اتوار، 31 جولائی، 2016

آرٹسٹ


تم کرتی ہی کیا ہو؟
یہ جو کچھ بھی ہے میری وجہ سے ہے، میں نے دن رات تمہارے اور بچوں کے لئے ایک کیا ۔ محنت کی مشقت کی لوگوں کی باتیں سنیں، صبح منہ اندھیرے گھر سے نکلا تو رات کو منہ اندھیرے گھر پہنچا  ۔ نہ دن دیکھا نہ رات اس گھر کے لئے تمہارے لئے اور بچوں کے لئے اپنی زندگی کے بہترین دن وقف کر دئیے تمہیں ہر ہرآسائش دی، اچھے سے اچھا کھانا اچھے سے اچھا پہننا، آج تم لوگ جو اتراتے ہو "خواجہ اینڈ سنز گروپ آف کمپنیز"پر یہ ایسے ہی دنوں میں نہیں ہو گیا اس میں میری ایک ایک لمحے کی فکر ، سوچ اور کوشش شامل ہے۔  میری دور اندیشی اور وژن شامل ہے۔ پر تمہیں کیا معلوم پیسہ کمانا آسان نہیں ہے۔
اور تم ۔۔۔
تم آج کہہ رہی ہو کہ "خواجہ صاحب ! آج آپ کا یہ جو مقام و مرتبہ ہے میری وجہ سے ہے"
تمہارا کردار ہی کیا ہے؟ جھاڑو پونجھا لگانا کونسا مشکل کام ہے ؟ 
ویسے بھی گھر کی صفائی، کپڑے دھونا، استری کرنا، صبح کا ناشتہ بنانا  یہ سب کام تو "فضلاں" کرتی ہے
ڈھنگ کے کپڑے تک تم لے نہیں سکتیں اپنے لئے اور کہتی پھرتی ہے ۔۔۔۔۔
خواجہ رفیق الزماں نے ناشتہ ٹیبل پر ہی چھوڑا، ہینڈ بیگ لیا اور دروازہ زور سے پٹخ کر آفس   چل دئیے۔
خواجہ رفیق الزماں میرے والد،  ایک کامیاب بزنس مین، کاروباری حلقوں میں جن کا   طوطی بولتا ہے۔ شائستگی، کلام کی عمدگی  اور معاملہ فہمی جن پر بس ہے۔ نوجوان جن سے متاثر ہو کر کاروباری گر سیکھنے آتے ہیں۔ "خواجہ اینڈ سنز گروپ آف کمپنیز" کے مالک ، ان کی  کمپنیز کا ملک بھر میں جال بچھا ہوا ہے۔
انہیں ہم نے کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا لیکن آج میری والدہ مہرالنساء  نے ناشتہ کی میزپر مذاق میں یہ کہہ دیا کہ "خواجہ صاحب ! آج آپ کا یہ جو مقام و مرتبہ ہے میری وجہ سے ہے" تو ان کا رد عمل ہم سب کے لئے حیرت انگیز تھا ، میری والدہ مہرالنساء  نے یہ الفاظ خوش مذاجی میں کہے مگر ابو پر جیسے قیامت بن کر گرے، پھر جو کچھ انہوں نے کہا وہ سب امی نے خاموشی سے  سنا ، وہ چپ رہیں آگے سے ایک لفظ تک نہیں کہا ۔ بس دو آنسوں کے قطرے ان کی آنکھوں سے نکلے اور لڑکھڑاتے  لڑکھڑاتے ان کے دوپٹے میں جذب ہو گئے۔
ابو آفس جا چکےتھے بھائی کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر گیا ہوا تھا ۔ امی نے ناشتے کی میز سے برتن سمیٹے کچن میں رکھے اور اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ میں ان کی حالت کو سمجھ سکتی تھی کہ ان پر یہ الفاظ " تم کرتی ہی کیا ہو؟ " قیامت بن کہ ٹوٹے ہوں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج جو شان شوکت تھی وہ ابو کی محنت، ذہانت اور کاروباری سمجھ بوجھ کی وجہ سےتھی مگر یہ بھی سچ تھا کہ ابو کی کامیابی کے پیچھے امی کی  کوششوں کو دخل تھا آج وہ کامیاب بزنس مین تھے، ان کا بیٹا لمز سے ایم بی اے میں گولڈ میڈل  تھا، ان کی بیٹی کی گھر داری اور تربیت کا ذکر زبان زد عام تھا اور ان کے گھر کی سجاوٹ و صفائی ستھرائی کی اگر سب تعریف کرتے تھے تو یہ سب  آنٹی "فضلاں" کے سگھڑپن اور سمجھداری کی وجہ سے نہیں بلکہ مہرالنساء کی محنتوں اور سلیقہ شعاری  کا نتیجہ تھا۔  مگر جب عمر بھر کی ریاضت کو کوئی ایک لمحے میں رد کر دے تو انسان اندر سے ٹوٹ جاتا ہے، اسے اپنی بے وقعتی کا بے پناہ احساس ہوتا ہے۔ اسے اپنے گزرے ماہ و سال رائیگاں لگتے ہیں۔ اسے اپنی زندگی ایک بوجھ محسوس ہوتی ہے۔
