پیر، 18 جولائی، 2016

چوہدری رحمت علیؒ اور ہماری اجتماعی بے حسی


زندہ قومیں اپنے ہیروز اور اساطیر کو کبھی فراموش نہیں کرتیں مگر تاریخ کا ایک ادنیٰ سا قاری ہونے کے ناطے مجھے محسوس ہو ا کہ کوئی شخصیت عوام میں چاہے کتنی ہی مقبول کیوں نہ ہو اور اس نے پاکستان کے لئے کتنا کام اور قربانیاں کیوں نہ دی ہوں بحثیت قوم ہم نے حکومتی سطح پرکبھی بھی کسی حقیقی قومی اور عوامی ہیرو کوتسلیم نہیں کیا ۔ ایک وجہ جو ذہن میں آتی ہے یہ ہے کہ شروع دن سے ہماری حکومتوں میں موجود اشرفیہ ایسے لوگوں سے جو عوام کے دلوں میں بسے ہوئے تھے خائف رہی ہے اور یہ سلسلہ وطن عزیز میں اڑسٹھ سال سے جاری و ساری ہے۔ 

اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو چوہدری رحمت علی ؒ تحریک پاکستان کے مظلوم ترین راہنما نظر آتے ہیں ۔ آپ کو نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ آپ نے جو جدوجہد کی ، تاریخی کام کیا اس کا کریڈٹ بھی آپ کو نہیں دیا گیا، تصور پاکستان جو چوہدری رحمت علیؒ نے دیا اس کو ملکی تعلیمی نصاب میں تاریخی حقائق سے نظریں چرا کر پیش کیا گیا لیکن حقائق کب تک چھپ سکتے ہیں یا چھپائے جا سکتے ہیں۔ مستقبل کا محقق و مورخ جب تحریک پاکستان کے کرداروں کو پرکھے گا تو وہ چوہدری رحمت علیؒ کو نظر اندازنہیں کر سکے گا اس کے ذہن میں جنم لینے والے سوالوں کا جواب نہ ہماری اشرفیہ اور نہ سرکاری دانشوروں کے پاس تھا اور نہ ہو گا۔۔۔۔ 
جواب میں مکمل خاموشی و سکوت 
بے حسی اور احسان فراموشی کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔
چوہدری رحمت علیؒ 16 نومبر 1897 کو ضلع ہوشیار پور (مشرقی پنجاب) کی تحصیل شکرگڑھ کے گا
ں موہراں میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام حاجی شاہ محمد تھا آپ نے 1913 میں میٹرک، 1915 میں ایف اے اور 1918میں بی اے اسلامیہ کالج سے پاس کیا،آپ 1925 تک لا ءکالج لاہور میں زیر تعلیم رہے جبکہ 1931 میں کیمبرج لاءکالج ایمنویل میں شعبہ قانون میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ لیا۔
 
چوہدری رحمت علیؒ کی جدو جہد کے حوالے سے بات کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ پاکستان اور مسلمانان ہند( جسے وہ براعظم دینیہ کہتے تھے)کے لئے کتنا جامع اور واضع منصوبہ رکھتے تھے ۔ 1915 میں( جب آپ صرف 18 سال کے تھے) بزم شبلی کے پلیٹ فارم سے یہ پیغام دیا؛
” ہندوستان کا شمالی منطقہ اسلامی علاقہ ہے ۔ ہم اسے اسلامی ریاست میں تبدیل کریں گے، لیکن یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب اس علاقے کے باشندے خود کو باقی ہندوستان سے منقطع کر لیں اسلام اور خود ہمارے لیے بہتری اسی میں ہے کہ ہم ہندوستانیت سے جلد از جلد جان چھڑا لیں“ 
1933 میں پاکستان نیشنل مومنٹ کی بنیاد رکھی ، یہی وہ سال تھا جب 28 جنوری کو آپ نے
Now or Never کا شہرہ آفاق کتابچہ لکھا۔اس میں آپ نے لفظ پاکستان کی تشریح ایسے بیان کی۔۔۔۔
پ........ پنجاب
ا......... افغانیہ
ک....... کشمیر
س....... سندھ اور 
تان.......بلوچستان
یہ چار صفحات پر مشتمل کتابچہ اتنا مدلل اور جامع تھا کہ ےکم اگست ، 1933 کو برطانیہ کی پارلیمانی کمیٹی، ”جوائنٹ پارلیمنٹری سلیکٹ کمیٹی “نے چوہدری رحمت علیؒ کے مطالبہ پاکستان کا نوٹس لیتے ہوئے ہندوستانی وفد کے مسلم اراکین سے سوالات کئے، جن کے جواب میں وفد کے اراکین جناب سر ظفراللہ خان، عبدللہ یوسف علی اورخلیفہ شجاع الدین صاحب نے کہا کہ یہ صرف چند طلبا ءکی سرگرمیاں ہیں کسی سنجیدہ شخص کامطالبہ نہیں ہے۔ 1935 میں آپ نے کیمبرج سے ہفت روزہ اخبار ’ ’پاکستان“ جاری کیا اسی اثناٰ میں جرمنی اور فرانس کا دورے کیے تاکہ مطالبہ پاکستان کو اجاگر کیا جا سکے۔1938 میں آپ نے براعظم دینیہ کا تصور پیش کیا جس میں دس مسلم اور دس غیر مسلم ریاستوں کی تجویز دی۔ مارچ 1940 میں حیدرآباد دکن کے لئے آزادی کا خاکہ پیش کیا اور عثمانستان کا نام تجویز کیا۔ 23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں آپ شرکت کرنا چاہتے تھے مگر چند روز قبل خاکساروں کی فائرنگ کو بہانہ بنا کر اس حکومت وقت نے آپ کو جلسے میں شرکت سے روک دیا گیا۔ 23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میںاگرچہ لفظ پاکستان شامل نہیں تھا مگر اس میں پاس ہونے والی قرار داد پر طنز کرتے ہوئے ہندو پریس نے قرار داد پاکستان کے نام سے شہ سرخیاں لگائیں جس کے بعد یہ لفظ اتنا زبان زد عام ہوا کہ الگ وطن کا نام پاکستان ہر شخص کی زبان و دل پر تھا اور ایک طالب علم کی سرگرمیاں رنگ لے آئیں۔ 

میرے خیال سے چوہدری رحمت علیؒ وہ واحد لیڈر ہیں جنھوں نے تقسیم ہند اور پاکستان کا واضح فارمولا دیا اور عملی  کی ، آپ کا مطالبہ پاکستان اس وقت منظر عام پر آیا جب دوسرے مسلم سرکردہ لیڈر برطانوی فیڈریشن میں زیادہ سے زیادہ اختیارات والی ریاستوں کے قیام کے بارے میں غور و غوض کر رہے تھے۔ چوہدری رحمت علیؒ کے پلان کے مطابق اگر برصغیر کی تقسیم ہوتی تو آج جتنی علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں ان کی قطعاََ ضرورت نہ رہتی ، نہ پاکستان کو اپنابازو الگ ہونے کی خفت اٹھانی پڑتی ، نہ اندرا گاندھی دو قومی نظریے کے حوالے سے کوئی زہر افشانی کر سکتی۔ بہر حال یہ ماننا پڑے گا چوہدری رحمت علیؒ ایک لازوال داستان کا نام ہے، آج جب ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ لفظ پاکستان کے خالق ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ اس لفظ کے ہر ہر حرف پر آپ کی برسوں کی محنت شامل ہے۔یہ کام معمولی نہیں اور نہ معمولی آدمی کا ہے یہ وہی کر سکتا ہے جس پر اپنے رب کی خاص عنایت ہو۔ آپ 1948 میں پاکستان آئے ، اپنے خوابوں کے ملک مگر اندرونی مخالفت اور غلام گردش سازشوں سے بہت مایوس ہوئے اور واپس کیمبرج چلے گئے۔ چوہدری رحمت علیؒ کی تحریریں عوام میں بہت مقبول تھیں آپ نے
Now or Never کے علاوہ ، مسلم ازم، انڈس ازم اور ” پاکستان دی فادر آف پاک نیشن“ جیسے پمفلٹ تحریر کئے۔

3 فروری 1951 بروز ہفتہ بیماری و کسمپرسی کی حالت میں اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے، آپ کے جنازے کو تقریباََ 17 دن تک اس آس پر کولڈ سٹوریج میں رکھا گیا کہ شائد کوئی پاکستانی اس پہلے پاکستانی کو پاکستان میں دفنانے کے لئے آئے، کوئی یہ کہے ہاں چوہدری رحمت علیؒ اور پاکستان ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں مگر ہم اس وقت بھی مصروف تھے، سازشی تھیوریاں بنانے میں، پرمٹ تقسیم کرنے میں اور سیاست کر رہے تھے قوم و ملک کے وسیع تر مفاد میں اور آج بھی اڑسٹھ سال بعد بھی ۔۔۔ ہمیں نہ تو چوہدری رحمت علیؒ کی فکر ہے اور نہ پاکستان کی، ہم تو ان کے جسدخاکی کو پاکستان لانے کے سلسلے میں بھی سیاست، خود غرضی اور مفاد پرستی سے باز نہیں آتے۔آج بھی کیمبرج کے قبرستان کی قبر نمبر
B-8330 کا مکین اس انتظار میں ہے کہ جس وطن کے لئے اس نے ساری زندگی وقف کر دی ، جس کے کروڑوں لوگوں کو اس نے نام دیا ، پہچان دی اور جو فخر سے یہ کہتے ہیں ہاں ہم پاکستانی ہیں۔۔۔۔ مگراس عظیم لیڈر جس نے یہ سوچ دی کہ مسلمانان ہند کے لیے علیحدہ وطن ہونا چاہئے کے سلسلے میں بحثیت قوم مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں ، گہری خاموشی اور نہ ختم ہونے والی غنودگی طاری ہے ۔ اے ابد کے مکیں ان میں کوئی نہیں جو یہ کہے ہاں چوہدری رحمت علیؒ ہمارا ہے اس کو اس کا مقام دو،جو یہ تسلیم کرے کہ ہاں اس پاک وطن کے ہر گوشے پر چوہدری رحمت علی ؒ کا ہم سے کہیں زیادہ حق ہے۔ 

دوستو!!!
ایک تاریخ لکھوائی جاتی ہے اور ایک تاریخ ہوتی ہے اور جو تاریخ ہوتی ہے وہ چاہے جتنی بھی دھندلا جائے وقت اور حالات کی گرد کی کتنی ہی دبیز تہیں اس پرقبضہ جما لیں کبھی نہ کبھی لوگوں کی نظروں سے وہ دھندلاہٹ اور گرد ہٹتی ضرور ہے اور مجھے لگتا ہے کہ وہ وقت آن پہنچا ہے جب ہمیں چوہدری رحمت علیؒ کے کام کا اعتراف کرنا ہو گااور قومی سطح پر ان کا جو مقام ہے اسے تسلیم کرنا پڑے گا اور ان کا جسد خاکی پورے قومی اعزاز کے ساتھ ، باوقار قوموں کی طرح پاکستان لایا جائے جیسا کہ اس سلسلے میں موجودہ حکومت کام کر رہی ہے شکر پڑیاں، اسلام آباد میں آپ کی یادگار بنائی جائے تاکہ ہم آنے والی نسلوں کے سامنے سرخرو ہو سکیں آہیں اس اجتماہی بے حسی کو خیر باد کہہ کر اپنے عظیم راہنما چوہدری رحمت علیؒ کو خیراج تحسین پیش کریں.

ابرار حسین گوجر

کوئی تبصرے نہیں: