پیر، 18 جولائی، 2016

اپنا گھر

آج چھٹی تھی مگر لہجوں میں کچھ تلخی بھی ۔۔۔۔۔
صبح سے موسم ٹھنڈا اورہوا خنک تھی۔ دھوپ تھی تو سہی مگر ایسے جیسے یرقان کی مریضہ ہو، گلی کے نکر پرنوجوان، دوکانوں کےتھڑوں پر  بڑے بوڑھے  اور گھروں کی چھتوں پر  اہل خانہ  دھوپ سینکنے کے لئے بےتاب تھے مگر جو دھوپ ان تک سسک سسک کر پہنچ رہی تھی اس میں حدت نہ ہونے کے برابر تھی  اور جو تھوڑی بہت گرمائش تھی وہ چلنے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے شر سے محفوظ نہ تھی۔
کمال اور فرزانہ  اتوار کو ذرا لیٹ ہی اٹھتے تھے کیونکہ ایک چھٹی والا دن ہوتا تھا جس میں ان کی روٹین تبدیل ہوتی تھی ورنہ انہیں روزانہ صبح  چھ بجے تیار ہو کر اپنے اپنے کام پر جانا ہوتا تھا ۔ ہر اتوار کی طرح آج کا اتوار بھی کچھ تلخی سے ہی شروع ہوا ۔۔۔۔ کیوں ؟
پچھلے پندرہ سال کی مسافت دونوں نے ساتھ کاٹی ۔۔۔۔ زندگی کے نشیب و فراز، دکھ سکھ اور اونچ نیچ  ایک ساتھ دیکھےان بیتے سالوں میں دونوں کی محبت ہی ایسی بائنڈنگ پاور تھی جس کے سہارے انہوں نے یہ وقت بیتایا ۔ آج جب وہ سوچتے  ہیں کہ ہماری رفاقت کو پندرہ سال بیت گئے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے پندرہ سال نہیں پندرہ منٹ کا قصہ ہو۔  آمدن کم تھی لیکن زندگی اچھی گزر رہی تھی ، ان کی کوئی لمبی چوڑی خواہشیں بھی نہ تھیں مگر  فرزانہ کو اپنے گھر کی شدید خواہش تھی۔۔۔  کبھی کبھی اللہ تعالیٰ سب کچھ دے کر ۔۔۔ کوئی ایسی کمی چھوڑ دیتا ہے جو اس کی یاد کا سبب بنی رہتی ہے۔
کمال اچھا تھا یا برا مگر اس کی بھی شدید خواہش تھی کہ جس شریک حیات نے اس کی زندگی میں اس کے آرام کا اورعزت  و آبرو کا  خیال رکھا ، جس نے ہر تلخ بات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا ، ہر مشکل وقت میں اپنی بساط سے بڑھ کر ساتھ دیا اور جس کے ساتھ بیتا ہوا ہر لمحہ ایک یادگار اور بے مثال لمحہ بن گیا۔ اس کی خواہشات کو پورا کرے،  اسے جس نے اپنی ہر خواہش، ہر سپنا  اسکی  ذات کے لئے تیاگ دیا وہ بھی اس کے لئے کچھ کر سکے مگر ۔۔۔۔۔
مگر ۔۔۔۔کمال ایک سرکاری دفتر میں ایک معمولی ملازم تھا اور کرائے کے گھر میں رہتا تھا ۔ اس کی آمدن اس کے خرچ سے کہیں کم تھی  اور رہی سہی کسر بجلی ، پانی اور گیس کے بل نکال دیتے تھے۔  کبھی کبھی وہ سوچتا کہ لوگوں کے پاس اتنا پیسہ کیسے آتا ہے۔۔۔۔۔
وہ اور فرزانہ  بازار جاتے تو بازار خریداروں سے بھرے ہوتے۔۔۔خواتین   دو دو، تین تین جوڑے کپڑے اور جوتے لے رہی ہوتیں ہر دوکان پر ایسے لگتا  جیسےسارا شہر انہی کا گاہک ہے ۔ ایسے موقعہ پر کمال فرزانہ سے آنکھیں نہ ملا سکتا ۔ روڈ پر جائیں تو تمام روڈ نئی گاڑیوں سے بھرے ہوئے ایسے محسوس ہوتا جیسے ہر شخص گاڑی کا مالک ہے بس ہم ہی اس سہولت سے محروم ہیں ۔۔۔۔