میں چپکے چپکے دبے قدموں امی کے کمرے میں گئی تو امی بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے آنکھیں بند کیئے بیٹھی ہوئی تھیں۔ میری آہٹ محسوس کر کے انہوں نے آنکھیں کھولیں اور آہستہ سے بولیں آؤ عینی بیٹا بیٹھو ، میں ان کے ساتھ لپٹ گئی میری آنکھوں سے آنسوں کی لڑیاں خود بخود جاری ہو گئی، بولیں بیٹا کیوں روتی ہو ۔۔۔
بیٹا مردوں کو غصہ آتا رہتا ہے مگر ہمیں ہی برداشت کرنا پڑتا ہے تبہی تو گھر بنتے ہیں۔ وہ گھر سے باہر دھوپ / گرمی میں مارے مارے پھرتے ہیں، اچھے برے ہر طرح کے لوگوں سے ان کا واسطہ  پڑتا ہے، پیسہ کمانے کے لئے ٹکے ٹکے کے لوگوں کی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ دن رات ایک کرنا  پڑتا ہے پھر بھی وہ اپنے محنت سے کمائے ہوئے کو ہم  پر خوش دلی سے خرچ کرتے ہیں ہماری ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں، ہمیں احساس تحفظ دیتے  ہیں ، ہمیں تو بس ان کے پیسے کو طریقے سے خرچ کرنا ہوتا ہے، ان کی نسلوں کی تربیت کرنی ہوتی ہے۔  میاں بیوی مل کر ہی گھر بناتے ہیں معاشرہ سنوارتے ہیں بیٹا یہ کسی بھی معاشرے ، خاندان کی بنیاد ہوتے ہیں ان میں سے کسی ایک کو بردباری اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے  اگر نہیں کریں گے تو یہ اکائی ریزہ ریزہ ہو جائے گی۔ سب کچھ بکھر جائے گا سوائے زندگی بھر کی "آہوں کےاور کاش کے"اور کچھ نہیں بچتا۔
مگر امی  ہمیں ہی کیوں ۔۔۔ 
ہمیں ہی کیوں برداشت کرنا پڑتا ہے ہر بار عورت ہی کیوں قربانی دے؟
مرد کیوں گھر کے لئے قربانی نہیں دیتا ؟
دیکھ بیٹا ماں تیری پڑھی لکھی نہیں ہے، بس ابا جی نے نماز کے سبق اور قرآن پاک کی تعلیم گھر پر دی تھی مگر تمہاری نانی نے میری تربیت بہت اچھی کی وہ کہتی ہوتی تھیں مہرالنساء دیکھ مرد کو اللہ تعالیٰ نے کمانے کی ذمہ داری دی ہے وہ تمہارے کھانے پینے، کپڑے لتے، تمہاری چھت کا ذمہ دار  ہے اور ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے ہر طرح کی قربانی دیتا ہے مگر اپنے بیوی بچوں کو گرم ہوا نہیں لگنے دیتا  کسی کو آنکھ اٹھا کر اپنے گھر والوں کی طرف نہیں دیکھنے دیتا۔۔۔ 
جبکہ عورت کو اللہ تعالیٰ  نے گھر کی ذمہ داری دی ہے اسے اپنے میاں کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا ہے، اسے اس کی دلجوہی کرنی ہے وہ پریشان ہو تو اس کی ہمت بندھانی ہے، اسے دنیا والوں سے مقابلہ کرنے کے لئے دوبارہ کھڑا کرنا ہے، اس کی عزت کی حفاظت کرنی ہے، اس کی اولاد کی بہتر پرورش کرنی ہے  اور مہرالنساء  یہ سارے کام آسان نہیں ہیں۔ خدا تخلیق کار ہے تو ماں میں بھی اس نے ایک تخلیق کار کی صفات رکھی ہیں ، وہ نو ماہ تک بچے کو اپنے پیٹ میں اٹھائے پھرتی ہے، اس کے جنم پر درد زہ سہتی ہے، اس کی اس کی ایک ایک قلقاری اور ایک ایک چیخ پر لوٹ پوٹ ہوتی ہے، وہ اس کے بات کرنے تک ڈھیروں باتیں  کرتی ہے، بچہ چلنے تک ہزاروں بار لڑکھڑاتا ہے تو وہ ماں ہی ہوتی ہے جو اسے چلنے کے قابل بناتی ہے۔ تو مہرالنساء   تو کیا سمجھتی ہے ایک ایسا شخص جس میں برداشت نہ ہو۔۔۔ وہ یہ سب کچھ کر سکتا ہے؟ نہیں۔۔۔  اس لئے مہرالنساء  زندگی میں اپنے شوہر کی ہر بات کو مجازی خدا کا حکم سمجھ کر قبول کرنا۔۔۔ وہ بھی تمہیں ہمیشہ عزت دے گا۔
عینی میں تو ایک بات ہی کہوں گی کہ  عورت گھر کے لئے قربانی اس لئے دیتی ہے کہ یہ اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیت کی  ہوئی ذمہ داری ہے۔ تو جو مالک ہوتا ہے جو ذمہ دار ہوتا ہے وہی قربانی دیتا ہے۔ رب العزت  نے ہمیں یہ ہمت دی ہے، برداشت کی طاقت دی ہے، تو یہ اس کا کرم ہے ۔ جو خواتین گھر کے معاملے میں قربانی نہیں دیتیں وہ نہ صرف اپنے زندگی تباہ کر دیتی ہیں بلکہ اپنی نسلوں کو بھی برباد کر دیتی ہیں۔

میں نے خواجہ صاحب کو صبح جو کہا وہ غلط نہیں تھا، انہیں اس بات کا احساس ہو گا  جلد یا بدیر لیکن ہو گا ضرور۔۔۔ 
عینی نے سوچا واقع ہی  عورت ایک آرٹسٹ ہوتی ہےوہ بڑے سلیقے سے ساری کڑیاں جوڑتی ہے، سارے رنگوں کو کینوس پر ایسے پھیلاتی ہے کے گھر جیساگلشن بن جاتا ہے، وہ ایک تخلیق کار ہوتی ہےاور تخلیق کار اپنی تخلیق کی گئی جنت کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہوتا ہے۔ اسے آج جواب مل گیا تھا کہ گھر کے لئے ہمیشہ عورت ہی کیوں قربانی دیتی رہی ہے اور دے رہی ہے۔
خواجہ رفیق الزماں ناشتہ کی ٹیبل سے غصہ میں جب گاڑی کی طرف بڑھے  تو بوڑھا فضل حسین بھانپ گیا صاحب کے تیور کچھ ٹھیک نہیں، اس نے جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولا ، صاحب بیٹھ گئے تو اپنی سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔ فضل حسین اس وقت سے خواجہ رفیق الزماں کے خاندان کے ساتھ وابستہ  تھا جب وہ آٹھویں جماعت میں تھے،  خواجہ صاحب اس کا بے حد احترام کرتے تھے۔ خواجہ رفیق الزماں اس کے ہاتھوں میں پلے بڑھے تھے ۔
بوڑھے ملازم نے پوچھا صاحب طبیعت ٹھیک ہے تو خواجہ رفیق الزماں جیسے پھٹ پڑے۔۔۔ 
فضل حسین اپنے گھر کے لئے سب کچھ کرو مگر کسی کو احساس ہی نہیں ہوتا۔ آج "خواجہ اینڈ سنز گروپ آف کمپنیز" کا اگر نام و مقام ہے تو وہ میرے دم خم سے ہے ، مگر مہر النساء صاحبہ جنہوں نے کبھی گھر سے باہر قدم نہیں رکھا اور جنہیں یہ تک معلوم نہیں کہ "خواجہ اینڈ سنز گروپ آف کمپنیز" میں کتنی کمپنیاں اس وقت کام کر رہی ہیں۔ وہ  بھی کہہ رہی ہیں کہ  "خواجہ صاحب ! آج آپ کا یہ جو مقام و مرتبہ ہے میری وجہ سے ہے"۔ ہوں
فضل حسین مسکرایا اور معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا،وہ  گویا ہوا صاحب جی بات سیدھی سی ہے ان ساری کامیابیوں کے پیچھے آپ کی محنت، دیانت اور ذہانت ضرور شامل ہے مگر آپ کو کامیاب بنانے کے پیچھے بیٹی مہرالنساء ہی ہیں۔ جب آپ کو گھر سے بھائیوں نے نکال دیا اور والدین کے ترکے میں سے آپکو کچھ بھی نہ ملا تو وہ بی بی صاحبہ ہی تھیں جنہوں نے آپ کو کپڑے کا کاروبار کرنے کا کہاتھا، پھر اپنا زیور بیچ کر آپ کو چھوٹی سی دوکان بنانے میں مدد کی اور ہر مشکل گھڑی آپ کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں، آپ کے پاس وقت نہیں تھا مگر انہوں نے بچوں کی بہترین تربیت کی، رشتہ دار جو آپ سے ویر کھاتے تھے ان کے ساتھ تعلقات بنائے آپ کو خاندان میں دوبارہ ایک عزت ایک مقام دلوایا۔ یہ باتیں مجھے نہیں کرنی چاہیں مگر آپ کو میں نے اپنے ہاتھوں پالا پوسا ہے اس لئے یہ ضرور کہوں گایہ مسلئہ آپ کا اور بی بی صاحبہ کا نہیں بلکہ ایک "کمانے والے" اور ایک" گھر چلانے والے" کا ہے۔

صاحب جی لوگوں کی نظروں میں کمانے والا ہوتا ہے اسی کی کوششیں ہوتی ہیں اسی کی قربانیاں ہوتی ہیں مگر گھر چلانے والے کی قربانیاں صرف کمانے والے کو معلوم ہوتی ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ کمانے والا تعریف و توصیف کے اس درجہ پہنچ  جاتا ہے کہ اس کی نظر میں گھر چلانے والی ہستی  کی اہمیت کم  ہونا شروع ہو جاتی ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ اس کی ساری عمر کی ریاضت کو ٹھکرا دیتا ہے جبکہ اسے دنیا کی نہیں صرف اسی کمانے والے کی ستائش کی  ضرورت ہوتی ہے۔
خواجہ رفیق الزماں نے جب فضل حسین کی باتیں سنیں تو دل ہی دل میں شرمندہ ہوئے ۔۔۔انہیں مہرالنساء کی وہ تمام قربانیاں ، وہ گھر کے لئے کی گئی محنت سب ان کی نظروں کے سامنے گھومنے لگا، انہی خیالوں میں وہ آفس پہنچے تو اس وقت تک اپنی ساری زندگی اور اس میں  مہرالنساءکے کردار کا احاطہ کر چکے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں ان کا بیٹا خواجہ وحیدالزماں بھی آ گیا، ا سکے اٹھنے بیٹھنے اور بات کرنے کے ہر انداز میں اس کی ماں کی جھلک تھی۔ اس نے بتایا کہ اس کا وزٹ بہت کامیاب رہا اور ماشاء اللہ امی کی دعاؤں سے ساری ڈیل فائنل ہو گئی ہیں۔۔۔

خواجہ صاحب جو آفس آتے ہی کام میں لگ جاتے تھے آج گم سم بیٹھے تھے دن گیارہ بجے خواجہ وحیدالزماں کو ساتھ لیا مہرالنساء کے لئے شاپنگ کی اور سیدھے گھر پہنچ گئے عینی بھائی اور ابو کو آج اتنا جلدی  گھر پر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ خواجہ صاحب اپنے کمرے میں گئے مہرالنساء سے نظروں ہی نظروں میںمعافی  مانگی اور ساڑھی ان کے سامنے رکھ دی ۔ مہر النساء کا چہرہ ایسے کھل اٹھا جیسے کسی نے ٹین ایج میں اظہار محبت کیا ہو۔ جب دونوں باہر آئے تو باغ وبہار ہو رہے تھے  خواجہ وحیدالزماں والدہ سے لپٹ گئے اور عینی دھیرے سے مسکرا دی۔۔۔
شام کے وقت پاکستان مونومنٹ سے پورا اسلام آباد ساون کی برکھا رت میں اجھلا اجھلا لگ رہا تھا ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی اور جواد عینی سے پوچھ رہا تھا اب ایم بی اے کے بعد تمہارا کیا کرنے کا ارادہ ہے؟
عینی نے دور وسعتوں میں کھوئےہوئے جواب دیا "آرٹسٹ" بننے کا اور جواد ہونقوں کی طرح اس کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔

تحریر:   ابرار حسین گوجر 
 

کوئی تبصرے نہیں: