منگل، 19 فروری، 2019

مادری زبانوں کا عالمی دن اور گوجری زبان


مادری زبانوں کا عالمی دن اور گوجری زبان

مادری زبان کسی بھی شخص کی وہ زبان ہوتی ہے جو اسے والدین سے ورثے میں ملتی ہے یعنی جس گھرانے اور خاندان میں وہ پیدا ہوتا ہے اس گھرانے کی زبان بچے کی مادری زبان کہلاتی ہے۔ دنیا بھر میں 21 فروری، 2000ء سے ہر سال مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد مادری زبان اور اس سے وابستہ تہذیبی و ثقافتی  پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔ پاکستانی ماہرین لسانیات کے مطابق ملک میں مختلف لہجوں کے فرق سے تقریبا 74  زبانیں بولی جاتی ہیں۔ گوجری زبان ان 74 زبانوں میں سے ایک ہے جو پاکستان کے بیشتر علاقوں میں سمجھی اور بولی جا تی ہے بلکہ پاکستان کے علاوہ بھارت، جموں و کشمیر اور افغانستان کے کچھ علاقوں میں بھی گوجری بولی جاتی ہے۔ گوجری زبان  کا  نثری و شعری ادب موجود ہے ۔ اس سے پہلے کہ ہم گوجری زبان کی بات کریں ہمیں مادری زبان کی اہمیت و افادیت کو سمجھنا ہو گا۔

مادری زبان کی اہمیت و افادیت:
صرف دو زبانیں ایسی ہیں جنہیں بغیر کسی علم کے انسان سیکھتا اور سمجھتا ہے ،ان میں ایک مادری زبان اور دوسری اشاروں کنہایوں  کی زبان ہے،  جسے بین الاقوامی زبان یا یونیورسل لینگویج بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قدرت کا انعام ہے کہ شکم مادر میں ہی انسان کو آوازوں کی پہچان ، الفاظ و جملوں کی ترتیب کا شعور حاصل ہو تا ہےاور گرد و پیش میں بولی جانے والی زبان سے بچے  میں فہم و ادراک کی  صلاحیت پیدا ہونے لگتی ہے۔  مادری زبان کسی قوم کی تہذیب وثقافت اورجذبات و احساسات کی ترجمان ہوتی ہے۔خیالات وافکار،  معلومات کے اظہار وترسیل ا ورابلاغ میں مادری زبان ایک فطری اور آسان  وسیلہ ہے۔سوچنے ،سمجھنے کا عمل لاشعوری طور پر مادری زبان میں ہی انجام پاتا ہے۔حتیٰ کہ انسان خواب تک مادری زبان میں دیکھتا اور حساب کتاب کے لئے مادری زبان میں سوچتا ہے۔ دکھ سکھ ،خوشی اور غم کے اظہارمیں مادری زبان کااستعمال ہوتاہے۔کسی بچے کی  تخلیقی صلاحیتیں اس وقت تک ابھر کر سامنے نہیں آ سکتیں جب تک ان کا اظہار وہ    مادری زبان میں نہیں کرتا۔

اسلامی نقطہ نظر سے بھی مادری زبان کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ قرآن کے مطالعہ سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اقوام کی فکری اور شخصی تعمیر اور تبدیلی کے لئے اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء مبعوث فرمائے ان کا اپنی اسی قوم سے تعلق تھا۔تمام انبیاء  علیہ السلام نے اپنا دعوتی اور انقلابی مشن اپنی قوم کی زبان میں ہی پیش کیا ۔اسلام دین فطرت ہے اور تعلیم و تربیت اور ابلاغ کے لئے اسلام نے فطری طریقوں کو پسند فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
·       پس اے نبی ، اس کلام کو ہم نے آسان کر کے تمہاری زبان میں اسی لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیز گاروں کو خوشخبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو ڈرا دو ۔( سُوْرَةُ مَرْیَم ، آیت نمبر  97)
·       اے نبی ، ہم نے اس کتاب کو تمہاری زبان میں سہل بنا دیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔( سُوْرَةُ الدُّخَان، آیت نمبر  58)
·       تو آسمان اور زمین کے رب کی قسم بیشک یہ قرآن حق ہے ویسی ہی زبان میں جو تم بولتے ہو۔  (سُوْرَةُ الذّٰرِیٰت، آیت نمبر  23)

قرآن مجید میں کم و بیش 13 مقامات پر اس بات کا اظہار کیا گیا کہ یہ آپ کی ہی زبان (عربی) میں نازل کیا گیا ہے تاکہ آپ اس کے پیغام کو سمجھیں اور عمل کریں ، حتیٰ کہ ایک جگہ ارشاد ہوا کہ:  
·       اگر ہم اس کو عجمی قرآن بنا کر بھیجتے تو یہ لوگ کہتے " کیوں نہ اس کی آیات کھول کر بیان کی گئیں ؟کیا ہی عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے اور مخاطب عربی"۔ ان سے کہو یہ قرآن ایمان لانے والوں کے لیے تو ہدایت اور شفا ہے، مگر جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے لیے یہ کانوں کی ڈاٹ اورآنکھوں کی پٹی ہے۔ ان کا حال تو ایسا ہے جیسے ان کو دُور سے پکارا جارہا ہو۔ (سُوْرَةُ حٰمٓ السَّجْدَة ، آیت نمبر  44)

نبی کریم ﷺ نہ صرف اہل عرب میں سے تھے اور  قرآن پاک عربی زبان میں بلکہ تمام انبیاء  اپنی امت میں سے تھے اور انہوں نے اپنی قوم کو انہیں کی زبان میں رب العزت کا پیغام پہنچایا، جیسا کہ قرآن پاک  میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
·       ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے ، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے۔ پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے ، وہ بالادست اور حکیم ہے۔( سُوْرَةُ اِبْرٰهِیْم ، آیت نمبر  4)

قرآن مجیداہل عقل و دانش کے لئے  زبانوں اور رنگوں کے اختلاف کو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے نشانی قرار دیتا ہے۔
·       اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے۔ یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔دانشمند لوگوں کے لیے۔( سُوْرَةُ الرُّوْم ، آیت نمبر  22)

دین اسلام  جس بات کی اہمیت روز ازل سے باور کروا رہا ہے جدید دنیا بھی اب اسے ماننے پر مجبور ہے اور ماڈرن تحقیقات ،  ریسرچرزاور ماہرین لسانیات اس طرف نشاندہی کرتے ہیں کہ مادری زبان ہی سے بچوں کی صحیح تخلیقی اور فکری ذہنی نشونماء ممکن ہے ۔
اقوام متحدہ کا ادرہ،  یونیسکو (UNESCO) عالمی سطح پر ابتدائی تعلیم کو بچوں کی مادری زبان میں فراہم کرنے پر زور دیتا ہے ۔ یونیسکو (UNESCO)نے مادری زبان کو بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لئے سب سے موثر و مفید قرار دیا ہے۔مادری زبان نہ صرف بچوں میں تحقیقی ،تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ کاباعث بنتی ہے بلکہ بچوں کے پاس پہلے سے ہی اپنی زبان کا ایک ذخیرہ موجود ہوتا ہے جس سے بچے نئے الفاظ سیکھنے کے غیر دلچسپ عمل سے بچ جاتے ہیں۔مادری زبان میں سیکھنے سے انہیں گوناں گو خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے۔ان کے ذہن اکتسابی بوجھ سے محفوظ رہتے ہیں۔ مادر ی زبان میں تعلیم کے متعلق یونیسکو کا کہنا ہے کہ؛
 "برسوں کی تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ جو بچے اپنی مادری زبان سے تعلیم کی ابتدا کر تے ہیں شروع سے ہی ا ن کی کار کردگی بہتر ہوتی ہے۔ا ن کی یہ اچھی کار کردگی مسلسل قائم رہتی ہے بہ نسبت ان بچوں کے جو اپنی تعلیم ایک نئی زبان سے شروع کرتے ہیں"۔

مادری زبان کی اہمیت و افادیت کو سابق سوویت یونین کی ریاست داغستان کا شاعر رسول حمزہ توف یوں بیان کرتا ہے؛
 "میرے نزدیک زبانیں، آسمان پر بکھرے ہوئے ستاروں کیطرح ہیں اور میں یہ نہیں کہوں گا کہ تمام ستارے ایک دوسرے میں ضم ہو کر ایک بڑے ستارے کا روپ دھار لیں کیوں سورج تو پہلے سے ہی موجود ہے ۔لیکن سورج کی موجودگی کے باوجودیہ ضروری ہے کہ ستارے آسمان پر چمکتے رہیں اور ہر آدمی کے پاس اپنا ستارہ ہو"۔

گوجری زبان اور اسکی  بقاء:
زبان سے عوام کی تہذیب ،ثقافت اور مذہبی عقائد جڑے ہوتے ہیں۔ بین الااقوامی، قومی اور صوبائی زبانوں کے تسلط سے مادری  زبانوں سے وابستہ تہذیب ،ثقافت اور کلچرکو خطرات لائق ہیں۔زبان کا تحفظ درحقیقت تہذیب،ثقافت اورکلچر کا تحفظ ہے۔ گوجری زبان جو اردو کی ماں کہلاتی ہے اسے بھی آج اپنی بقاء کی جنگ لڑنی پڑ رہی ہے۔ کہیں اسے پروٹو ٹائپ پروپیگنڈہ کا سامنا ہے تو کہیں وسائل و سہولیات کا فقدان اس کے راستے میں حائل ہے۔  

گوجری زبان میں محاورے ، ضرب المثل ، پہلیاں ، لوک گیت، لوک کہانیاں اور لوک بار وغیرہ وہ سب مواد موجود ہے جس کے بل بوتے پر اس کو زبان کا درجہ دیا جا سکتا ہے گوجری اپنی قدامت اور وسعت کے لحاظ سے برصغیر کی اہم زبان ہے شروع شروع میں گجرات (بھارت) اور دکن میں اس کو اردو کا نام دیا گیا کیونکہ دراصل اس زبان کے خدوخال سے ہی بعد میں اردو نے نشوونما پائی چوہدری اشرف گوجر ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب” اردو کی خالق ، گوجری زبان“ میں بڑے خوبصورت طریقے سے یہ بات ثابت کی ہے۔ گوجری زبان برصغیر کے میدانوں اور کوہساروں میں بڑی توانائی کے ساتھ زندہ رہی یہ زبان راجھستان ، ہماچل پردیش ، جموں وکشمیر ، صوبہ خیبر پختونخوا ، شمالی علاقہ جات یہاں تک کہ افغانستان ، روس اور چین کے کچھ علاقوں میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

1871ء میں فرانس کی سرحدوں پر جب جرمن افواج قابض ہوئیں تو فرانس کے ایک استاد(مسٹر ہیبل) نے طلبہ اور معززین شہر کو جمع کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ؛
"فرانسیسی زبان دنیا کی مضبوط ، واضح اور حسین ترین زبان ہے۔ یہ ہمارے قومی ورثے کی واحد محافظ ہے۔ جب ایک قوم غلام بن جاتی ہے تو جب تک وہ اپنی زبان کو محفوظ رکھے، اس کے پاس وہ چابی رہتی ہے جس سے وہ اپنے قید خانے کا دروازہ کھول سکتی ہے"۔ (فرانسیسی مصنف الفوز ڈیویڈ)۔

میں بھی آج یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ گوجری زبان اپنے بولنے والوں  کی پہچان ہے ،  انفرادیت ہے۔ گوجری   زبان کا اپنا رسم الخط اور  قوائد و ضوابط ہیں، شعری و نثری ادب ہے۔ سب سے بڑھ کر گوجری زبان سے وابسطہ تہذیب و تمدن اور ثقافت ہے، لوک کہانیاں، محاورے اور ضرب المثال ہیں  جو کہ گوجری کا  قیمتی اثاثہ ہے۔  گوجری   زبان  وہ چابی ہے جس سے اس کے بولنے والے  خوشحالی و ترقی کا دروازہ کھول سکتے ہیں اور احساس کمتری کو پس پشت ڈال سکتے ہیں۔

گوجری کی میٹھاس ، چاشنی اور ابلاغی قوت کسی بھی مہذب زبان سے کم نہیں،  زبان کوروزمرہ کے کام کاج تک محدود رکھنا ہی کافی نہیں ہو تاہے۔ بول چال کے علاوہ اس کا لکھنا پڑھنا بھی زبان والوں کے لئے بے حد ضروری ہوتا ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جن کی یہ مادری زبان ہوتی ہے۔یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ ہم گوجری بول سکتے ہیں لیکن اس کے لکھنے اور پڑھنے سے معذور ہیں۔ حالانکہ گوجری لکھنا اور پڑھنا کوئی خاصہ مشکل کام نہیں ہے۔ یہ انتہائی آسان اور سہل کام ہے خاص طور پر گوجری بولنے والوں کے لئے تو یہ اور بھی آسان کام ہے کیونکہ ہم سبھی گوجری زبان جانتے ہیں ہمیں زبان سیکھنا نہیں ہے بلکہ صرف گوجری لکھنا اور پڑھنا سیکھنا ہے۔ ذاتی تجربہ کی روشنی میں یہ بات میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ روزانہ ایک گھنٹہ کی مشق ،  ایک مہینےکر  کے آسانی سے گوجری لکھنا ،پڑھنا سیکھا جاسکتا ہے اور تین ما ہ میں ہم زبان میں اچھی خاصی مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔

گوجری کا  فروغ و اشاعت:
 گوجری کے فروغ و اشاعت کے لئے ضروری ہے کہ ہم روز مرہ بول چال میں اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں گوجری زبان میں بات چیت کریں۔ گھروں میں بزرگ بچوں کو گوجری میں لوک کہانیاں سنائیں، گوجری محاوروں اور ضرب المثال کا استعمال زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔ گوجری ادبی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ گوجری مشاعرے اور گوجری نعتیہ ؐمحافل اور گوجری سیرتؐ کانفرسز کا انعقاد کریں۔ نشریاتی اداروں (ریڈیو اور ٹی وی) پر گوجری نیوز بلیٹن کے علاوہ گوجری میں بچوں، خواتین اور گوجری ادب پر بھی پروگراموں  کے لئے وقت مقرر کیا جائے۔ ریڈیو آر جے اور ڈے جے ایف ایم ریڈیو پر اپنی زبان میں پروگرام کریں۔

تعلیمی اداروں میں بچوں کو سیکھانے کے لئے گوجری ابتدائی قاعدہ ترتیب دیا جائے اور پرائیویٹ سکولوں میں جہاں گوجروں کی تعداد زیادہ ہے وہاں وہ قاعدہ پڑھایا جانا چاہئے۔۔  گوجری ثقافت اور کلچر کی ترویج کے لئے سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں سمیت لوک ورثہ اور عوامی پروگراموں میں کلچرل شو پیش کیے جائیں تاکہ زبان کے ساتھ وابسطہ تہذیب ،ثقافت اور کلچرکوبھی فروغ دیا جا سکے اور اسے بھی اجاگر کیا جائے ۔  مادری زبانوں کے حوالے سے کام کرنے والے حکومتی اور غیر حکومتی اداروں سے گوجری نثری و شعری ادب  کی ترویج و اشاعت کے لئے تعاون حاصل کیا جائے۔  سوشل میڈیا، ویب سائٹس، بلاگزاور ویڈیو چینلز   پر گوجری تحریروں اور  ویڈیوز  کو زیادہ سے زیادہ اپ لوڈ کیا جائے ۔  گوجری لوک موسیقی، لوک داستانوں، لوک کہانیوں اور محاوروں کو کتابی شکل میں ترتیب دیا جانا چاہئے.

مادری زبانیں  یعنی زبانوں کا اختلاف دین اسلام کے مطابق اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے نشانی ہے۔ یہ ہمہ رنگی ہی زندگی اور معاشرے کا حسن ہے، یہی لوگوں کی محبت اور انسیت کی وجہ ہے۔ اس لئے انہیں محدوم ہونے یا  ختم ہونے سے بچائیں اور زندگی کی خوبصورتی کو قائم دائم رکھیں۔

تحریر: ابرار حسین گوجر


منگل، 12 فروری، 2019

گوجر نہ لکھنے اور گوجری نہ بولنے کے اسباب اور وجوہات



گوجر نہ لکھنے اور گوجری نہ بولنے کے اسباب اور وجوہات

بات چاہئے نام کے ساتھ گوجر لکھنے کی ہو یا عوام الناس میں اپنی زبان  "گوجری " بولنے کی، ہم بطور گوجر اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہوئے نہ صرف ہچکچاتے اور شرماتے ہیں بلکہ شرمندہ بھی ہوتے ہیں۔ ممکن ہے بہت سے علاقوں میں ایسا تاثر نہ ہو لیکن بحثیت مجموعی  یہ نفسیاتی مسئلہ موجود ہے۔ میں نے  جاننے کی کوشش کی کہ"  ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اور واقع ہی ایسا ہوتا بھی ہے کہ نہیں؟  اور اگر یہ سچ ہے تو وہ کون سے عوامل ہیں جو ہمیں اپنے تشخص کو ظاہر کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟"  تو مجھے کچھ حقائق سے واسطہ پڑا اور وہ حقائق ہی اس کالم کی بنیاد ہیں۔

میں 2016 سے "گوجر فاؤنڈیشن ٹیلنٹ ایوارڈ " کے لئے 70 فیصد سے زائد نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کا ڈیٹا  جمع کررہا ہوں اور ہر سال سینکڑوں طلبہ ہمارے پاس رجسٹر ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ 2017 سے  "گوجر فاؤنڈیشن پرفارمنس  ایوارڈ" کے طلبہ کی نامزدگیاں بھی میرے پاس ہی آتی ہیں۔ یہ امر میرے لئے باعث تعجب ہے کہ کسی بھی دوسری  برادری کی بنسبت ہماری قوم میں نام کے ساتھ پہچان کے طور پر اپنی قوم کا نام لکھنے کی شرح انتہائی کم ہے بلکہ اگر میں کہوں شرمناک حد تک کم ہے تو غلط نہ ہو گا۔ 100 میں سے دو یا تین طلبہ یا ان کے والد کے نام کے ساتھ گوجر لکھا ہوتا ہے۔ اسی طرح جب ہم اپنے دفاتر میں، سکول کالج اور یونیورسٹیز میں ، معاشرے میں نظر دوڑاتےہیں تو خال خال افراد ایسے نظر آتے ہیں جو کہ بلا جھجھک نام کے ساتھ گوجر لکھتے ہیں یا عوامی جگہوں پر گوجری زبان میں گفتگو کرتے ہیں اور اس میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ 

"گوجر فاؤنڈیشن ٹیلنٹ ایوارڈ 2018" کی تقریب میں میرے ساتھ کچھ ایسا ہی  واقعہ ہوا کہ" تقریب کے دوران میرے ڈیپارٹمنٹ کے ایک دوست بھی وہاں آئے ہوئے تھے اور ان سے سر راہ ملاقات ہو گئی پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ گوجر ہیں جبکہ ہم ایک ہی ادارے میں ایک عرصہ سے کام کرتے رہے ہیں لیکن چونکہ نام کے ساتھ ہم لوگ گوجر نہیں لکھتے اس لئے قوم کے حوالے سے باہمی تعارف نہیں تھا"۔ اسی طرح کاایک  واقعہ ہماری قوم کی متحرک  سماجی کارکن اور صحافی،  ثمینہ ریاض چوہدری بھی بیان کرتی ہیں  کہ ان کی کولیگ جو ٹیلنٹ ایوارڈ میں آئی ہوئی تھیں انہیں اس دن ایک دوسرے کے گوجر ہونے کا علم  ہوا جبکہ دونوں عشروں  سے ایک ہی سیٹ اپ میں ہیں۔ جہاں ہم گوجر لکھنے سے  کتراتے ہیں وہیں ہم عوامی مقامات پر بلکہ  اب تو گھروں میں بھی گوجری بولنے کو باعث شرمندگی سمجھتے ہیں۔ ٹیلنٹ ایوارڈ کی تقریب کے بعد مجھے ایک دوست کا فون آیا تعارف کے بعد جب  میں نے  پوچھا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں تو کہنے لگے پلندری ، آزاد کشمیر کا رہنے والا ہوں۔  مجھے بہت خوشی ہوئی میں نے  کہا آپ کشمیر کے رہنے والے ہیں لیکن گوجری نہیں بول رہے اس کی کیا وجہ ہے کہنے لگے گوجری مجھے آتی ہے لیکن جہاں ہم رہتے ہیں یہاں دوسری اقوام کی تعداد زیادہ ہے اس لئے جب ہم گوجری بولتے ہیں تو وہ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔ جب میں نے گہرائی میں سوچا  تو مجھے نام کے ساتھ گوجر نہ لکھنے اور گوجری نہ بولنے کی بنیادی وجہ یہی تمسخر اور تضحیق  سمجھ میں آتے ہیں۔
اس طرح کے بے شمار واقعات ہماری روز مرہ کی زندگی میں ہمارے ساتھ پیش آتے رہتے ہیں لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ  جب اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں کہتے ہیں کہ یہ قوم قبیلے پہچان کے لئے بنائے گئے ہیں تو ہم اپنا تعارف اپنی قوم کے حوالے سے کرواتے ہوئے کیوں ہچکچاتے ہیں؟ ہم دوسری اقوام کی طرح اپنے نام کے ساتھ گوجر کیوں نہیں لکھتے؟ اپنی گاڑیوں، اپنی دوکانوں، اپنے موٹرسائیکلوں اور اپنے گھروں کی نیم پلیٹوں پر گوجر لکھتے ہوئے کیوں ہچکچاتےہیں؟  
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ؛ 