پبلک ٹرانسپورٹ سے جب تھک ہار کر انہیں کچھ فاصلہ بھی طے کرنا پڑتا تو فرزانہ نڈھال سی ہو جاتی اور ایک لمبا سانس لے کر کہتی کمال کبھی ہمارے پاس بھی گاڑی یا بائیک ہو گا ؟
وہ دونوں ہنس مکھ اور ملنے ملانے کے شوقین تھے مگر اب کسی بھی پارٹی میں جاتے ،  تو خواتین زرق برق جوڑوں میں سج سنور کے آتیں اور ساری گفتگو کا محور جوتے، کپڑے اور اپنی اپنی امارت ہی ہوتی جبکہ مرد اپنے شاہانہ طرز زندگی اور اپنی وقعت و سربلندی کے فرضی قصے سناتے۔۔۔ جس پر دونوں اور خاص طور پر فرزانہ کو اپنا آپ کمتر محسوس ہوتا ۔۔۔۔۔ پرانے وقتوں کے داناء کہتے تھے تمہارے پاس اگر اللہ کا دیا ہوا ہے بھی تو اس کی نمود و نمائش نہ کرو کہ تمہارے آس پاس رہنے والےاحساس کمتری کا شکار نہ ہوں مگر یہ پرانے وقتوں کی باتیں تھیں اب تو جب تک سب کو سارے ٹھاٹھ دیکھائے نہ جائیں اور ان  کے متعلق بتایا نہ جائے۔۔۔۔ چیز وں کو برتنے کا مزہ  ہی نہیں آتا۔
کمال نے بھی فرزانہ کی"اپنے  گھر"  کی خواہش پوری کرنے کے لئے اپنے دستیاب وسائل میں پوری کوشش کی مگر جب دونوں کو محسوس ہوا یہ ممکن نہیں ہے تو فرزانہ نے ایک دن کمال سے کہا میں پڑھی لکھی ہوں آپ آفس میں ہوتے ہیں میں گھر میں بیٹھے بیٹھے پریشان ہوتی رہتی ہوں ، سوچتی ہوں سکول میں پڑھانا شروع کر دوں ۔ کمال نے بھی وقت اور حالات کے مطابق اس کو جاب کی اجازت دے دی ۔ مگر حالات جوں کہ توں رہے۔  پندرہ سالوں کی محنت، اپنی ہر چھوٹی بڑی خواہش کا گلا گھونٹنے کے باوجود  اورتمام تر کوششوں کے بعد وہ صرف اپنا پلاٹ خرید سکے اس میں بھی آدھی سے زیادہ رقم  قرض کی شامل تھی۔۔۔
 جس کی وجہ سے ان کے رویوں میں چڑچڑا پن پیدا ہو گیا ۔ اب بات بات پر تلخی پیدا ہو جاتی ہے اور خاص طور پر اس وقت جب انہیں کسی شادی پر، کسی فنگشن پر، کسی پارٹی پر جانا ہو تو۔۔۔۔۔ آج بھی ان کو ایک رشتہ دار کے ہاں جانا تھا گو کہ وہاں فوتگی پر فاتحہ کہنے جانا تھا مگر آجکل فاتحہ کہنے کے لئے بھی خواتین شادی/بیاہ  کی طرح تیار ہو کر جاتی ہیں اور مرد تھری پیس سوٹ میں ۔۔۔ ورنہ چہ مگوئیاں شروع۔۔۔۔ فرزانہ کے پاس نہ ڈھنگ کے کپڑے تھے اور نہ جوتے جس کی وجہ سے وہ کمال کو باتیں سنا رہی تھی اور کمال کے پاس سننے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
چار و ناچار تیار ہو کر وہ فوتگی والے گھر گئے ۔ وہاں جو بابا جی فوت ہوئے انکا بیٹا موجود نہیں تھا بہو تھیں ۔ اس بیٹے کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔  ماشاءاللہ سب اپنے اپنے ذاتی گھروں میں رہتے تھے اور خوشحال تھے۔  یہ بڑے بیٹے کا گھر تھا۔
کمال :    السلام و علیکم
بہو:     وعلیکم السلام ، آئیں بیٹھیں آپ دونوں تو اب مرن جین سے بھی گئے ، کم از کم فوتگی پر تو آ جایا کرو
فرزانہ:  بس جمیلہ خالہ،  بابا جی تو پورے علاقے میں نامی گرامی آدمی تھے ان کا منہ نہ دیکھنا ہماری بدنصیبی ہے مگر کمال کو آفس کے کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا پڑ گیا جس کی وجہ سے ہم حاضر نہیں ہو سکے
جمیلہ:    یہ تو آپ نے بلکل ٹھیک کہا بابا جی نے اپنی زندگی بہت اچھی گزاری ہے ، خوب کمایا اور دوسروں کی بھی جتنی ہو سکی مدد امداد کی۔  اپنے تمام بچوں کے لئے پلاٹ اور بیٹیوں کو گھر بنا کر دیئے۔
کمال:    بس جی خوش قسمت ہیں آپ لوگ کہ باباجی جیسے شفیق اور محبت کرنے والے بزرگ ملے۔ جمیلہ خالہ کیا وہ آپ کے ساتھ رہتے تھے۔؟
جمیلہ:    نہیں کمال وہ تو گاؤں میں چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہتے تھے، شہر  میں رہنا ان کو پسند نہیں تھا  پھر بےبے جی کی قبر بھی ادھر ہی ہے اس لیے ان کا جی یہاں نہیں لگتا تھا۔
فرزانہ:  تو کیا  بابا جی  بیمار تھے؟
جمیلہ:    فرزانہ  اللہ کا بہت کرم تھا  باباجی کی عمر ایک سو دس سال ہونے کے باوجود وہ ابھی تک بلکل ٹھیک اور صحت مند تھے ابھی بارہ  دن پہلے اپنی پنشن بنک سے خود لے کر آئے اور انتقال سے تین دن پہلے ان پر فالج کا اٹیک ہوا چھوٹا بیٹا ہسپتال لے کر آیا،  میرے میاں چونکہ سرکاری ملازم ہیں اس لئے علاج سرکاری طور پر ہوا تمام ٹیسٹ وہیں پر ہوئے۔ پر رب کی جو مرضی!
کمال:    تو کیا ہسپتال میں ہی فوت ہوئے ؟
 جمیلہ:   نہیں بیٹا دوسرے ہی دن ہسپتال سے ڈسچارج ہو گئے تھے۔ بیٹوں نے پوچھا کہ کدھر جا نا ہے ابا جی کہنے لگے کہ میں اسلم (بڑے بیٹے) کے گھر جاؤں گا ، میں نے کہا ابا جی آپ کو تو پتہ ہے ہم بھی آپ کو اپنے گھر لے جانے کے شدید خواہشمند ہیں مگر ہمارے ہاں گیس نہیں اور سردیوں میں بغیر گیس کے آپ کا رہنا ممکن نہیں ۔۔۔ اب آپ کیا کہتے ہیں ؟
 ابا جی نے کہا کہ  چلو پھر امین کے گھر لے چلو اس کے بچوں سے بھی مل لیں گے ۔۔۔۔۔۔ امین بھائی ۔۔۔ نے کہا ابا جی میرے بچے بھی آپ سے ملنے کے لئے بے تاب ہیں مگر ہم دوسرے فلور پر رہتے ہیں آپ کو سیڑھیاں اترنے چڑنے میں مشکل ہو گی ۔۔۔ جیسے آپ کہتے ہیں ویسے ہی کر لیتے ہیں ۔۔۔۔
ابھی متین نے کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ ابا جی نے ایک گہرا  سانس لیا اور کہا  تو پھر چلو اپنے گھر ہی چلتے ہیں ۔۔۔۔۔
اور ایک لمبی ہچکی کے ساتھ ان کا دم خرچ ہو گیا۔
 پر بیٹی فرزانہ ہمیں کوئی افسوس نہیں ہم بہوؤں،  تینوں بیٹوں اور بیٹیوں نے  خوب خدمت کی اپنے والد کی۔۔۔۔
اب جو رب کی مرضی ۔۔۔۔
کمال اور فرزانہ گم سم بیٹھے تھے ۔۔۔ان کے ذہن میں اپنے گھر کے الفاظ ایک گونج کی طرح ٹکرا  رہے تھے

اپنا گھر۔۔۔ اپنا گھر ۔۔۔اپنا گھر

ابرار حسین گوجر 

کوئی تبصرے نہیں: