اتوار، 31 جولائی، 2016

آرٹسٹ


تم کرتی ہی کیا ہو؟
یہ جو کچھ بھی ہے میری وجہ سے ہے، میں نے دن رات تمہارے اور بچوں کے لئے ایک کیا ۔ محنت کی مشقت کی لوگوں کی باتیں سنیں، صبح منہ اندھیرے گھر سے نکلا تو رات کو منہ اندھیرے گھر پہنچا  ۔ نہ دن دیکھا نہ رات اس گھر کے لئے تمہارے لئے اور بچوں کے لئے اپنی زندگی کے بہترین دن وقف کر دئیے تمہیں ہر ہرآسائش دی، اچھے سے اچھا کھانا اچھے سے اچھا پہننا، آج تم لوگ جو اتراتے ہو "خواجہ اینڈ سنز گروپ آف کمپنیز"پر یہ ایسے ہی دنوں میں نہیں ہو گیا اس میں میری ایک ایک لمحے کی فکر ، سوچ اور کوشش شامل ہے۔  میری دور اندیشی اور وژن شامل ہے۔ پر تمہیں کیا معلوم پیسہ کمانا آسان نہیں ہے۔
اور تم ۔۔۔
تم آج کہہ رہی ہو کہ "خواجہ صاحب ! آج آپ کا یہ جو مقام و مرتبہ ہے میری وجہ سے ہے"
تمہارا کردار ہی کیا ہے؟ جھاڑو پونجھا لگانا کونسا مشکل کام ہے ؟ 
ویسے بھی گھر کی صفائی، کپڑے دھونا، استری کرنا، صبح کا ناشتہ بنانا  یہ سب کام تو "فضلاں" کرتی ہے
ڈھنگ کے کپڑے تک تم لے نہیں سکتیں اپنے لئے اور کہتی پھرتی ہے ۔۔۔۔۔
خواجہ رفیق الزماں نے ناشتہ ٹیبل پر ہی چھوڑا، ہینڈ بیگ لیا اور دروازہ زور سے پٹخ کر آفس   چل دئیے۔
خواجہ رفیق الزماں میرے والد،  ایک کامیاب بزنس مین، کاروباری حلقوں میں جن کا   طوطی بولتا ہے۔ شائستگی، کلام کی عمدگی  اور معاملہ فہمی جن پر بس ہے۔ نوجوان جن سے متاثر ہو کر کاروباری گر سیکھنے آتے ہیں۔ "خواجہ اینڈ سنز گروپ آف کمپنیز" کے مالک ، ان کی  کمپنیز کا ملک بھر میں جال بچھا ہوا ہے۔
انہیں ہم نے کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا لیکن آج میری والدہ مہرالنساء  نے ناشتہ کی میزپر مذاق میں یہ کہہ دیا کہ "خواجہ صاحب ! آج آپ کا یہ جو مقام و مرتبہ ہے میری وجہ سے ہے" تو ان کا رد عمل ہم سب کے لئے حیرت انگیز تھا ، میری والدہ مہرالنساء  نے یہ الفاظ خوش مذاجی میں کہے مگر ابو پر جیسے قیامت بن کر گرے، پھر جو کچھ انہوں نے کہا وہ سب امی نے خاموشی سے  سنا ، وہ چپ رہیں آگے سے ایک لفظ تک نہیں کہا ۔ بس دو آنسوں کے قطرے ان کی آنکھوں سے نکلے اور لڑکھڑاتے  لڑکھڑاتے ان کے دوپٹے میں جذب ہو گئے۔
ابو آفس جا چکےتھے بھائی کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر گیا ہوا تھا ۔ امی نے ناشتے کی میز سے برتن سمیٹے کچن میں رکھے اور اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ میں ان کی حالت کو سمجھ سکتی تھی کہ ان پر یہ الفاظ " تم کرتی ہی کیا ہو؟ " قیامت بن کہ ٹوٹے ہوں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج جو شان شوکت تھی وہ ابو کی محنت، ذہانت اور کاروباری سمجھ بوجھ کی وجہ سےتھی مگر یہ بھی سچ تھا کہ ابو کی کامیابی کے پیچھے امی کی  کوششوں کو دخل تھا آج وہ کامیاب بزنس مین تھے، ان کا بیٹا لمز سے ایم بی اے میں گولڈ میڈل  تھا، ان کی بیٹی کی گھر داری اور تربیت کا ذکر زبان زد عام تھا اور ان کے گھر کی سجاوٹ و صفائی ستھرائی کی اگر سب تعریف کرتے تھے تو یہ سب  آنٹی "فضلاں" کے سگھڑپن اور سمجھداری کی وجہ سے نہیں بلکہ مہرالنساء کی محنتوں اور سلیقہ شعاری  کا نتیجہ تھا۔  مگر جب عمر بھر کی ریاضت کو کوئی ایک لمحے میں رد کر دے تو انسان اندر سے ٹوٹ جاتا ہے، اسے اپنی بے وقعتی کا بے پناہ احساس ہوتا ہے۔ اسے اپنے گزرے ماہ و سال رائیگاں لگتے ہیں۔ اسے اپنی زندگی ایک بوجھ محسوس ہوتی ہے۔
میں چپکے چپکے دبے قدموں امی کے کمرے میں گئی تو امی بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے آنکھیں بند کیئے بیٹھی ہوئی تھیں۔ میری آہٹ محسوس کر کے انہوں نے آنکھیں کھولیں اور آہستہ سے بولیں آؤ عینی بیٹا بیٹھو ، میں ان کے ساتھ لپٹ گئی میری آنکھوں سے آنسوں کی لڑیاں خود بخود جاری ہو گئی، بولیں بیٹا کیوں روتی ہو ۔۔۔
بیٹا مردوں کو غصہ آتا رہتا ہے مگر ہمیں ہی برداشت کرنا پڑتا ہے تبہی تو گھر بنتے ہیں۔ وہ گھر سے باہر دھوپ / گرمی میں مارے مارے پھرتے ہیں، اچھے برے ہر طرح کے لوگوں سے ان کا واسطہ  پڑتا ہے، پیسہ کمانے کے لئے ٹکے ٹکے کے لوگوں کی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ دن رات ایک کرنا  پڑتا ہے پھر بھی وہ اپنے محنت سے کمائے ہوئے کو ہم  پر خوش دلی سے خرچ کرتے ہیں ہماری ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں، ہمیں احساس تحفظ دیتے  ہیں ، ہمیں تو بس ان کے پیسے کو طریقے سے خرچ کرنا ہوتا ہے، ان کی نسلوں کی تربیت کرنی ہوتی ہے۔  میاں بیوی مل کر ہی گھر بناتے ہیں معاشرہ سنوارتے ہیں بیٹا یہ کسی بھی معاشرے ، خاندان کی بنیاد ہوتے ہیں ان میں سے کسی ایک کو بردباری اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے  اگر نہیں کریں گے تو یہ اکائی ریزہ ریزہ ہو جائے گی۔ سب کچھ بکھر جائے گا سوائے زندگی بھر کی "آہوں کےاور کاش کے"اور کچھ نہیں بچتا۔
مگر امی  ہمیں ہی کیوں ۔۔۔ 
ہمیں ہی کیوں برداشت کرنا پڑتا ہے ہر بار عورت ہی کیوں قربانی دے؟
مرد کیوں گھر کے لئے قربانی نہیں دیتا ؟
دیکھ بیٹا ماں تیری پڑھی لکھی نہیں ہے، بس ابا جی نے نماز کے سبق اور قرآن پاک کی تعلیم گھر پر دی تھی مگر تمہاری نانی نے میری تربیت بہت اچھی کی وہ کہتی ہوتی تھیں مہرالنساء دیکھ مرد کو اللہ تعالیٰ نے کمانے کی ذمہ داری دی ہے وہ تمہارے کھانے پینے، کپڑے لتے، تمہاری چھت کا ذمہ دار  ہے اور ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے ہر طرح کی قربانی دیتا ہے مگر اپنے بیوی بچوں کو گرم ہوا نہیں لگنے دیتا  کسی کو آنکھ اٹھا کر اپنے گھر والوں کی طرف نہیں دیکھنے دیتا۔۔۔ 
جبکہ عورت کو اللہ تعالیٰ  نے گھر کی ذمہ داری دی ہے اسے اپنے میاں کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا ہے، اسے اس کی دلجوہی کرنی ہے وہ پریشان ہو تو اس کی ہمت بندھانی ہے، اسے دنیا والوں سے مقابلہ کرنے کے لئے دوبارہ کھڑا کرنا ہے، اس کی عزت کی حفاظت کرنی ہے، اس کی اولاد کی بہتر پرورش کرنی ہے  اور مہرالنساء  یہ سارے کام آسان نہیں ہیں۔ خدا تخلیق کار ہے تو ماں میں بھی اس نے ایک تخلیق کار کی صفات رکھی ہیں ، وہ نو ماہ تک بچے کو اپنے پیٹ میں اٹھائے پھرتی ہے، اس کے جنم پر درد زہ سہتی ہے، اس کی اس کی ایک ایک قلقاری اور ایک ایک چیخ پر لوٹ پوٹ ہوتی ہے، وہ اس کے بات کرنے تک ڈھیروں باتیں  کرتی ہے، بچہ چلنے تک ہزاروں بار لڑکھڑاتا ہے تو وہ ماں ہی ہوتی ہے جو اسے چلنے کے قابل بناتی ہے۔ تو مہرالنساء   تو کیا سمجھتی ہے ایک ایسا شخص جس میں برداشت نہ ہو۔۔۔ وہ یہ سب کچھ کر سکتا ہے؟ نہیں۔۔۔  اس لئے مہرالنساء  زندگی میں اپنے شوہر کی ہر بات کو مجازی خدا کا حکم سمجھ کر قبول کرنا۔۔۔ وہ بھی تمہیں ہمیشہ عزت دے گا۔
عینی میں تو ایک بات ہی کہوں گی کہ  عورت گھر کے لئے قربانی اس لئے دیتی ہے کہ یہ اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیت کی  ہوئی ذمہ داری ہے۔ تو جو مالک ہوتا ہے جو ذمہ دار ہوتا ہے وہی قربانی دیتا ہے۔ رب العزت  نے ہمیں یہ ہمت دی ہے، برداشت کی طاقت دی ہے، تو یہ اس کا کرم ہے ۔ جو خواتین گھر کے معاملے میں قربانی نہیں دیتیں وہ نہ صرف اپنے زندگی تباہ کر دیتی ہیں بلکہ اپنی نسلوں کو بھی برباد کر دیتی ہیں۔

میں نے خواجہ صاحب کو صبح جو کہا وہ غلط نہیں تھا، انہیں اس بات کا احساس ہو گا  جلد یا بدیر لیکن ہو گا ضرور۔۔۔ 
عینی نے سوچا واقع ہی  عورت ایک آرٹسٹ ہوتی ہےوہ بڑے سلیقے سے ساری کڑیاں جوڑتی ہے، سارے رنگوں کو کینوس پر ایسے پھیلاتی ہے کے گھر جیساگلشن بن جاتا ہے، وہ ایک تخلیق کار ہوتی ہےاور تخلیق کار اپنی تخلیق کی گئی جنت کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہوتا ہے۔ اسے آج جواب مل گیا تھا کہ گھر کے لئے ہمیشہ عورت ہی کیوں قربانی دیتی رہی ہے اور دے رہی ہے۔
خواجہ رفیق الزماں ناشتہ کی ٹیبل سے غصہ میں جب گاڑی کی طرف بڑھے  تو بوڑھا فضل حسین بھانپ گیا صاحب کے تیور کچھ ٹھیک نہیں، اس نے جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولا ، صاحب بیٹھ گئے تو اپنی سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔ فضل حسین اس وقت سے خواجہ رفیق الزماں کے خاندان کے ساتھ وابستہ  تھا جب وہ آٹھویں جماعت میں تھے،  خواجہ صاحب اس کا بے حد احترام کرتے تھے۔ خواجہ رفیق الزماں اس کے ہاتھوں میں پلے بڑھے تھے ۔
بوڑھے ملازم نے پوچھا صاحب طبیعت ٹھیک ہے تو خواجہ رفیق الزماں جیسے پھٹ پڑے۔۔۔ 
فضل حسین اپنے گھر کے لئے سب کچھ کرو مگر کسی کو احساس ہی نہیں ہوتا۔ آج "خواجہ اینڈ سنز گروپ آف کمپنیز" کا اگر نام و مقام ہے تو وہ میرے دم خم سے ہے ، مگر مہر النساء صاحبہ جنہوں نے کبھی گھر سے باہر قدم نہیں رکھا اور جنہیں یہ تک معلوم نہیں کہ "خواجہ اینڈ سنز گروپ آف کمپنیز" میں کتنی کمپنیاں اس وقت کام کر رہی ہیں۔ وہ  بھی کہہ رہی ہیں کہ  "خواجہ صاحب ! آج آپ کا یہ جو مقام و مرتبہ ہے میری وجہ سے ہے"۔ ہوں
فضل حسین مسکرایا اور معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا،وہ  گویا ہوا صاحب جی بات سیدھی سی ہے ان ساری کامیابیوں کے پیچھے آپ کی محنت، دیانت اور ذہانت ضرور شامل ہے مگر آپ کو کامیاب بنانے کے پیچھے بیٹی مہرالنساء ہی ہیں۔ جب آپ کو گھر سے بھائیوں نے نکال دیا اور والدین کے ترکے میں سے آپکو کچھ بھی نہ ملا تو وہ بی بی صاحبہ ہی تھیں جنہوں نے آپ کو کپڑے کا کاروبار کرنے کا کہاتھا، پھر اپنا زیور بیچ کر آپ کو چھوٹی سی دوکان بنانے میں مدد کی اور ہر مشکل گھڑی آپ کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں، آپ کے پاس وقت نہیں تھا مگر انہوں نے بچوں کی بہترین تربیت کی، رشتہ دار جو آپ سے ویر کھاتے تھے ان کے ساتھ تعلقات بنائے آپ کو خاندان میں دوبارہ ایک عزت ایک مقام دلوایا۔ یہ باتیں مجھے نہیں کرنی چاہیں مگر آپ کو میں نے اپنے ہاتھوں پالا پوسا ہے اس لئے یہ ضرور کہوں گایہ مسلئہ آپ کا اور بی بی صاحبہ کا نہیں بلکہ ایک "کمانے والے" اور ایک" گھر چلانے والے" کا ہے۔

صاحب جی لوگوں کی نظروں میں کمانے والا ہوتا ہے اسی کی کوششیں ہوتی ہیں اسی کی قربانیاں ہوتی ہیں مگر گھر چلانے والے کی قربانیاں صرف کمانے والے کو معلوم ہوتی ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ کمانے والا تعریف و توصیف کے اس درجہ پہنچ  جاتا ہے کہ اس کی نظر میں گھر چلانے والی ہستی  کی اہمیت کم  ہونا شروع ہو جاتی ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ اس کی ساری عمر کی ریاضت کو ٹھکرا دیتا ہے جبکہ اسے دنیا کی نہیں صرف اسی کمانے والے کی ستائش کی  ضرورت ہوتی ہے۔
خواجہ رفیق الزماں نے جب فضل حسین کی باتیں سنیں تو دل ہی دل میں شرمندہ ہوئے ۔۔۔انہیں مہرالنساء کی وہ تمام قربانیاں ، وہ گھر کے لئے کی گئی محنت سب ان کی نظروں کے سامنے گھومنے لگا، انہی خیالوں میں وہ آفس پہنچے تو اس وقت تک اپنی ساری زندگی اور اس میں  مہرالنساءکے کردار کا احاطہ کر چکے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں ان کا بیٹا خواجہ وحیدالزماں بھی آ گیا، ا سکے اٹھنے بیٹھنے اور بات کرنے کے ہر انداز میں اس کی ماں کی جھلک تھی۔ اس نے بتایا کہ اس کا وزٹ بہت کامیاب رہا اور ماشاء اللہ امی کی دعاؤں سے ساری ڈیل فائنل ہو گئی ہیں۔۔۔

خواجہ صاحب جو آفس آتے ہی کام میں لگ جاتے تھے آج گم سم بیٹھے تھے دن گیارہ بجے خواجہ وحیدالزماں کو ساتھ لیا مہرالنساء کے لئے شاپنگ کی اور سیدھے گھر پہنچ گئے عینی بھائی اور ابو کو آج اتنا جلدی  گھر پر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ خواجہ صاحب اپنے کمرے میں گئے مہرالنساء سے نظروں ہی نظروں میںمعافی  مانگی اور ساڑھی ان کے سامنے رکھ دی ۔ مہر النساء کا چہرہ ایسے کھل اٹھا جیسے کسی نے ٹین ایج میں اظہار محبت کیا ہو۔ جب دونوں باہر آئے تو باغ وبہار ہو رہے تھے  خواجہ وحیدالزماں والدہ سے لپٹ گئے اور عینی دھیرے سے مسکرا دی۔۔۔
شام کے وقت پاکستان مونومنٹ سے پورا اسلام آباد ساون کی برکھا رت میں اجھلا اجھلا لگ رہا تھا ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی اور جواد عینی سے پوچھ رہا تھا اب ایم بی اے کے بعد تمہارا کیا کرنے کا ارادہ ہے؟
عینی نے دور وسعتوں میں کھوئےہوئے جواب دیا "آرٹسٹ" بننے کا اور جواد ہونقوں کی طرح اس کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔

تحریر:   ابرار حسین گوجر 
 

پیر، 18 جولائی، 2016

ترک انقلاب سرخ انقلاب

ترک انقلاب سرخ انقلاب، تحریر ابرار حسین گوجر
اگر لیڈر، رجب طیب اردگان جیسا ہو تو  عوام ٹینکوں کے آگے لیٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے  اور عوام ساتھ ہوں تو بلٹ والے بیلٹ والوں کے مدمقابل ٹھہر نہیں سکتے۔ 15 جولائی کی شب ترک عوام نے ترکی کی تاریخ بدل دی انہوں نے فوج کو اپنی بیرکوں میں واپس جانے پر مجبور کیا جسے اقتدار کا چسکا پڑا ہوا تھا۔ رجب طیب اردگان نے 14 سالوں میں ایسی اصلاحات کیں کہ جن سے عوام کا معیار زندگی بلند ہوا اور اقوام میں ترکی کی شناخت تیزی سے ترقی کرنے والی ریاستوں کے طور پر ہونے لگی۔ ترکی وہ ملک ہے جہاں چند عشرے قبل فوج اور سیکولرازم کے خلاف بات کرنے سے متعلق   سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا مگر رجب طیب اردگان نے میئر شپ سے لیکر صدارت تک بتدریج ایسی پالیسیاں اپنائیں کہ عوام تمام تر پروپیگنڈہ کے باوجود ان کے گرویدہ ہوتے چلے گئے،  یہ عوام کی طاقت ہی ہے کہ آج ترکی امریکہ جیسی قوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کر رہا ہے۔
16 جولائی کی صبح جب میں نے خبریں دیکھیں تو ششدر رہ گیا ۔ تین باتیں میرے لئے انتہائی حیران کن تھیں ؛

1. عوام کا بڑی تعداد میں گھروں سے نکلنا اور ان کے ہاتھوں باغی فوجیوں کی درگت
2. ترک لیڈر شب کا بہادری سے ڈٹے رہنا 
3. سازش میں فتح اللہ گولن کا نام آنا

عوام کے ہاتھوں باغی فوجیوں کی درگت
1. عوام کا بڑی تعداد میں گھروں سے نکلنا اور ان کے ہاتھوں باغی فوجیوں کی درگت
حکومت نے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر کام کیا ہو اور ان کے معیار زندگی کو بہتر کرنے کے لئے اقدامات کئے ہوں تو نتائج وہی ہوتے ہیں جو 15 جولائی کی شب کو ہمارے سامنے آئے۔ باغی فوجیوں کی بڑی تعداد نے اہم عمارتوں سمیت ائرپورٹس اور سرکاری میڈیا پر قبضہ کر لیا، انہوں نے ترک آرمی چیف سمیت متعدد جرنلز کو نظر بند کر دیا،  سوشل میڈیا ویب سائیٹس بند کر دی گئیں، موبائل سروس معطل کر دی گئی حتہٰ کہ اعلان کر دیا کہ ملک پر فوج کا قبضہ ہے اور اب ملک کا نظام و انصرام ایک امن کونسل چلائے گی۔  جبکہ ان کے پاس  ٹینک، گن شپ ہیلی کاپٹر ، جیٹ طیارے بھی تھے۔ لیکن جب عوام کی بڑی تعداد کرفیو  کی پروا کئے بغیر گھروں سے باہر آ گئی اور انہوں نے فوج کے باغی گروپ کو مجبور کر دیا کہ وہ سرنڈر کر دیں۔ عوام فوجی ٹرکوں اور ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے (یہ مناظر ناقابل فراموش تھے)  اس کے ساتھ ساتھ ترک پولیس کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل تھا کہ انہوں نے  بہت سارے مقامات پر باغی فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ رجب طیب اردگان کی اپیل پر لوگ جوک در جوک شاہراہوں، چوکوں اور تقسیم سکوائر میں جمع ہوئے اور اس سازش کو ناکام بنا  دیا،  یہ فتح ترک عوام کی فتح تھی ، فتح کے بعد عوام نے ٹینکوں کے سامنے سیلفیاں لیں۔

ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم
2. ترک لیڈر شب کا بہادری سے ڈٹے رہنا 
دوسری حیران کر دینے والی بات ترک لیڈر شپ کا رویہ تھا۔ ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم ملک کے اندر تھے اور انہوں نے واضح طور پر فوجی بغاوت کی مزمت کی اور کہا کہ حکومت ابھی تک ہمارے ہاتھ ہے اور ہم اس بغاوت سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں، ترک صدر رجب طیب اردگان جو کہ غیر ملکی دورے پر تھے انہوں نے اپنے ویڈیو پیغام کے ذریعے عوام کو کہا کہ وہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں انہیں کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی، انہوں نے کہا "دشمنوں کے پاس چالیں ہیں اور میرے پاس اللہ ہے" ان کی ولولعزمی اور بہادری دیکھئے کہ تین بجے استبول ائرپورٹ پر اترے اور اپنے خطاب میں کہا کہ "باغی قوتوں نے عوام کی گنیں عوام پر ہی تان لی ہیں" لیکن ہم اقتدار حاصل کرنے کی تمام کوششیں ناکام بنا دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترک اپوزیشن جماعتوں نے بھی تخت الٹنے کے کھیل کی بھرپور مذمت کی اور حکومت کے شانہ بشانہ اس کی مدد کی ۔

گولن تحریک کے سربراہ فتح اللہ گولن
3. سازش میں فتح اللہ گولن کا نام آنا
گولن تحریک کے سربراہ فتح اللہ گولن جو آجکل امریکہ کے شہر پنسلوینیا میں مقیم ہیں, ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ان پر فوجی بغاوت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ "ترکی ایسا ملک نہیں جس کو پنسلوینیا میں بیٹھ کر چلایا جائے".  گولن تحریک نرم انقلاب کی حامی صوفی تحریک ہے جس کا اثرورسوخ ترکی میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہے, ان کے لوگ ہر فیلڈ میں ہیں جبکہ میڈیا چینلز اور اخبارات بھی فتح اللہ گولن کی ملکیت ہیں. گولن تحریک کے تحت ترکی سے باہر بھی تعلیمی اور سماجی ادارے کام کر رہے ہیں, گولن تحریک اور رجب طیب اردگان مل کر کام کرتے رہے ہیں اور آک پارٹی کو پرموٹ کرنے میں گولن تحریک کے لوگ پیش پیش رہے. 2013 میں گولن تحریک اور حکومت کے اختلاف شدت اختیار کر گئے, جس کی وجہ سے فتح اللہ گولن امریکہ میں خود ساختہ جلاوطنی کاٹنے پر مجبور ہوئے. فتح اللہ گولن کا اور ان کے حامیوں کا اس سازش میں ملوث ہونے کے بارے ميں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا گولن اور اس سازش کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے. اس الزام کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ بغاوت کرنے والوں کے تمام جہاز اس ائرپورٹ سے اڑے جو امریکی حکام کے کنٹرول میں تھا. اگر یہ الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو یہ بات بلکل واضح ہو جائے گی کہ حکومت چاہے جمہوری ہو یا ڈکٹیٹرز کی ہو اسلام کی بات کرنا, اسلام کے اصول و ضوابط نافذ کرنا جرم ہے, ملک چاہے افغانستان ہو, مصر ہو یا ترکی...



عوام کا  رترک صدر رجب طیب اردگان کے ساتھ اظہار یکجہتی

فتح کے بعد خاتون ٹینک کے سامنے سیلفی لیتے ہوئے

عوام کے بڑی تعداد کی شرکت سرخ ترکی جھنڈوں کے ساتھ

باہر حال اس تمام بحث سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ جس جمہوری حکومت کے ساتھ اس کے عوام ہوں سازشیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں, دوسری بات تقسیم سکوئر میں ترک عوام کے ہاتھوں میں سرخ جھنڈے اس قدر تھے کہ مجھے اس واقع کو "ترک انقلاب سرخ انقلاب" کا نام مجبوراً دینا پڑا. 

ابرار حسین گوجر

چوہدری رحمت علیؒ اور ہماری اجتماعی بے حسی


زندہ قومیں اپنے ہیروز اور اساطیر کو کبھی فراموش نہیں کرتیں مگر تاریخ کا ایک ادنیٰ سا قاری ہونے کے ناطے مجھے محسوس ہو ا کہ کوئی شخصیت عوام میں چاہے کتنی ہی مقبول کیوں نہ ہو اور اس نے پاکستان کے لئے کتنا کام اور قربانیاں کیوں نہ دی ہوں بحثیت قوم ہم نے حکومتی سطح پرکبھی بھی کسی حقیقی قومی اور عوامی ہیرو کوتسلیم نہیں کیا ۔ ایک وجہ جو ذہن میں آتی ہے یہ ہے کہ شروع دن سے ہماری حکومتوں میں موجود اشرفیہ ایسے لوگوں سے جو عوام کے دلوں میں بسے ہوئے تھے خائف رہی ہے اور یہ سلسلہ وطن عزیز میں اڑسٹھ سال سے جاری و ساری ہے۔ 

اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو چوہدری رحمت علی ؒ تحریک پاکستان کے مظلوم ترین راہنما نظر آتے ہیں ۔ آپ کو نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ آپ نے جو جدوجہد کی ، تاریخی کام کیا اس کا کریڈٹ بھی آپ کو نہیں دیا گیا، تصور پاکستان جو چوہدری رحمت علیؒ نے دیا اس کو ملکی تعلیمی نصاب میں تاریخی حقائق سے نظریں چرا کر پیش کیا گیا لیکن حقائق کب تک چھپ سکتے ہیں یا چھپائے جا سکتے ہیں۔ مستقبل کا محقق و مورخ جب تحریک پاکستان کے کرداروں کو پرکھے گا تو وہ چوہدری رحمت علیؒ کو نظر اندازنہیں کر سکے گا اس کے ذہن میں جنم لینے والے سوالوں کا جواب نہ ہماری اشرفیہ اور نہ سرکاری دانشوروں کے پاس تھا اور نہ ہو گا۔۔۔۔ 
جواب میں مکمل خاموشی و سکوت 
بے حسی اور احسان فراموشی کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔
چوہدری رحمت علیؒ 16 نومبر 1897 کو ضلع ہوشیار پور (مشرقی پنجاب) کی تحصیل شکرگڑھ کے گا
ں موہراں میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام حاجی شاہ محمد تھا آپ نے 1913 میں میٹرک، 1915 میں ایف اے اور 1918میں بی اے اسلامیہ کالج سے پاس کیا،آپ 1925 تک لا ءکالج لاہور میں زیر تعلیم رہے جبکہ 1931 میں کیمبرج لاءکالج ایمنویل میں شعبہ قانون میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ لیا۔
 
چوہدری رحمت علیؒ کی جدو جہد کے حوالے سے بات کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ پاکستان اور مسلمانان ہند( جسے وہ براعظم دینیہ کہتے تھے)کے لئے کتنا جامع اور واضع منصوبہ رکھتے تھے ۔ 1915 میں( جب آپ صرف 18 سال کے تھے) بزم شبلی کے پلیٹ فارم سے یہ پیغام دیا؛
” ہندوستان کا شمالی منطقہ اسلامی علاقہ ہے ۔ ہم اسے اسلامی ریاست میں تبدیل کریں گے، لیکن یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب اس علاقے کے باشندے خود کو باقی ہندوستان سے منقطع کر لیں اسلام اور خود ہمارے لیے بہتری اسی میں ہے کہ ہم ہندوستانیت سے جلد از جلد جان چھڑا لیں“ 
1933 میں پاکستان نیشنل مومنٹ کی بنیاد رکھی ، یہی وہ سال تھا جب 28 جنوری کو آپ نے
Now or Never کا شہرہ آفاق کتابچہ لکھا۔اس میں آپ نے لفظ پاکستان کی تشریح ایسے بیان کی۔۔۔۔
پ........ پنجاب
ا......... افغانیہ
ک....... کشمیر
س....... سندھ اور 
تان.......بلوچستان
یہ چار صفحات پر مشتمل کتابچہ اتنا مدلل اور جامع تھا کہ ےکم اگست ، 1933 کو برطانیہ کی پارلیمانی کمیٹی، ”جوائنٹ پارلیمنٹری سلیکٹ کمیٹی “نے چوہدری رحمت علیؒ کے مطالبہ پاکستان کا نوٹس لیتے ہوئے ہندوستانی وفد کے مسلم اراکین سے سوالات کئے، جن کے جواب میں وفد کے اراکین جناب سر ظفراللہ خان، عبدللہ یوسف علی اورخلیفہ شجاع الدین صاحب نے کہا کہ یہ صرف چند طلبا ءکی سرگرمیاں ہیں کسی سنجیدہ شخص کامطالبہ نہیں ہے۔ 1935 میں آپ نے کیمبرج سے ہفت روزہ اخبار ’ ’پاکستان“ جاری کیا اسی اثناٰ میں جرمنی اور فرانس کا دورے کیے تاکہ مطالبہ پاکستان کو اجاگر کیا جا سکے۔1938 میں آپ نے براعظم دینیہ کا تصور پیش کیا جس میں دس مسلم اور دس غیر مسلم ریاستوں کی تجویز دی۔ مارچ 1940 میں حیدرآباد دکن کے لئے آزادی کا خاکہ پیش کیا اور عثمانستان کا نام تجویز کیا۔ 23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں آپ شرکت کرنا چاہتے تھے مگر چند روز قبل خاکساروں کی فائرنگ کو بہانہ بنا کر اس حکومت وقت نے آپ کو جلسے میں شرکت سے روک دیا گیا۔ 23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میںاگرچہ لفظ پاکستان شامل نہیں تھا مگر اس میں پاس ہونے والی قرار داد پر طنز کرتے ہوئے ہندو پریس نے قرار داد پاکستان کے نام سے شہ سرخیاں لگائیں جس کے بعد یہ لفظ اتنا زبان زد عام ہوا کہ الگ وطن کا نام پاکستان ہر شخص کی زبان و دل پر تھا اور ایک طالب علم کی سرگرمیاں رنگ لے آئیں۔ 

میرے خیال سے چوہدری رحمت علیؒ وہ واحد لیڈر ہیں جنھوں نے تقسیم ہند اور پاکستان کا واضح فارمولا دیا اور عملی  کی ، آپ کا مطالبہ پاکستان اس وقت منظر عام پر آیا جب دوسرے مسلم سرکردہ لیڈر برطانوی فیڈریشن میں زیادہ سے زیادہ اختیارات والی ریاستوں کے قیام کے بارے میں غور و غوض کر رہے تھے۔ چوہدری رحمت علیؒ کے پلان کے مطابق اگر برصغیر کی تقسیم ہوتی تو آج جتنی علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں ان کی قطعاََ ضرورت نہ رہتی ، نہ پاکستان کو اپنابازو الگ ہونے کی خفت اٹھانی پڑتی ، نہ اندرا گاندھی دو قومی نظریے کے حوالے سے کوئی زہر افشانی کر سکتی۔ بہر حال یہ ماننا پڑے گا چوہدری رحمت علیؒ ایک لازوال داستان کا نام ہے، آج جب ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ لفظ پاکستان کے خالق ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ اس لفظ کے ہر ہر حرف پر آپ کی برسوں کی محنت شامل ہے۔یہ کام معمولی نہیں اور نہ معمولی آدمی کا ہے یہ وہی کر سکتا ہے جس پر اپنے رب کی خاص عنایت ہو۔ آپ 1948 میں پاکستان آئے ، اپنے خوابوں کے ملک مگر اندرونی مخالفت اور غلام گردش سازشوں سے بہت مایوس ہوئے اور واپس کیمبرج چلے گئے۔ چوہدری رحمت علیؒ کی تحریریں عوام میں بہت مقبول تھیں آپ نے
Now or Never کے علاوہ ، مسلم ازم، انڈس ازم اور ” پاکستان دی فادر آف پاک نیشن“ جیسے پمفلٹ تحریر کئے۔

3 فروری 1951 بروز ہفتہ بیماری و کسمپرسی کی حالت میں اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے، آپ کے جنازے کو تقریباََ 17 دن تک اس آس پر کولڈ سٹوریج میں رکھا گیا کہ شائد کوئی پاکستانی اس پہلے پاکستانی کو پاکستان میں دفنانے کے لئے آئے، کوئی یہ کہے ہاں چوہدری رحمت علیؒ اور پاکستان ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں مگر ہم اس وقت بھی مصروف تھے، سازشی تھیوریاں بنانے میں، پرمٹ تقسیم کرنے میں اور سیاست کر رہے تھے قوم و ملک کے وسیع تر مفاد میں اور آج بھی اڑسٹھ سال بعد بھی ۔۔۔ ہمیں نہ تو چوہدری رحمت علیؒ کی فکر ہے اور نہ پاکستان کی، ہم تو ان کے جسدخاکی کو پاکستان لانے کے سلسلے میں بھی سیاست، خود غرضی اور مفاد پرستی سے باز نہیں آتے۔آج بھی کیمبرج کے قبرستان کی قبر نمبر
B-8330 کا مکین اس انتظار میں ہے کہ جس وطن کے لئے اس نے ساری زندگی وقف کر دی ، جس کے کروڑوں لوگوں کو اس نے نام دیا ، پہچان دی اور جو فخر سے یہ کہتے ہیں ہاں ہم پاکستانی ہیں۔۔۔۔ مگراس عظیم لیڈر جس نے یہ سوچ دی کہ مسلمانان ہند کے لیے علیحدہ وطن ہونا چاہئے کے سلسلے میں بحثیت قوم مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں ، گہری خاموشی اور نہ ختم ہونے والی غنودگی طاری ہے ۔ اے ابد کے مکیں ان میں کوئی نہیں جو یہ کہے ہاں چوہدری رحمت علیؒ ہمارا ہے اس کو اس کا مقام دو،جو یہ تسلیم کرے کہ ہاں اس پاک وطن کے ہر گوشے پر چوہدری رحمت علی ؒ کا ہم سے کہیں زیادہ حق ہے۔ 

دوستو!!!
ایک تاریخ لکھوائی جاتی ہے اور ایک تاریخ ہوتی ہے اور جو تاریخ ہوتی ہے وہ چاہے جتنی بھی دھندلا جائے وقت اور حالات کی گرد کی کتنی ہی دبیز تہیں اس پرقبضہ جما لیں کبھی نہ کبھی لوگوں کی نظروں سے وہ دھندلاہٹ اور گرد ہٹتی ضرور ہے اور مجھے لگتا ہے کہ وہ وقت آن پہنچا ہے جب ہمیں چوہدری رحمت علیؒ کے کام کا اعتراف کرنا ہو گااور قومی سطح پر ان کا جو مقام ہے اسے تسلیم کرنا پڑے گا اور ان کا جسد خاکی پورے قومی اعزاز کے ساتھ ، باوقار قوموں کی طرح پاکستان لایا جائے جیسا کہ اس سلسلے میں موجودہ حکومت کام کر رہی ہے شکر پڑیاں، اسلام آباد میں آپ کی یادگار بنائی جائے تاکہ ہم آنے والی نسلوں کے سامنے سرخرو ہو سکیں آہیں اس اجتماہی بے حسی کو خیر باد کہہ کر اپنے عظیم راہنما چوہدری رحمت علیؒ کو خیراج تحسین پیش کریں.

ابرار حسین گوجر

اک لمحہ غی خطاء (گوجری تحریر)


شبو تے رشید گراں چھوڑ غے شہر چلیا تھا۔   رشید دو روز پہلوں ای گراں آیو تھو۔  او شہر وچ ایک صاحب نال گڈیاں غی پارکنگ غو کم کرے تھو، اس کول  رہائش واسطے دو کمراں غو سیٹ تھو۔ رشید محنتی تے ایماندار  ہویا نال اپنا کم غو ماہر تے پابند تھو۔ اِسے گل واسطے صآحب اس نال بہت خوش تھو ، اس غا گاہک وی اس غی محنت تے ایمانداری غی وجہ دیں اس ناں پسند کریں تھا ۔ اسے وجہ دیں رشیدناں اپڑیں تنخواہ دے علاوے گاہکاں کولوں وی ٹپ مل یاہے تھی۔  گزر اوقات چنگی وے تھی۔

شبو  غو اصلی ناں شبنم تھو پر لاڈ وچ گھر الیں شبو کہنڑوں شروع کر دتو۔۔   اِناں غی شادی  ناں پنج  سال ای ہوا تھا۔ شبو رشید غی ماسیر تھی دوئے ایک دوآ ناں پسند کریں تھا ۔ شبو ہور چار بہن پائی تھا، سباں  بہن پائیاں کولوں نِکی تھی۔  مچ سوہنڑی گجری تھی ،  دنداسو مار غے جس ویلے وا  ہسے تھی تے رشید اس ناں دیختو رہ یائے تھو۔  اس غو مُہوں گھول مٹول تے جسم پریو پریوتھو ۔ رنگ برنگی چنی وچ اس غو روپ ہور نکھرغے سامنڑیں آئے تھو۔  بزرگاں غی رضامندی نال شبو تے رشید ایک دوآ غا ہمیشاں  غا ساتھی بن غیا تھا۔

رشید غی تعلیم تے پنجیں تک تھی پر او اپنا بچاں ناں خوب پڑھانڑوں چاہے تھو۔۔۔ بس اس غی یاہی خواہش تھی جس دیں مجبور ہو غے او شہروں آیو تھو، تے اپنا لالا تے دِدے ناں دسنوں چاہے تھو کہ ہوں تھارے نال بووں پیار کروں پر میری خواہش اے کہ میرا بچہ وی پڑیں تے کوئی بنڑ ھ سکیں۔ او شہر وچ دیخے تھو کہ کیسا کیسالوک ایں، پڑیا لخیا ۔۔۔سلجھیا واہ، سوجھ بوجھ آلا۔۔۔۔ اخلاق صاحب تے وانیا بی بی ناں جد وی ملے یا دیخے تھو تے اس ناں بہت خوشی وے تھی۔۔۔ بہت ہنس مکھ، عزت کریا آلا، ہمیشہ اس ناں سو دو سو روپیو زیادہ ای دیں تھا اور اس غی خیر و آفیت پچھتا رہیں تھا۔ اخلاق صاحب نے اک دن اس غا بچاں غی پچُھی اس ناں پڑھائی غا فائدہ دسیا نال یا گل وی کہی کے او بچاں ناں شہر لے آئے تے اناں غی فیس او آپ دیں غا۔۔۔  

اناں ناں دیخ  غے، گل سنڑھ غے او پگھلو وی خواب دیخِن لگو کہ او اپنڑاں بچاں ناں تعلیم ولوائے غو تے انشاء اللہ اس غا بچہ وی ایک دن اے جئی خوشیاں تے مسرتاں دیں بھر پور زندگی گزاریں غا۔  نال اس ناں یاں خوشی وی تھی کہ چلو رہائش غی جگہ اس کول ہے تے فیس اخلاق صاحب دیں غا ۔۔۔کدے او وانیا بی بی ناں دعا دیئے کہ ضرور اخلاق صاحب ناں انہیں ای یا صلاح دتی وے غی۔

باہر حال او اِناں سوچاں وچ ای شہروں گراں آ غیو ۔۔۔ شبو نے اچانک اس ناں ڈیٹھو تے خوشی نال گلنار ہو غئی۔  فانی تے زینی اس غے اگے پچھے پھرینڑھ لغ پیا۔ رشید وی بال بچاں  ناں دیخ غے بہت خوش ہوا ۔۔۔ سیدھو لالا تے دِدے کول گیو انہاں ناں سلام کیو-- او وی اس غا اس طراں آیا دیں بہت خوش ہوا ۔۔ کیوں کہ  روٹین وچ او دو مہیناں بعد آئے تھو  پر اس دفعہ مہینہ بعد ای آ غیو ۔  دیر تک او گل باتاء رہیا ۔۔۔ دوپہراں غی روٹی کھا تاں اس ناں بووں مزو آئیو۔۔۔ لسی وچ کتھڑا  غو ساغ تے مکئ غی روٹی ۔۔۔ اس غو پسندیدہ تھو ، شبو نے ساغ وچ مکھن غو پیڑو   رکھیو تے  رشید حیران ہوا کہ مہیس تے ملتی نی یو مکھن کِتوں  لی آئی اے شبو! ۔۔شبو وی اس غی حیرانگی جان غئی تے بولی یو جیڑو  دودھ  لیاں اس غی ملائی لوا غے تے میں تھوڑو جیو مکھن بنایو تھو ۔۔۔ میں کیو دو مہیناں بعد تووں آؤ غا تے ہوں سیر ایک کھیی (گھی) شہر دے چلاؤں غی، پر تووں سویل آ رہیا ہو ہون اِت ای کھاؤ۔۔۔ رشید دل وچ تے بہت خوش ہوا پر فیر وی بولیو توں یو مکھن نکِاں تے  دِدے لالا ناں دیئے آ۔۔۔ شبو بولی۔۔۔ ہووں سارا اِت روز گلاس گلاس دودھ پیاں، لسی ، دہیں تے روز گوانڈی دے یائیں۔۔۔  کھاد خوراک وی ماری چنگی اے پر  تووں اُت پردیس وچ پانڑیں غو کھا کھا غے ۔۔۔ دیخو پیلا زرد ہو  غیا او۔۔۔ کوئی چیز اُت خالص نیں لبھتی۔۔۔ دِدے بولی پترا ہر ویلے توں ای اکھاں اگے رہ، اپنڑیں صحت غو بہت خیال رکھیا کر۔ لالا نے کیو شکر کرو مارو رشید تے بہت چنگی جگہ اے ۔۔۔۔ الگ کمرہ لبھا وا ایں، کھادا واسطے وی صاحب دیں یائیں تے دیوٹی وی آسان اے۔۔۔ فضلاء غو پتر شیٹرنگ کرتاں چوتھی منزل اپروںٹھے پیو  تے دویئے جنگ پج غئی ایں، ہسپتال وچ اے۔۔۔ دِدے بولی ۔۔۔ وہ اللہ غو لکھ شکر اے ۔۔۔ پترا نماز پڑیا کر تے اللہ غو شکر ادا کیا کر ۔۔۔۔

روٹی کھا غے جس ویلے سارا سو غیا  (دوپہراں غی روٹی دیں بعد گراں وچ ادھو پونڑوں کینٹھو سارا آرام کریں) تے رشید نے ساری گل شبو ناں دسی۔۔۔ شبو  تے جس طراں سکتا وچ آ غئی ۔۔۔ اس غا منہ وچوں صرف اہی لفظ نکللیا کہ  لالا تے دِدے ؟؟؟

لالا تے دِدے ناں وی نال لے یاؤں غو ۔۔۔۔ پر اچور ہوں تِناں تے بچاں ناں لیا واسطے آئیو ہوں ۔۔۔ بچاں غو داخلو ہو یائے تے مہینہ دواں مہینہ بعد دیں بعد گرمیاں غیں چھٹیں ہو یاہیں غیں ۔۔۔۔ گرمیاں وچ لالا تے دِدے اُت تنگ ویں غا، دو مہینہ اناں ناں پائی سلیم کول چھوڑ یاں غا۔  اس واسطے انہاں ناں ہوں چھٹیاں دیں بعد لے غے جاؤں غو۔ انشاءاللہ

رات کفتاں غی نماز دیں بعد رشید نے ساری گل لالا تے دِدے نال کی،  دوئے بہت پریشان ہوا ۔۔۔ لالا نیں کیو پترا توں اپناں بچاں ناں تعلیم ولوایا واسطے شہر لے غے جائے تے پیو جا، پر ہووں اپنڑیں ساری زندگی اجاء ہی گزاری اے یو در و دیوار ہم ناں بہت عزیز ایں ۔۔۔اے جب، یو ناڑا غو پانی، اے صبح صبح چڑیاں  غی آواز  ہون ماری زندگی نال ایں۔ اللہ  تِناں  خوش رکھے تے تیری اولاد پڑھ لخ غے کسے قابل وے ۔۔۔ہم بہت خوش واں غا۔۔۔بس اتنی ای گل لالا نے کہی تھی کہ شبو غیں ہچغین سنائی دیں نغ  پئیں۔

صبح نور پیر غے ویلے رشید بوجھل بوجھل قدماں غے نال شبو، فانی تے زینی ناںلے غے  شہر واسطے نکلیو۔ پائی سلیم، اناں غی فیملی، لالا جی تے دِدے نے انہاں ناں دعاں غے نال رخصت کیو۔۔۔ اللہ غو کرنوں کے بس ٹیم اوپر مل غئی ۔ باڑیاں دیں مری آلا روڈ اوپر بس چڑی تے ایبٹ آباد دروں آیا آلی بس نے اس ناں رستو نی دتو تے وا اگے پے غئی ۔ اس گستاخی ناں ڈرائیور برداشت نی کر سکیوتےدوان بساں غی ریس لگ پئی۔۔  اس ریس وچ بساں آلا جیت غیا پر انہاں غی ایک لمحہ غی خطاء غی وجہ دیں رشید ، شبو تے انہاں غی انکھاں وچ سجھیا خواب ہار غیا۔

ابرار حسین گوجر 

اپنا گھر

آج چھٹی تھی مگر لہجوں میں کچھ تلخی بھی ۔۔۔۔۔
صبح سے موسم ٹھنڈا اورہوا خنک تھی۔ دھوپ تھی تو سہی مگر ایسے جیسے یرقان کی مریضہ ہو، گلی کے نکر پرنوجوان، دوکانوں کےتھڑوں پر  بڑے بوڑھے  اور گھروں کی چھتوں پر  اہل خانہ  دھوپ سینکنے کے لئے بےتاب تھے مگر جو دھوپ ان تک سسک سسک کر پہنچ رہی تھی اس میں حدت نہ ہونے کے برابر تھی  اور جو تھوڑی بہت گرمائش تھی وہ چلنے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے شر سے محفوظ نہ تھی۔
کمال اور فرزانہ  اتوار کو ذرا لیٹ ہی اٹھتے تھے کیونکہ ایک چھٹی والا دن ہوتا تھا جس میں ان کی روٹین تبدیل ہوتی تھی ورنہ انہیں روزانہ صبح  چھ بجے تیار ہو کر اپنے اپنے کام پر جانا ہوتا تھا ۔ ہر اتوار کی طرح آج کا اتوار بھی کچھ تلخی سے ہی شروع ہوا ۔۔۔۔ کیوں ؟
پچھلے پندرہ سال کی مسافت دونوں نے ساتھ کاٹی ۔۔۔۔ زندگی کے نشیب و فراز، دکھ سکھ اور اونچ نیچ  ایک ساتھ دیکھےان بیتے سالوں میں دونوں کی محبت ہی ایسی بائنڈنگ پاور تھی جس کے سہارے انہوں نے یہ وقت بیتایا ۔ آج جب وہ سوچتے  ہیں کہ ہماری رفاقت کو پندرہ سال بیت گئے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے پندرہ سال نہیں پندرہ منٹ کا قصہ ہو۔  آمدن کم تھی لیکن زندگی اچھی گزر رہی تھی ، ان کی کوئی لمبی چوڑی خواہشیں بھی نہ تھیں مگر  فرزانہ کو اپنے گھر کی شدید خواہش تھی۔۔۔  کبھی کبھی اللہ تعالیٰ سب کچھ دے کر ۔۔۔ کوئی ایسی کمی چھوڑ دیتا ہے جو اس کی یاد کا سبب بنی رہتی ہے۔
کمال اچھا تھا یا برا مگر اس کی بھی شدید خواہش تھی کہ جس شریک حیات نے اس کی زندگی میں اس کے آرام کا اورعزت  و آبرو کا  خیال رکھا ، جس نے ہر تلخ بات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا ، ہر مشکل وقت میں اپنی بساط سے بڑھ کر ساتھ دیا اور جس کے ساتھ بیتا ہوا ہر لمحہ ایک یادگار اور بے مثال لمحہ بن گیا۔ اس کی خواہشات کو پورا کرے،  اسے جس نے اپنی ہر خواہش، ہر سپنا  اسکی  ذات کے لئے تیاگ دیا وہ بھی اس کے لئے کچھ کر سکے مگر ۔۔۔۔۔
مگر ۔۔۔۔کمال ایک سرکاری دفتر میں ایک معمولی ملازم تھا اور کرائے کے گھر میں رہتا تھا ۔ اس کی آمدن اس کے خرچ سے کہیں کم تھی  اور رہی سہی کسر بجلی ، پانی اور گیس کے بل نکال دیتے تھے۔  کبھی کبھی وہ سوچتا کہ لوگوں کے پاس اتنا پیسہ کیسے آتا ہے۔۔۔۔۔
وہ اور فرزانہ  بازار جاتے تو بازار خریداروں سے بھرے ہوتے۔۔۔خواتین   دو دو، تین تین جوڑے کپڑے اور جوتے لے رہی ہوتیں ہر دوکان پر ایسے لگتا  جیسےسارا شہر انہی کا گاہک ہے ۔ ایسے موقعہ پر کمال فرزانہ سے آنکھیں نہ ملا سکتا ۔ روڈ پر جائیں تو تمام روڈ نئی گاڑیوں سے بھرے ہوئے ایسے محسوس ہوتا جیسے ہر شخص گاڑی کا مالک ہے بس ہم ہی اس سہولت سے محروم ہیں ۔۔۔۔
پبلک ٹرانسپورٹ سے جب تھک ہار کر انہیں کچھ فاصلہ بھی طے کرنا پڑتا تو فرزانہ نڈھال سی ہو جاتی اور ایک لمبا سانس لے کر کہتی کمال کبھی ہمارے پاس بھی گاڑی یا بائیک ہو گا ؟
وہ دونوں ہنس مکھ اور ملنے ملانے کے شوقین تھے مگر اب کسی بھی پارٹی میں جاتے ،  تو خواتین زرق برق جوڑوں میں سج سنور کے آتیں اور ساری گفتگو کا محور جوتے، کپڑے اور اپنی اپنی امارت ہی ہوتی جبکہ مرد اپنے شاہانہ طرز زندگی اور اپنی وقعت و سربلندی کے فرضی قصے سناتے۔۔۔ جس پر دونوں اور خاص طور پر فرزانہ کو اپنا آپ کمتر محسوس ہوتا ۔۔۔۔۔ پرانے وقتوں کے داناء کہتے تھے تمہارے پاس اگر اللہ کا دیا ہوا ہے بھی تو اس کی نمود و نمائش نہ کرو کہ تمہارے آس پاس رہنے والےاحساس کمتری کا شکار نہ ہوں مگر یہ پرانے وقتوں کی باتیں تھیں اب تو جب تک سب کو سارے ٹھاٹھ دیکھائے نہ جائیں اور ان  کے متعلق بتایا نہ جائے۔۔۔۔ چیز وں کو برتنے کا مزہ  ہی نہیں آتا۔
کمال نے بھی فرزانہ کی"اپنے  گھر"  کی خواہش پوری کرنے کے لئے اپنے دستیاب وسائل میں پوری کوشش کی مگر جب دونوں کو محسوس ہوا یہ ممکن نہیں ہے تو فرزانہ نے ایک دن کمال سے کہا میں پڑھی لکھی ہوں آپ آفس میں ہوتے ہیں میں گھر میں بیٹھے بیٹھے پریشان ہوتی رہتی ہوں ، سوچتی ہوں سکول میں پڑھانا شروع کر دوں ۔ کمال نے بھی وقت اور حالات کے مطابق اس کو جاب کی اجازت دے دی ۔ مگر حالات جوں کہ توں رہے۔  پندرہ سالوں کی محنت، اپنی ہر چھوٹی بڑی خواہش کا گلا گھونٹنے کے باوجود  اورتمام تر کوششوں کے بعد وہ صرف اپنا پلاٹ خرید سکے اس میں بھی آدھی سے زیادہ رقم  قرض کی شامل تھی۔۔۔
 جس کی وجہ سے ان کے رویوں میں چڑچڑا پن پیدا ہو گیا ۔ اب بات بات پر تلخی پیدا ہو جاتی ہے اور خاص طور پر اس وقت جب انہیں کسی شادی پر، کسی فنگشن پر، کسی پارٹی پر جانا ہو تو۔۔۔۔۔ آج بھی ان کو ایک رشتہ دار کے ہاں جانا تھا گو کہ وہاں فوتگی پر فاتحہ کہنے جانا تھا مگر آجکل فاتحہ کہنے کے لئے بھی خواتین شادی/بیاہ  کی طرح تیار ہو کر جاتی ہیں اور مرد تھری پیس سوٹ میں ۔۔۔ ورنہ چہ مگوئیاں شروع۔۔۔۔ فرزانہ کے پاس نہ ڈھنگ کے کپڑے تھے اور نہ جوتے جس کی وجہ سے وہ کمال کو باتیں سنا رہی تھی اور کمال کے پاس سننے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
چار و ناچار تیار ہو کر وہ فوتگی والے گھر گئے ۔ وہاں جو بابا جی فوت ہوئے انکا بیٹا موجود نہیں تھا بہو تھیں ۔ اس بیٹے کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔  ماشاءاللہ سب اپنے اپنے ذاتی گھروں میں رہتے تھے اور خوشحال تھے۔  یہ بڑے بیٹے کا گھر تھا۔
کمال :    السلام و علیکم
بہو:     وعلیکم السلام ، آئیں بیٹھیں آپ دونوں تو اب مرن جین سے بھی گئے ، کم از کم فوتگی پر تو آ جایا کرو
فرزانہ:  بس جمیلہ خالہ،  بابا جی تو پورے علاقے میں نامی گرامی آدمی تھے ان کا منہ نہ دیکھنا ہماری بدنصیبی ہے مگر کمال کو آفس کے کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا پڑ گیا جس کی وجہ سے ہم حاضر نہیں ہو سکے
جمیلہ:    یہ تو آپ نے بلکل ٹھیک کہا بابا جی نے اپنی زندگی بہت اچھی گزاری ہے ، خوب کمایا اور دوسروں کی بھی جتنی ہو سکی مدد امداد کی۔  اپنے تمام بچوں کے لئے پلاٹ اور بیٹیوں کو گھر بنا کر دیئے۔
کمال:    بس جی خوش قسمت ہیں آپ لوگ کہ باباجی جیسے شفیق اور محبت کرنے والے بزرگ ملے۔ جمیلہ خالہ کیا وہ آپ کے ساتھ رہتے تھے۔؟
جمیلہ:    نہیں کمال وہ تو گاؤں میں چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہتے تھے، شہر  میں رہنا ان کو پسند نہیں تھا  پھر بےبے جی کی قبر بھی ادھر ہی ہے اس لیے ان کا جی یہاں نہیں لگتا تھا۔
فرزانہ:  تو کیا  بابا جی  بیمار تھے؟
جمیلہ:    فرزانہ  اللہ کا بہت کرم تھا  باباجی کی عمر ایک سو دس سال ہونے کے باوجود وہ ابھی تک بلکل ٹھیک اور صحت مند تھے ابھی بارہ  دن پہلے اپنی پنشن بنک سے خود لے کر آئے اور انتقال سے تین دن پہلے ان پر فالج کا اٹیک ہوا چھوٹا بیٹا ہسپتال لے کر آیا،  میرے میاں چونکہ سرکاری ملازم ہیں اس لئے علاج سرکاری طور پر ہوا تمام ٹیسٹ وہیں پر ہوئے۔ پر رب کی جو مرضی!
کمال:    تو کیا ہسپتال میں ہی فوت ہوئے ؟
 جمیلہ:   نہیں بیٹا دوسرے ہی دن ہسپتال سے ڈسچارج ہو گئے تھے۔ بیٹوں نے پوچھا کہ کدھر جا نا ہے ابا جی کہنے لگے کہ میں اسلم (بڑے بیٹے) کے گھر جاؤں گا ، میں نے کہا ابا جی آپ کو تو پتہ ہے ہم بھی آپ کو اپنے گھر لے جانے کے شدید خواہشمند ہیں مگر ہمارے ہاں گیس نہیں اور سردیوں میں بغیر گیس کے آپ کا رہنا ممکن نہیں ۔۔۔ اب آپ کیا کہتے ہیں ؟
 ابا جی نے کہا کہ  چلو پھر امین کے گھر لے چلو اس کے بچوں سے بھی مل لیں گے ۔۔۔۔۔۔ امین بھائی ۔۔۔ نے کہا ابا جی میرے بچے بھی آپ سے ملنے کے لئے بے تاب ہیں مگر ہم دوسرے فلور پر رہتے ہیں آپ کو سیڑھیاں اترنے چڑنے میں مشکل ہو گی ۔۔۔ جیسے آپ کہتے ہیں ویسے ہی کر لیتے ہیں ۔۔۔۔
ابھی متین نے کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ ابا جی نے ایک گہرا  سانس لیا اور کہا  تو پھر چلو اپنے گھر ہی چلتے ہیں ۔۔۔۔۔
اور ایک لمبی ہچکی کے ساتھ ان کا دم خرچ ہو گیا۔
 پر بیٹی فرزانہ ہمیں کوئی افسوس نہیں ہم بہوؤں،  تینوں بیٹوں اور بیٹیوں نے  خوب خدمت کی اپنے والد کی۔۔۔۔
اب جو رب کی مرضی ۔۔۔۔
کمال اور فرزانہ گم سم بیٹھے تھے ۔۔۔ان کے ذہن میں اپنے گھر کے الفاظ ایک گونج کی طرح ٹکرا  رہے تھے

اپنا گھر۔۔۔ اپنا گھر ۔۔۔اپنا گھر

ابرار حسین گوجر 

اتوار، 17 جولائی، 2016

میراث


قدم کھیتوں کی گیلی اور ہل چلی مٹی سے ابھی بغلگیر نہ ہوئے تھے کہ نتھنے مٹی کی مانوس خوشبو سے بھر گئے, یہ سوندھی سی خوشبو اس کے روئیں روئیں کو مہکا گئی. وہ مٹی کی اس بو کا شیدائی تھا جو بارش کے بعد یا کھیتوں میں ہل چلانے کے بعد آتی تھی. 

سبحان آج ہی شہر سے آیا تھا وہ بہت خوش تھا کیونکہ اس نے میڑک کا امتحان پاس کر لیا تھا. گھر پہنچتے ہی اس نے دادا جان کا پوچھا یہ جان کر کے وہ کھیتوں میں ہیں اس نے ایک لمحہ بھی رکنا گوارہ نہ کیا اور سیدھا کھیتوں کی طرف آ گیا.

یہ بات اسوقت کی ہے جب گاؤں کے لوگ اپنے بچوں کو پانچ سال کی عمر میں سکول داخل کروا آتے تھے اور پھر میٹرک کے بعد سرٹیفکیٹ لینے کے لئے ہی سکول کی خستہ حال عمارت کا دیدار کرتے تھے, کچھ بچے اپنے والدین کو اس بیکار کی مشقت سے بچا لیتے, کیونکہ وہ میٹرک سے پہلے ہی سکول کو خدا حافظ کہہ چکے ہوتے.

سبحان احمد کو اس کے دادا جان نے دیکھا تو ان کا پسینے سے شرابور چہرا کھل اٹھا, وہ سرخ وسفید رنگ کے بڑے باوقار بزرگ تھے. انہوں نے دیہاڑی داری کر کے گھر چلایا, اپنے تینوں صاحبزادوں کو اچھی تعلیم دلوائی بیٹیوں کی اچھی تربیت کی, شہر میں جائیداد بنائی ان کے ہم عصر ان سے جہاں حسد کرتے تھے وہیں ان پر رشک بھی کیا کرتے. گاؤں میں لوگ ان سے مشورہ لینے آتے یا کسی کو مدد چاہئے ہوتی تو اسے انہیں کے در سے امید ہوتی, غرض ان کے گھر آنے جانے والوں کا تانتا بندھا رہتا.

سبحان احمد ان کی جان تھا وہ کہتے ہیں کہ "اصل سے سود پیارا" تو واقعہ ہی اپنے بیٹوں سے زیادہ پیارا انہیں یہ پوتا تھا۔ سبحان احمد بھی ان سے بہت پیار کرتا تھا اسے ماں باپ کے پیار کا پتہ ہی نہ تھا اس کے دادا اس کی کل کائنات تھے, وہی اس کی ماں تھے اور وہی اس کے باپ....

دادا جان نے پیل (کھرپا) ایک طرف رکھا داری دار صافے سے اپنا پسینہ صاف کیا, (سورج کی کمزور ہوتی کرنوں میں وہ بہت خوبصورت لگ رہے تھے) اور سبحان احمد کے لئے اپنے بازو پھیلا دیے وہ دوڑتا ہوا ان سے لپٹ گیا, یہ منظر جب ڈھلتے سورج نے دیکھا تو ڈبڈبا گیا, ہر لمحہ جامد وساقط ہو گیا چیڑیوں کی چہچہاہٹ دور کہیں بہت دور سے سنائی دینے لگی اور درخت محبت کا یہ لمحۂ مہویت سے دیکھنے لگے...

وہ دادا پوتا دنیا مافیا سے بے نیاز تھے دادا جان نے سبحان احمد کا ماتھا چوما, ہاتھ چومے گال چومے اپنے سینے سے لگایا, پھر دیکھا پھر سینے کے ساتھ بھینچا سر پہ ہاتھ پھیرا... اسی اثنا میں سبحان احمد نے بے تابی سے اپنے پاس ہونے کی خبر سنائی ساتھ ہی اپنے فیصلے سے آگاہ کیا کہ اب میں کام سیکھوں گا اور آگے نہیں پڑھوں گا.
دادا جان نے اپنا داری دار صافہ زمین پر بچھایا سبحان احمد کو پاس بیھٹایا اور اسے کہنے لگے بیٹا آج میں بہت خوش ہوں کہ تم نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا ہے.
آؤ میں تمہیں آج ایک راز کی بات بتاتا ہوں.
بیٹا تمہیں معلوم ہے مال و دولت اور جائیداد کیا ہے؟ 
سبحان احمد نے بتایا کہ دادا جان یہ جو ہمارے پلاٹ ہیں, کوٹھیاں ہیں, ہماری زمین ہے, کھیت ہیں, باغ ہیں, چراہ گاہیں ہیں اور ان پر سونا اگلتی جو فصلیں ہوتی ہیں یہ ہماری جائیداد ہے, جاگیر ہے۔
پھر اس نے سینہ پھلا کر فخر سے کہنا شروع کیا جو اس جائیداد سے, فصل سے اور کاروبار سے آمدن ہوتی ہے وہ مال و دولت بھی ہمارا ہے۔

دادا جان نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور بولے بیٹا تم نے ٹھیک کہا یہ سب کچھ ہمارا ہے, میرا, تمہارا تمہارے باپ اور تائے چاچوں کا...
لیکن سنو! 
یہ سب جائیداد, مال ودولت عارضی ہے آج ہمارے پاس ہے کل شاید نہ ہو, اسے تقسیم کریں تو کم ہوتی ہے, اسے خرچ کریں تو گھٹتی ہے۔ دنیا کے سارے فساد اسی سے شروع ہوتے ہیں۔ یہ عزت دیتی دلاتی بھی ہے اور ذلیل و رسوا بھی کرتی ہے۔
سبحان احمد بہت غور سے دادا جان کی باتیں سن رہا تھا. دادا جان نے کہا جس شخص کے پاس موجود ہو ڈر اور خوف اس کے دل میں بسیرا کر لیتے ہیں, چھین جانے کا ڈر  کھو دینے کا خوف, اپنوں اور پرائیوں سے ڈر, شک کی پرچھائیاں ہر وقت پیچھا کرتی رہتی ہیں. جس کی وراثت میں یہ مال ودولت آتا ہے یہ تمام بیماریاں بھی اس کو ساتھ تحفہ میں مل جاتی ہیں۔

میاں سبحان ایک دولت ایسی بھی ہے جو خرچ کرنے سے بڑھتی ہے, جسے تقسیم کیا جائے تو اس میں اضافہ ہوتا ہے, جو بانٹی جائے تو کمی نہیں ہوتی. جو پاس ہو تو کوئی چھین نہیں سکتا اور اس کے ہونے سے خود اعتمادی اور عزم پیدا ہوتا ہے۔
تمہیں معلوم ہے وہ کونسی دولت ہے؟
سبحان احمد نے نفی میں سر ہلایا تو دادا جان آہستہ سے گویا ہوئے میرے بچے علم کی دولت, تعلیم کا زیور اور آگائی کی جاگیر تم سے کوئی نہیں لے سکتا, کوئی چھین نہیں سکتا اور کوئی چرا نہیں سکتا. 
بیٹا سبحان ایک بات اور حکمت, فہم اور دانائی کی میراث سب کے حصہ میں نہیں آتی اور جس کے حصہ میں آتی ہے اسے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی.
آج دادا جان کو گزرے عرصہ ہو گیا تھا مگر ان کی میراث سے جو حصہ اسے ملا اس نے اسے دنیا والوں کی محتاجی سے آزاد کر دیا...

ابرار حسین گوجر