’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔  بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ با عزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہو، بیشک اللہ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے۔‘‘  الحجرات، 49 : 13
ہم اپنا اپنی قوم کے حوالے سے تعارف نہ کروا کر اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر معترض ہو رہے ہیں ہمیں چاہئے کہ ہم اپنا تعارف اپنی قوم کے حوالے سے کروائیں،  ہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ قوم صرف پہچان کے لئے ہے  اور بارگاہ الہیٰ میں تقرب کا موجب ہرگز نہیں ہے۔ تقرب کا موجب تقویٰ اور پرہیز گاری ہے لیکن دنیا میں اقوام عالم میں تعارف کا ذریعہ قوم  اور قبیلے ہی ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ  اپنے بچوں کو سکول میں داخل کرواتے وقت ہی ان کے نام کے ساتھ گوجر لکھوائیں۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ  دو چیزیں ہی ہماری پہچان ہمیں  دلوا سکتی ہیں، نمبر ایک  عصری علوم اور دوئم ہمارا نام "گوجر" اورہماری زبان  "گوجری"،   ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے ۔

اب تک آپ جان چکے ہیں کہ نہ صرف ہم  اپنے نام کے ساتھ گوجر لکھتے ہوئے ہچکچاتے ہیں بلکہ گوجری بولنے سے بھی کتراتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے آئیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں،  اس کی بنیادی وجہ غلط راسخ تصور یا پروٹو ٹائپ پراپیگنڈہ ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ  غلط راسخ تصور یا پروٹو ٹائپ پراپیگنڈہ کیا ہے ۔  "کسی قوم کو بحیثیت مجموعی بدنام کرنا، اس کے خلاف نفرت کا تاثر پیدا کرنا اور لوگوں کے دل و دماغ  میں  اس  کا ایسا خاکہ بنانا کہ فلاں قوم جاہل،اجڈ،گنوار اورپسماندہ ہے (جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہو) کو "پروٹوٹائپ پروپیگنڈہ"  کہا جاتا ہے۔"

معروف کالم نگار اوریا مقبول جان،  جمعرات 11 فروری 2016 کے اپنے کالم "پروٹو ٹائپ" میں  لکھتے ہیں کہ ؛ "پروٹوٹائپ تصور کو تخلیق کرنے اور اسے دنیا میں عام کرنے کا فن اب ایک سائنس بن چکا ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں روس کے کیمونسٹ نظام کے بارے میں کئی سیل منظم تھے جو اس کے بارے میں لطیفے گھڑا کرتے تھے جنھیں ریڈر ڈائجسٹ جیسا معتبر رسالہ بھی بڑے اہتمام سے شائع کرتا تھا۔ روس جب افغانستان میں داخل ہوا تو امریکا پر رونالڈ ریگن کی حکومت تھی۔ آپ ریگن کی تقریریں اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ان لطیفوں میں سے کوئی نہ کوئی کسی تقریر میں ضرور ملے گا۔ اسی طرح جیمز بانڈ کی ساری فلمیں اسی پراپیگنڈے اور ’’پروٹوٹائپ‘‘ تصور تخلیق کرنے کے لیے وجود میں آئیں۔ باقاعدہ افسانوں، ناولوں، ڈراموں اور دیگر اصناف میں کسی قوم، کسی پیشے سے وابستہ افراد یا پھر کسی مذہب سے وابستہ افراد کا منفی تصور ابھارنے کے لیے کردار تخلیق کیے جاتے ہیں۔ آج بھی کسی قوم کے بارے میں ایسا تاثر بنانا ہو تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی تحریروں کو پیش کیا جاتا ہے جو قوموں سے تعصب کی بنیاد پر لکھی گئیں۔ جدید دنیا میں جس پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ کسی قوم کا ایک "پروٹوٹائپ امیج" تخلیق کیا جاتا ہے۔ اس کا طریقہ کار اس قدر حیران کن ہے کہ کسی کو گمان تک نہیں گزرتا کہ ایسا پلاننگ کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

"پروٹوٹائپ تصور "  یا   "غلط راسخ تصور" کے بارے میں اب آپ کو کچھ اندازہ ہو گیا ہو گا۔  اس تصور کو لوگوں میں قبولیت و دوام دینے کے لئے جو طریقہ کار اپنایا جاتا ہے وہ اتنا دلچسپ ہے کہ کوئی قوم تصور ہی نہیں کر سکتی کہ اس کے خلاف باقاعدہ مہم جوئی کی جا رہی ہےیا کی گئی ہے۔ سب سے پہلے کوئی ایسا کردار تلاش کیا جاتا ہے جس سے ثابت ہو کہ یہ قوم  جاہل،اجڈ،گنوار اورپسماندہ ہے۔ پھر اس کے خلاف تضحیک آمیز لطائف گھڑے جاتے ہیں، پھر اس قوم کی قابل فخر شخصیات کا مذاق وتمسخر اڑایا جاتا ہے۔ اس کے رہنماؤں کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں ،  پھر ناولوں، کہانیوں اور افسانوں  میں انتہائی خاموش انداز سے اس قوم  کے بارے میں منفی کردار گھڑے جاتے ہیں،اس کے کارٹون بنائے جاتے ہیں، ضرب المثل، محارے وغیرہ  بنائے جاتے ہیں، اس کی تہذیب و ثقافت، زبان و ادب اور کلچر کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے تاکہ نہ صرف عام لوگوں میں بلکہ اس قوم کے اپنے نوجوانوں میں بھی یہ بات راسخ العقیدہ ہو جائے کہ وہ  جاہل،اجڈ،گنوار اورپسماندہ قوم سے ہیں۔اس قوم کے نونہال، مستقبل کے معماراس پروٹو ٹائپ تصور سے مایوسی کی اس حد تک پہنچ جائیں کہ  کبھی اپنی زبان، اپنی تہذیب، اپنے کلچر، اپنے رسم و رواج اور اپنی شناخت پر فخر نہ کر سکیں، جیئیں تو اس احساس ندامت/ احساس کمتری کے ساتھ جیئیں کہ اپنی پہچان اپنی قوم کے حوالے سے نہ کرا سکیں اور اپنی زبان یا تو بولنا ہی چھوڑ دیں یا بولیں تو گھروں کے اندر شرمندہ شرمندہ سے ہو کر بولیں۔

اگر ہم بغور جائزہ لیں تو ہماری قوم کے خلاف  "پروٹوٹائپ تصور"  کو خوب استعمال کیا گیا ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کی شروعات کب اور کیسے ہوئیں ؟ اور اس کے محرکات کیا تھے ( تحقیق کرنے والوں کو اس پر تحقیق کرنی چاہیے)۔  ہمیں جاہل،اجڈ،گنوار اورپسماندہ قوم ثابت کرنے کے لئے "گوالے" کے کردار کو ہمارے ساتھ نتھی کیا گیا ۔ اس کردار کو سامنے رکھ کر ہماری قوم کے خلاف مذائقہ خیز لطیفے گھڑے گئے،  ناولوں، کہانیوں اور افسانوں میں / ٹی وی ٹاک شوز میں ہمیں بطور دودھ بیچنے والا  "گوالا" پیش کیا گیا۔  اسی طرح ہمیں اور ہمارے بچوں (جو نام کے ساتھ گوجر لکھتے ہیں) پر آوزیں کسی جاتی ہیں، ان کی ہنسی اڑائی جاتی ہے۔ ہمارے خلاف من گھڑت اور بے بنیاد باتیں پھیلائی گئیں جیسے:
توں چل ہوں آیو  ( مطلب گوجر وعدے کا پابند نہیں ہوتا)
گوجر وے تے کُسے ناں  (مطلب گوجر کبھی کسی موقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ، موقع گنوا دیتے ہیں)
گوجر کولوں اجڑ چنگا اجڑ کولوں اجاڑ جتھے لبھے گوجر دیو انہوں مار
یہاں پر بس نہیں کی گئی بلکہ ہماری زبان کو بھی ہدف تنقید بنایا گیا اور لوگ  "مارو تھارو" کہہ کر ہنسی اور ٹھٹھہ کرنے لگے۔ غرض ہمیں جاہل،اجڈ،گنوار اورپسماندہ قوم ثابت کرنے کے لئے پوری مہم چلائی گئی ۔ گوجر پوری دنیا میں آباد ہیں کیا یہ لوگ بتا سکتے ہیں کہ ان میں سے کتنے فیصد دودھ کا کاروبار کرتے ہیں یا گوالے ہیں؟ ہمارے لوگ فورسز، زراعت، انجینئرنگ، میڈیکل غرض ہر شعبہ سے وابستہ ہیں تو ہمیں گوالے کے کردار کے ساتھ کیوں نتھی کیا گیا ؟۔  جب بچپن سے آپ نے بچے کے ذہن میں تہذیبی برتری اور تہذیبی پستی ڈال دی ہو، اسے یہ باور کروا دیا گیا ہو کہ گوجر تو گوالے ہوتے ہیں۔  جاہل،اجڈ،گنوار ہوتے ہیں۔ اس پر مستضاد یہ کہ  ہمارے خواص نہ لفظ  "گوجر " کو اپنائیں اور نہ ہی گوجری کو تو پھر کون اپنے نام کے ساتھ گوجر لکھے گا اور کون گوجری بولے گا؟

آفریدی جب چھکا لگاتا ہے تو پوری دنیا کہتی ہے بوم بوم آفریدی،  شکیل عباسی جب ہاکی کھیلتا ہے تو پورا سٹیڈیم  عباسی عباسی کے نعروں سے گونج اٹھتا ہے ، جنرل اشفاق پرویز کیانی  کو کسی کیانی برادری کے بندے کو لوگوں سے متعارف کروانے کی ضرورت نہیں کہ یہ جنرل صاحب کیانی ہیں اور اعظم سواتی کے لئے کسی فیس بک گروپ یا پیج نے یہ پوسٹ بنا کر نہیں چلائی کہ یہ سواتی ہے تو ہم کیوں لوگوں کو ایک لمبی لسٹ بتاتے پھرتے ہیں کہ یہ سارے صاحبان ذی وقار گوجر ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ دنیا میں ہمارا ایسا مثبت اور مضبوط (سٹرونگ امیج) بنے کہ لوگ اپنے نام کے ساتھ گوجر لکھتے ہوئے بجائے ہچکچانے اور شرمانے کے فخر محسوس کریں اور گوجری بولنے کو اعزاز سمجھیں۔  بی بی سی اور سی این این لکھیں کہ یہ ہے محمد عامر گوجر ، سردار محمد یوسف گوجراور  یہ ہے ثناء اللہ زہری گوجر  اور ان کا یہ اعزاز ہے یہ کارنامہ ہے،  یہ ملکی تعمیر و ترقی میں کردار ہے۔ 

ایک بہت اہم پہلو یہ ہے کہ جب ہم اپنے نام کے ساتھ گوجر لکھتے ہیں یا گوجری بولتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ متعصب ہیں۔ مجھے بتائیں اپنا تعارف کروانا یا اپنی زبان بولنا کیا تعصب ہے؟ اور کیا اس تعریف کی روح سے باقی برادریوں کے ممبران متعصب نہیں؟ یا یہ قاعدہ کلیہ صرف ہمارے لئے ہی مخصوص ہے؟ ۔  دنیا کے سامنے اپنے آپ کو اچھے انداز میں پیش کرنا/ پہچان کروانا  ہمارا حق ہے تعصب نہیں۔  اپنی مادری زبان بولنا  بین الااقوامی تسلیم شدہ حقیقت ہے تعصب نہیں،  بلکہ اب تو یونیسکو بھی کہتا ہے کہ بچے کا مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنا اسکا بنیادی حق ہے ۔ بین الااقوامی طور پر  مادری زبان کی اہمیت و معنویت کو تسلیم کرتے ہوئے ہرسال 21فروری کو عالمی یوم مادری زبان منایا جاتا ہے۔ یونیسکو نے مادری زبان کو بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لئے سب سے موثر و مفید قرار دیا ہے۔مادری زبان بچوں میں تحقیقی وتخلیقی صلاحیتوں کے فروغ کاباعث بنتی ہے۔گوجری ہماری مادری زبان ہے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کا مذاق اڑائے۔

 میں اگر سیاستدان ہوتا تو اپنی قوم  کا مقدمہ اسمبلی فلور پر شیدی قبیلے کی اس پر عزم خاتون تنزیلہ شیدی کی طرح اٹھاتا جو چند نفوس کراچی میں آباد  ہیں اور انکی رہنماء کو پیپلزپارٹی نے اسمبلی میں مخصوص نشست پر ایم این اے بنوایا ہے۔ جنکا کہنا تھا کہ "میرا خواب ہے کہ شیدی پکارا جانا قابلِ عزت ہو"،  میں اگر وکیل  ہوتا تو اس غیر منصفانہ مہم پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا تا اس سکھ وکیل  ہروندر چودھری کی طرح جس کی قوم کے خلاف بھی ایسا ہی منفی اور زہریلا  پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا اور جس نے  سکھوں پر مبنی لطیفوں پر پابندی کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ میں اگر سماجی کارکن ہوتا تو آمنہ مسعود جنجوعہ کی طرح پلے کارڈ اٹھا کر سڑکوں پر اپنی گمشدہ عظمت رفتہ کے لئے تحریک چلاتا  لیکن میں لکھاری ہوں   میرے وسائل قلیل اور اختیارات محدود ہیں اس لئے میں یہ تحریر لکھ کر  اپنے آنے والی نسلوں کو اس ناانصافی سے متعلق آگاہ کر رہا ہوں اور دنیا کے سامنے اپنی قوم کا روشن، پروقار اور درخشندہ چہرہ رکھ رہا ہوں۔ امید ہے میری یہ کاوش مثبت نتائج مرتب کرے گی ۔
جب ایسے تصورات کسی قوم پر تھونپ دئیے جائیں اور عوام میں راسخ ہو جائیں تو پھر اس قوم کا وہی حال ہوتا ہے جو آج ہمارا ہے لیکن اس راسخ تصور کو ختم کرنے،  اس کااثر زائل کرنے کے لئے ہمیں عشروں کی  جدوجہد اور سالوں کا وقت درکار ہے۔ پروٹوٹائپ تصور کے اثرات کی وجہ سے ہم اجتماعی طور پربلعموم  اور ہمارے  نوجوان اور پڑھا لکھا طبقہ بلخصوص اپنے نام کے ساتھ  گوجر لکھنے اور گوجری بولنے سے کتراتے ہیں ۔ اب ہم تجزیہ کرتے ہیں کہ اس شناخت ظاہر نہ کرنے سے کیا مسائل جنم لیتے ہیں؟۔ ان مسائل میں سر فہرست یہ ہے کہ ہمارا  باہمی تعارف نہیں ہوتا، تعارف نہ ہونے سے ہم آپس کے رشتے کی چاشنی ، اپنائیت اور محبت  سے محروم رہتے ہیں۔ دوسرا ہمیں ملک کے بیشتر علاقوں میں اپنی تعداد کا علم نہیں ہو سکتا کہ فلاں علاقے میں بھی ہماری آبادی ، ہمارا خون اور ہمارے لوگ موجود ہیں یا نہیں جس کا نقصان یہ ہے کہ کسی بھی اجتماعی مسئلے پر ہم یک آواز نہیں ہوتے، ایک موقف نہیں اپنا سکتے۔   تیسرا،  ہمیں ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے کے لئے مشکلات پیش آتی ہیں کیونکہ تعارف نہ ہونے کی وجہ سے چاہئے ہم کسی اہم ادارے اور عہدے پر فائز ہوں، چاہئے کسی علاقے میں اثر ورسوخ رکھتے ہوں،   چونکہ ہم ایک دوسرے کو قوم/ قبیلے کے حوالے سے جانتے نہیں اس لئے  ہم اپنے لوگوں کی کوئی جائز مدد یا رہنمائی  نہیں کر سکتے۔ چوتھا ، سب سے بڑا نقصان یہ ہے  کہ جب آپ شناخت سے محروم  ہوتے ہیں یا آپ جس شناخت کے حامل ہوتے ہیں وہ ایسی ہو کہ معاشرے میں اسے قدر کی نگاہ سے نہ دیکھا جاتا ہو تو انسان میں خود اعتمادی کا فقدان پیدا ہو جاتا  ہے وہ احساس جرم، احساس کمتری اور احساس ندامت کا شکار ہو جاتا ہے اور یہ وہ زہریلے عوامل ہیں جو کسی قوم کی ترقی ، اس کی اٹھان اور اس کے شاہینوں کی اڑان کے راستے  کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ایسے لوگ ایسی قوم ، قوموں کی رہنمائی نہیں کر سکتی، کوئی بڑا تحقیقی  اور علمی کام  سر انجام نہیں دے سکتی اور اپنے آپ کو منوانے کا جو جذبہ قوموں میں بیدار ہوتا ہے وہ احساس کمتری کی ماری اقوام میں پیدا نہیں ہوتا۔  نوجوان کسی بھی کمیونٹی کا اثاثہ ہوتے ہیں جب  یہ اثاثہ ہی شرمندہ شرمندہ اور احساس ندامت کا شکار ہو گا تو پھر اس قوم کے مستقبل سے کیا امید لگائی جا سکتی ہے؟۔

جہاں ہم پروٹوٹائپ پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر گوجری بولنا چھوڑ دیتے ہیں اور نام کے ساتھ گوجر لکھنا ختم کر دیتے ہیں وہیں معاشرے میں اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لئے اور اس پروٹوٹائپ پروپیگنڈے کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے  ہم میں سے بہت سے گوجر اپنے نام کے ساتھ چوہدری، سردار،  ملک اور رانا  لکھتے ہیں اور  اسی طرح کچھ لوگ اپنے نام کے ساتھ اپنی گوتھ چیچی، بڈھانہ، چوہان، لوسر اور ٹھاکر لکھتے ہیں۔میرے خیال سے  ان دونوں چیزوں کے لکھنے میں کوئی قباعت نہیں لیکن اگر ہم بغور جائزہ لیں تو یہ دونوں باتیں گوجر ازم کو کمزور کرتی ہیں اور پروٹوٹائپ تصور کو تقویت دیتی ہیں۔
اول الذکر قوم/قبیلہ (کاسٹ) نہیں بلکہ لقب یا ٹائٹل ہے۔ اسے ہم اعزاز یا احساس تفاخر کے لئے استعمال کرتے ہیں جیسے مانسہرہ کے گوجر نام کے ساتھ گوجر کے بجائے سردار لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں اسی طرح ہزارہ اور پنجاب کے گوجر چوہدری لکھنا جبکہ ترنول، اسلام آباد اور ملحقہ علاقوں کے گوجر اپنے ناموں کے ساتھ ملک لکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس طرح بااثر افراد اپنے نام کے ساتھ گوجر نہیں لکھتے جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شاید لفظ گوجر اتنی اہمیت کا حامل نہیں ہے(دوسروں کے علاوہ یہ تاثر ہمارے اپنے اندر بھی بہت قویٰ ہے) ۔ تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ گوجر زور آور، غیرت مند اور شجاعت کے حامل افراد ہیں لفظ گوجر پر لقب  کو فوقیت دینا کسی صورت بہتر عمل نہیں ہے اور ایسا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم پروٹوٹائپ پروپیگنڈے  سے نہ صرف متاثر ہیں بلکہ اس پر یقین بھی رکھتے ہیں۔

دوسرے جو نام کے ساتھ اپنی گوتھ لکھتے ہیں اس میں بھی کوئی قابل اعتراض بات نہیں لیکن تاریخ دانوں کے مطابق صرف پاکستان میں گوجر قوم کی150 سے زاہد گوتھیں ہیں جبکہ پوری دنیا میں تین ہزار سے زائد اب ذرا سوچیں کہ ہر علاقے کے بسنے والے اپنے نام کے ساتھ اپنی گوتھ لکھیں گے تو دوسرے علاقے یا خطے کے باشندے شاید انہیں گوجر سمجھیں ہی ناں کیونکہ وہاں گوجروں کی جو گوتھیں قیام پذیر ہوں گی ان کے نام مختلف ہوں گے۔ جیسے ہزارہ کے کچھ حصوں میں  میلو، لوسر، چوہان، ٹھاکر ہیں وہاں بیٹن اور برسہ نہیں رہتے تو شاید ہزارہ کے گوجر جانتے ہی نہ ہوں کے بیٹن اور برسہ بھی گوجر ہی ہیں۔ اسی طرح سندھ اور بلوچستان کے گوجر قبیلوں کی گوتھوں کا ہمیں پتہ ہی نہیں ہے۔ فاؤنڈیشن کے شعبہ "گوجر ہسٹاریکل ریسرچ" کے انچارج محمد فاروق حسین بیٹن کی ریسرچ دیکھیں تو دنیا بھر میں مختلف علاقوں، شاہراہوں، قلعوں، کمپنیوں اور گروپوں کے نام لفظ "گوجر" پر مشتمل ہیں جس سے انہوں نے جانا کہ یہاں بھی ہماری قوم کے افراد موجود ہیں یا پائے جاتے ہیں اسی طرح پاکستان میں بھی بہت سے علاقوں، محلوں، ڈھوکوں، شاہراہوں کے نام لفظ "گوجر" سے منسوب ہیں جس سے وہاں گوجر قوم کی موجودگی اور اس علاقے میں گوجر حکمرانوں کی حکمرانی کا ہمیں پتہ چلتا ہے۔ اگر امریکہ ، سویٹزرلینڈ یا آسٹریلیاء کے گوجر اپنے نام کے ساتھ  بجائے گوجر  لکھنے کہ اپنی گوتھ لکھیں تو ہم جان ہی نہ سکیں کہ ان ممالک میں بھی گوجر قوم کے افراد قیام پزیر ہیں۔ اس لئے ٹائٹل اور گوتھ کے بجائے نام کے ساتھ لفظ گوجر لکھنا زیادہ بہتر ہے۔ اس سے اتحاد، کثرت (افرادی قوت) اور مثبت تاثر پیدا ہو تا ہے۔ پروٹوٹائپ تصور کے اثرات ختم کیسے ہوں گے اور اس کے لئے کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے؟ ہمیں اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنا تعارف اپنی قوم کے حوالے سے کروانے کی ضرورت ہے، گوجری زبان، تاریخ و ادب اور ثقافت کے فروغ کی ضرورت ہے اور عصری علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

ابرار حسین گوجر