بدھ، 10 مئی، 2017

صبر کی زمین پر


صبر کی زمین پر
ہری بھری فصل مٹی کے کھیت میں اگتی ہے نہ کہ سونے چاندی کے فرش پر۔ یہ محدود معنوں میں صرف زراعت کی بات نہیں بلکہ یہ زندگی کا عالمگیر قانون ہے۔ خدا نے ہر چیز کے وجود میں آنے کے لئے ایک نظام مقرر کر دیا ہے۔ اسی خاص نظام کے تحت وہ چیز وجود میں آتی ہے۔ کسی اور طریقے سے ہم اس کو وجود میں نہیں لا سکتے۔
یہی انسانی زندگی کا معاملہ بھی ہے۔ زندگی ایک ایسا امتحان ہے جو صبر کی زمین پر دینا پڑتا ہے۔ زندگی ایک ایسی کھیتی ہے جو صبر کی زمین پر اگتی ہے۔ خدا نے ابدی طور پر مقرر کر دیا ہے کہ زندگی کی تعمیر صبر کی زمین پر ہو اب قیامت تک یہی ہونا  ہے۔ ہم اس کی تعمیر کے لئے کوئی دوسری زمین نہیں بنا سکتے۔
صبر کسی منفی چیز کا نام نہیں وہ سراسر  ایک مثبت رویہ ہے ۔ صبر کا مطلب ہے۔ بے سوچے سمجھے کر گزرنے کے بجائے سوچ سمجھ کر اپنا کام کرنا ۔ ضزباتی رد عمل کے بجائے شعوری فیصلہ کے تحت اپنا منصوبہ بنانا۔ وقتی ناامیدیوں میں مستقبل کی امید کو دیکھ لینا۔ حالات میں گھر کر رائے قائم کرنے کے بجائے حالات سے اوپر اٹھ کر رائے قائم کرنا۔
ایک بیج کو آپ سونے کی پلیٹ میں رکھ دیں تو وہ اپنی زندگی کے سرچشموں سے مربوط نہیں ہوتا۔ وہ زندگی سے بھری ہوئی کائینات میں بے اسباب بنا ہوا پڑا رہتا ہے۔ وہ اپجاؤ کی ساری صلاحیت رکھتے ہوئے اپجنے سے محروم رہتا ہے۔
یہی حال انسان کا ہے۔ اگر وہ نے صبری کی حالت میں ہو تو وہ خدا کی سرسبز و شاداب دنیا میں ٹھنٹھ کی مانند سوکھا ہوا پڑا رہے گا۔ صبر کو اختیا کرتے ہی وہ اچانک خدا کی زمین میں اپنی جڑیں پا لیتا ہے اور بڑھتے بڑھتے بالآخر پورا درخت بن جاتا ہے۔ جب آدمی حقیقی معنوں میں صبر کا ثبوت دیتا ہے تو وہ بندوں کی سطح پر جینے کے بجائے خدا کی سطح پر جینے لگتا ہے۔ دنیا کی تنگیوں سے گزر کر وہآخرت کی وسعتوں میں پہنچ جاتا ہے۔ وہ بے معنی معنی زندگی کے مرحلہ سے نکل کر بامعنی زندگی کے مرحلہ میں داخل ہو جاتا ہے۔
صبر والا انسان ہی مومن انسان ہے۔ اسی کے لئے وہ ابدی انعام مقدر کیا گیا ہے جس کا دوسرا نام جنت ہے۔

اقتباس:
کتاب: راز حیات از مولانا وحید الدین خان

انتخاب / ترتیب و تدوین: ابرار حسین گوجر

کوئی تبصرے نہیں: