کٹھن سفر کی مشکلات جھیل کر آیا ہو۔ آنکھیں دکھ رہی تھیں ، ان میں ایک ساڑ سی تھی اور سر گھوم رہا تھا جیسے گلوب ۔ لہجہ تلخ اور باتوں میں چڑچیڑا پن واضح تھا  مگر کیا وہ ایسا ہی تھا ؟
 نہیں وہ ایسا نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

اس کے چہرے پر تو ہروقت مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی
 اسکے منہ پر ہر وقت کوئی شوخ فقرہ کھلبلاتا رہتا تھا
اسکے اٹھنے بیٹھنے ، اسکے چلنےپھرنے میں ایک ردھم ایک ادا تھی
تو ۔۔۔۔۔۔۔

"کچھ خاص بات تو نہ تھی" ہاں سب کچھ ویسے کا ویسا ہی تھا  جیسے روز ہوتا تھا سارے کام ، ساری  باتیں  ۔ ۔ ۔ ۔ 
وہی صبح آفس کی تیاری ، وہی آفس کی بس میں سفر ، آفس میں سب سے ملنا ملانا ، ، کام ، چائے اور کھانا  ۔ ۔ ۔  
مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
اسکے کندھون پر ایک بوجھ تھا ۔۔۔۔۔
 کونسا بوجھ؟   ان کہی کا بوجھ۔۔۔۔۔۔
وہ بات جو اسے کہنی تھی اور نہ کہہ سکا۔۔۔۔۔ اسکا بوجھ
وہ جذبات جنھیں اس نے محسوس کیا مگر  اسی تک محدود رہ گئے۔۔۔۔۔۔ انکا بوجھ
وہ حقیقت جو اس پر آشکار ہوئی مگر کسی کو باور نہ کروا سکا  ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکا بوجھ

ہاں وہ اسی بوجھ کے نیچے سسک رہا تھا مگر دوستو !
یہ "کچھ خاص بات تو نہ تھی" ہاں سب کچھ ویسے کا ویسا ہی تھا  جیسے روز ہوتا تھا سارے کام ، ساری  باتیں  ۔ ۔ ۔ ۔  

ابرار حسین گوجر


کوئی تبصرے نہیں: