بدھ، 10 مئی، 2017

مشکلات سے جان چھڑائیں


مشکلات سے جان چھڑائیں
ہسپتال سے چیک اپ کے بعد اس کی رپورٹ بتا رہی تھی کہ وہ ذہنی دباؤ اور ذیابیطس جیسی دسیوں بیماریوں میں مبتلا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگوں میں کامل مثالیت (آئیڈیل ازم) تلاش کرنے کا عادی تھا۔  یوں اس بے چارے نے اپنے آپ کو المناک عذاب میں ڈال رکھا تھا۔
ہمیشہ بیوی سے تنگ رہتا بات بات پر ٹوکتا۔
"تم نے نئی پلیٹ توڑ دی"
"مہمان خانے کی صفائی نہیں ہوئی"
"استری کرتے ہوئے تم نے میرا نیا سوٹ جلا دیا"
اولاد سے بھی اس کا یہی رویہ تھا:
"خالد کو ابھی تک پہاڑا یاد نہیں ہوا"
"سعد نے پہلی پوزیشن کیوں نہیں لی؟"
یہ تھا اس کا گھر والوں سے طرز عمل۔ گھر کے باہر دوستوں اور رفقائے کار کے درمیانصورتحان اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ تھی۔
"ابو عبداللہ  نے بخیل کا واقعہ سنا کر مجھے نشانہ بنایا ہے"
"کل رات ابو احمد نے پرانی گاڑیوں کا ذکر چھیڑا تھا اس کا اشارہ میری گاڑی کی طرف تھا"
"ہاں! وہ مجھے ہی تاڑ رہا تھا"
پرانی کہاوت ہے: "زمانہ تمہارے پیچھے چلتا ہے تو ٹھیک ورنہ تم زمانے کے پیچھے چلتے چلو"
میرا ایک بدو دوست اکثر پرانی کہاوت سنایا کرتا ہے جو اس نے اپنے دادا سے سن کر یاد کی ہے۔ جب کبھی اس موضوع پر بات چلے تو وہ آہ بھر کر کہتا ہے: "جس ہاتھ کو ہٹانے کی قدرت نہیں رکھتے اس سے مصافحہ کر لو"
میں نے کہاوت پر غور کیا تو مجھے اس میں سچائی کی جھلک دیکھائی  دی۔ واقعی ہم اپنے آپ کو درگزر کرنے اور حالات کے رنگ پر ڈھلنے کا عادی نہ بنائیں گے توجلد ہی شدید تھکاوٹ کا شکار ہو کر بیٹھ جائیں گے۔ چھوٹی موٹی باتیں نظر انداز کرنے اور وہم و گمان میں نہ پڑنے کی روش اپنائیں، زندگی میں کامرانی آپ کا مقدر بنے گی۔
شباب کی وادی میں قدم رکھنے والے ایک نوجوان نے اپنے شیخ  سے التماس کیا کہ وہ رفیقہ حیات کے انتخاب میں اس کی مدد کریں۔ شیخ نے دریافت کیا: "تمہارے خیال میں تمہاری بیوی کن صفات کی حامل ہونی چاہیئے؟"
نوجوان بولا: "دلکش چہرہ، سروقد، ساون کی گھٹاؤں کوشرماتے سیاہ و ملائم اور گھنے بال، بدن گلاب، کھانا ایسا مزیدار پکائے کہ انگلیاں چاٹتے رہ جاؤ، بولے تو باتوں سے پھولوں کی خوشبو آئے، گویا میٹھے پانی کا چشمہ دھیرے  دھیرے بہہ رہا ہے۔ دیکھو تو آنکھوں کو بھائے۔ گھر سے جاؤں تو اپنی عزت اور میرے مال کی حفاظت کرے۔ میرا کہا  مانے، میرا برا نہ چاہے، دین کے علم نے اس کی شخصیت کو رفعت بخشی ہو، عقل ایسی ہو کہ رشک کرنے کو جی چاہے"
غرض کہ نوجوان نے عورتوں کی تمام مکمل صفات ایک عورت میں جمع کر دیں۔ شیخ نے کہا:
"بچے! تمہاری مطلوبہ شے میرے پاس ہے؟"
نوجوان نے فورا پوچھا: "کہاں؟"
شیخ بولے: "اللہ کے حکم سے جنت میں، دنیا میں ایسی عورت کا وجود ناممکن ہے"
دنیا میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو درگزر کرنے کا عادی بنانے کی کوشش کریں۔ مشکلات تلاش نہ کریں۔ نبی ﷺ کا طریقہ زندگی بھی یہی تھا کہ آپ اکثر اوقات درگزر سے کام لیتے۔ ایسا بھی ہوتا کہ آپ صبح کے وقت سخت بھوک کی حالت میں گھر جاتے اور پوچھتے:
"کیا کھانے کو کچھ ہے؟"
گھر والے نفی میں جواب دیتے تو فرماتے:
"تب میں روزے سے ہوں"
آپ ﷺ اس بات کی وجہ سے مشکلات کھڑی نہ کرتے، یہ نہ کہتے: "تم نے کھانا تیار کیوں نہیں کیا؟"
نہیں! صرف یہ کہہ کر بات ختم کر دی : "تب میں روزے سے ہوں"
عام لوگوں سے بھی رسول اللہ ﷺ کے رحمدلانہ برتاؤ کا یہی حال تھا۔
کلثوم بن حصین  خیار صحابہ میں سے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نبی ﷺ کے ہمراہ غزوہ تبوک میں شریک تھا۔ ایک رات ہم وادی اخضر میں محو سفر تھے۔ لوگ دیر تک چلتے رہے۔ مجھے اونگھ آنے لگتی اور میری اونٹنی نبیﷺ کی اونٹنی کے قریب ہونے لگتی تو میں  اچانک  جاگ جاتا اور اس ڈر سے کہ کہیں میری اونٹنی کے پالان کی لکڑی رسول اللہ ﷺ کی ٹانگ پر نہ  جا لگے، اونٹنی کو دور ہٹا دیتا۔ راستے میں مجھے پھر اونگھ نے آ لیا۔ اتنے میں میری اونٹنی رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی سے جا ٹکرائی۔ پالان کی لکڑی  رسول اللہ ﷺ کے پاؤں میں لگی۔ تکلیف کی شدت سے آپ کے منہ سے بے اختیار  "حِس" کی آواز نکلی۔ اس پر میں بیدار ہو گیا اور پریشانی کے عالم میں کہا: "یا رسول اللہ ﷺ! میرے لئے مغفرت کی دعا کیجئے۔ "
آپ ﷺ نے پوری کشادہ دلی سے فرمایا:
"چلتے چلو"
جی ہاں صرف اتنا کہا کہ چلتے چلو اور بات ختم کر دی۔ انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ یہ نہیں کہا:
"مجھے تنگ کیوں کرتے ہو؟"
"سارا راستہ پڑھا ہے۔"
" میرے ساتھ کیوں چمٹ رہے ہو؟"
نہیں! آپ ﷺ نے جان جوکھوں میں نہیں ڈالی۔
رسول اللہ ﷺ کا ہمیشہ یہی اسلوب تھا۔ ایک روز اصحاب کرام کے درمیان بیٹھے تھے۔ ایک خاتون چادر لئے آئیں اور عرض گزار ہوئیں: "آپ کے لئے یہ چادر اپنے ہاتھوں سے بنی ہے۔"
رسول اللہ ﷺ نے چادر لے لی۔ آپ کو اس کی واقعی ضرورت تھی۔ گھر گئے اور وہ چادر پہن کر باہر آئے۔
ایک آدمی بولا: "یا رسول اللہ! یہ چادر مجھے پہنا دیں۔"
آپ ﷺ نے کہا: "ضرور (پہنو)۔"
فوراََ گھر گئے، اسے اتار کر لپیٹا، پرانی چادر پہنی اور نئی چادر اس آدمی کی طرف بھیج دی۔
لوگوں نے اس سے کہا: "تم نے اچھا نہیں کیا۔ تم نے  رسول اللہ ﷺ سے وہی چادر مانگی جبکہ تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ سوالی کو نہیں لوٹاتے"
وہ کہنے لگا: "واللہ! میں نے یہ چادر صرف اس لئے مانگی ہے کہ جس دن میں مروں، یہ میرا کفن بنے"
وہ آدمی فوت ہوا تو گھر والوں نے اسے اسی چادر میں کفن دیا۔
ایک دن  رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کو عشاء کی نماز پڑھا رہے تھے۔ دو بچے مسجد میں داخل ہوئے۔ یہ فاطمہ  کے فرزندانِ ارجمند حسن و حسین تھے۔ وہ دونوں اپنے نانا کے پاس آئے۔ رسول اللہ ﷺ سجدہ کرتے تو دونوں صاحبزادے کمر پر سوار ہو جاتے۔ آپ سجدے سے سر اٹھاتے تو دونوں کو نرمی سے پکڑ کر اتارتے اور ایک طرف بیٹھا دیتے۔ دوبارہ سجدہ کرتے تو دونوں بچے پھر کمر پر بیٹھ جاتے۔ نماز مکمل ہوئی تو آپﷺ نے دونوں کو اٹھایا اور گود میں بیٹھا لیا۔ ابوہریرہ اٹھے اور عرض کی: "یا رسول اللہ ﷺ! ان دونوں کو چھوڑ آؤں؟"
آپ نے کوئی جواب نہ دیا اور بچے کھیلتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد آسمان پر بجلی چمکی تو آپ نے دونوں سے کہا:
"چلو، اپنی والدہ کے پاس چلے جاؤ" بچے اٹھے اور اپنی والدہ کے پاس چلے گئے۔
ایک اور موقع پر رسول اللہ ﷺ حسن یا حسین  کو اٹھائے ظہر یا عصر کی نماز کے لئے نکلے۔ مصلے پر آئے۔ بچہ نیچے بٹھایا۔ تکبیر کہی۔ خاصی دیر سجدے میں پڑے رہے۔ صحابہ کرام  کو  خدشہ ہوا کہ کوئی بات نہ ہو گئی ہو۔ آپ نے سجدے سے سر اٹھایا۔ نماز کے بعد صحابہ کرام نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! اتنا لمبا سجدہ آپ نے کبھی نہیں کیا۔ کیا کوئی نیا حکم اترا ہے؟"
آپﷺ نے فرمایا"
"ایسا نہ ہوتا لیکن میرے بیٹھے نے مجھے سواری بنا لیا تھا۔ میں نے جلدی کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ یہ خوش ہو لے"
ایک دن رسول اللہ ﷺ ام ہانی کے ہاں آئے۔ آپ کو بھوک لگی تھی۔ پوچھا:
"کھانے کو کچھ ہے؟"
وہ بولیں: "روٹی کے چند سوکھے ٹکڑے ہیں۔ آپ کو پیش کرتے ہوئے شرم آتی ہے"
فرمایا: " وہی لے آئیں"
ام ہانی  روٹی کے سوکھے ٹکڑے لائیں۔ انھیں پانی میں بھگویا اوراوپر  نمک چھڑک کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ کھانے لگے، ام ہانی  سے کہا: "کوئی سالن ہے؟" انھوں نے کہا: یا رسول اللہ! تھوڑا سا سرکہ ہے" فرمایا: " لائیں"
وہ لائیں تو آپ نے اسے بھی کھانے پر انڈیل لیا۔ کھانا تناول کرنے کے بعد "الحمدللہ" پڑھا اور فرمایا: "سرکہ اچھا سالن ہے۔"
جی ہاں! رسول اللہ ﷺ زندگی جیسی بھی تھی گزارتے تھے۔ معاملات کو اسی طرح لیتے  جس طرح وہ ہوتے تھے۔
ایک دن رسول اللہ ﷺ کے پاس امّ قیس بنت محصن اپنا نومولود بیٹا لائیں تاکہ آپ اسے گھٹی دیں اور اس کے لئے دعا کریں۔ آپ ﷺ نے بچہ اٹھایا اور گود مین لے لیا۔ بچے نے نبی ﷺ کی گود میں پیشاب کر دیا۔ نبی ﷺ نے صرف اتنا کیا کہ پانی منگا کر پیشاب کے نشانات پر چھڑک دیا ۔ اسی پر بات ختم ہو گئی۔ نہ غصہ ہوئے نہ ماتھے پر بل آئے۔
پھر ہم لوگوں نے اپنے آپ کو مصیبت میں کیوں ڈال رکھا ہے؟  ہم ہر بات کا بتنگڑ کیوں بنا لیتے ہیں؟
یہ ضروری تو نہیں کہ آپ کا ماحول اور اس میں رہنے والی ہر ایک شے سو فیصد آپ کی مرضی کے مطابق ہی ہو۔
"اگر تم کوئی عیب پاؤ تو یہ خلا پُر کر د۔ بلند و بالا ہے وہ ذات جس میں کوئی عیب نہیں۔"
بعض لوگ خواہ مخواہ معاملات کو ان کے سائز سے زیادہ اہمیت دے کر اپنے اعصاب جلاتے رہتے ہیں۔ لوگوں کی وہ خطائیں جو آپ کی نظروں سے پوشیدہ ہیں ، انھیں کرید کر نکالنے کی کوشش نہ کریں۔ دوسروں کے عزر قبول کرنے میں کشادہ دلی کا مظاہرہ کریں۔ بالخصوص جو لوگ آپ کو چاہتے  ہیں اور اسی چاہت کی بقاء کے لئے آپ سے معافی کے طلب گار ہوتے ہیں اور کوئی ذاتی مفاد ان کے سامنے نہیں ہوتا، ان کی  معذرت  تو ضرور ہی قبول کریں۔ کم از کم اُن کا دل نہ توڑیں۔
رسول اللہ ﷺ کو دیکھیے۔ ایک دن آپ ﷺ نے ممبر پر کھڑے ہو کر اتنی بلند آواز سے  خطبہ دیا کہ عزت مآب خواتین کو اُن کے گھروں میں سنائی دیا۔
آپ ﷺ نے فرمایا: "اے لوگو! جو زبان سے ایمان لائے ہو اور ان کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کیا کرو اور نہ ان کے عیب تلاش کیا کرو۔ جو اپنے بھائی کا عیب تلاش کرتا ہے، اللہ اس کا عیب تلاش کرتا ہے اور جس کے عیب کے درپے اللہ ہو جائے تو وہ اسے اس کے گھر میں ذلیل و رسوا کر دیتا ہے۔"
جی ہاں! غلطیوں کا شمار نہ کیجئے۔ لوگوں کے عیب تلاش نہ کریں۔ کشادہ دل بننے کی کوشش کریں۔ رسول اللہ ﷺ مشکلات کھڑی کرنے کے حق میں بلکل نہیں تھے۔
صحابہ کی ایک ہلکی پھلکی مجلس میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا:
"سُن لیں، آپ میں سے کوئی بھی مجھے میرے اصحاب کی کوئی بات نہ پہنچائے۔ میں چاہتا ہوں کہ جب آپ کی طرف آیا کروں تو میرا سینہ صاف ہو"
اپنے آپ کو عذاب میں مت ڈالیں:
"خاک اڑانے کی کوشش نہ کریں۔ وہ بیٹھی ہے تو بیٹھا رہنے دیں، البتہ اگر خاک اڑنے لگے تو آستین سے ناک ڈھک لیں اور اپنی زندگی کا لطف اٹھائیں۔"

اقتباس:
کتاب:  زندگی سے لطف اٹھائیے   
مصنف:  دکتور محّمد عبدالرّحمٰن العریفی
ترجمہ:   حَافظ قَمر حَسن

انتخاب / ترتیب و تدوین: ابرار حسین گوجر

صبر کی زمین پر


صبر کی زمین پر
ہری بھری فصل مٹی کے کھیت میں اگتی ہے نہ کہ سونے چاندی کے فرش پر۔ یہ محدود معنوں میں صرف زراعت کی بات نہیں بلکہ یہ زندگی کا عالمگیر قانون ہے۔ خدا نے ہر چیز کے وجود میں آنے کے لئے ایک نظام مقرر کر دیا ہے۔ اسی خاص نظام کے تحت وہ چیز وجود میں آتی ہے۔ کسی اور طریقے سے ہم اس کو وجود میں نہیں لا سکتے۔
یہی انسانی زندگی کا معاملہ بھی ہے۔ زندگی ایک ایسا امتحان ہے جو صبر کی زمین پر دینا پڑتا ہے۔ زندگی ایک ایسی کھیتی ہے جو صبر کی زمین پر اگتی ہے۔ خدا نے ابدی طور پر مقرر کر دیا ہے کہ زندگی کی تعمیر صبر کی زمین پر ہو اب قیامت تک یہی ہونا  ہے۔ ہم اس کی تعمیر کے لئے کوئی دوسری زمین نہیں بنا سکتے۔
صبر کسی منفی چیز کا نام نہیں وہ سراسر  ایک مثبت رویہ ہے ۔ صبر کا مطلب ہے۔ بے سوچے سمجھے کر گزرنے کے بجائے سوچ سمجھ کر اپنا کام کرنا ۔ ضزباتی رد عمل کے بجائے شعوری فیصلہ کے تحت اپنا منصوبہ بنانا۔ وقتی ناامیدیوں میں مستقبل کی امید کو دیکھ لینا۔ حالات میں گھر کر رائے قائم کرنے کے بجائے حالات سے اوپر اٹھ کر رائے قائم کرنا۔
ایک بیج کو آپ سونے کی پلیٹ میں رکھ دیں تو وہ اپنی زندگی کے سرچشموں سے مربوط نہیں ہوتا۔ وہ زندگی سے بھری ہوئی کائینات میں بے اسباب بنا ہوا پڑا رہتا ہے۔ وہ اپجاؤ کی ساری صلاحیت رکھتے ہوئے اپجنے سے محروم رہتا ہے۔
یہی حال انسان کا ہے۔ اگر وہ نے صبری کی حالت میں ہو تو وہ خدا کی سرسبز و شاداب دنیا میں ٹھنٹھ کی مانند سوکھا ہوا پڑا رہے گا۔ صبر کو اختیا کرتے ہی وہ اچانک خدا کی زمین میں اپنی جڑیں پا لیتا ہے اور بڑھتے بڑھتے بالآخر پورا درخت بن جاتا ہے۔ جب آدمی حقیقی معنوں میں صبر کا ثبوت دیتا ہے تو وہ بندوں کی سطح پر جینے کے بجائے خدا کی سطح پر جینے لگتا ہے۔ دنیا کی تنگیوں سے گزر کر وہآخرت کی وسعتوں میں پہنچ جاتا ہے۔ وہ بے معنی معنی زندگی کے مرحلہ سے نکل کر بامعنی زندگی کے مرحلہ میں داخل ہو جاتا ہے۔
صبر والا انسان ہی مومن انسان ہے۔ اسی کے لئے وہ ابدی انعام مقدر کیا گیا ہے جس کا دوسرا نام جنت ہے۔

اقتباس:
کتاب: راز حیات از مولانا وحید الدین خان

انتخاب / ترتیب و تدوین: ابرار حسین گوجر

اپنی کمیوں کو جانئے


اپنی کمیوں کو جانئے
وہ بڑھاپے کی منزل میں تھا۔ مگر اس نے شادی نہیں کی تھی، اس لئے کہ اس کو آئیڈیل رفیقہ حیات کی تلاش تھی۔
لوگوں  نے پوچھا: کیا آپ کو زندگی بھر کوئی ایسی خاتون نہیں ملی جو آئیڈیل رفیقہ حیات بن سکتی ہو۔
 اس نے جواب دیا: ایک خاتون ایسی ملی تھی مگر مشکل یہ تھی کہ وہ بھی اپنے لئے آئیڈیل شوہر تلاش کر ہی تھی اور بدقسمتی سے میں اس کے معیار پر پورا نہیں اتر سکا۔
لوگ عام طور پر دوسروں کی کمیوں کو جاننے کے ماہر ہوتے ہیں اس لئے ان کا کسی سے نباہ نہیں ہوتا۔ اگر آدمی اپنی کمیوں کو جان لے تو اس کو معلوم ہو کہ وہ بھی اسی بشری مقام پر ہے جہاں وہ دوسرے کو کھڑا ہوا پاتا ہے۔ اپنی کمیوں کا احساس آدمی کے اندر تواضح اور اتحاد کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ صرف دوسروں کی کمیوں کو جانتا ہو تو اس کے اندر گھمنڈ پیدا ہو گا اور کسی سے نباہ کرنا اس کے لئے مشکل ہو جائے گا۔
نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کسی ایک آدمی میں ساری خصوصیات جمع نہیں ہوتیں۔ کسی میں کوئی خصوصیت ہوتی ہے اور کسی میں کوئی خصوصیت۔ پھر جس شخص میں کوئی ایک خصوصیت ہوتی ہے اس کے اندر اسی نسبت سے کچھ اور خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں جو گویا اس خصوصیت کا ضمنی نتیجہ ہوتی ہیں۔ مثلا ایک شخص اگر بہادر ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر شدت ہو گی۔ ایک شخص شریف ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر نرمی ہو گی۔ ایک شخص حساس ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر تنقیدی مادہ ہو گا۔ ایک شخص عملی صلاحیت زیادہ رکھتا ہے  تو اسی نسبت سے اس کے اندر فکری استعداد کم ہو گی۔ وغیرہ
ایسی حالت میں قابل عمل بات صرف ایک ہے۔ ہم جس شخص کے "روشن پہلو" سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہوں اس کے "تاریک پہلو" کو نظر انداز کریں۔  یہی واحد تدبیر ہے جس سے ہم کسی کی صلاحیتوں کو اپنے لئے کارآمد بنا سکتے ہیں۔ میاں بیوی کے تعلقات ہوں یا مالک اور ملازم کے تعلقات یا دکان دار اور شراکت دار کے تعلقات ہر جگہ اسی اصول کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم کو " پھول" لینا ہے تو ہم کو "کانٹے" کو بھی برداشت کرنا ہو گا۔ جس کے لئے کانٹے کی برداشت نہ ہو  اس کے لئے اس دنیا میں پھول کا مالک بننا بھی مقدر نہیں۔
 یہ ایک حقیقت ہے کہ تنہا آدمی کوئی بڑا کام نہیں کر سکتا۔ بڑا کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مطلوبہ کام کی پشت پر کئی آدمیوں کی صلاحیتیں ہوں۔ اسی ضرورت نے مشترک سرمائے کی کمپنیوں کا تصور پیدا کیا ہے۔ لیکن کئی آدمیوں کا مل کر کسی مقصد کی تکمیل کے لئے جدوجہد کرنااسی وقت ممکن ہے جب کہ اس کے افراد میں صبر اور وسعت ظرف کا مادہ ہو۔ وہ ایک دوسرے کو برداشت کریں۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے نہ الجھیں۔ وہ ناخوش گوار باتوں کو یاد رکھنے کے بجائے ناخوش گوار باتوں کو بھلانے کی کوشش  کریں۔ معیار پسندی بہت اچھی چیز ہےمگر جب معیار کا حصول ممکن نہ ہو تو حقیقت پسندی سب سے بہتر طریق  عمل ہوتا ہے۔

اقتباس:
کتاب: راز حیات از مولانا وحید الدین خان

انتخاب / ترتیب و تدوین: ابرار حسین گوجر