بدھ، 10 مئی، 2017

اپنی کمیوں کو جانئے


اپنی کمیوں کو جانئے
وہ بڑھاپے کی منزل میں تھا۔ مگر اس نے شادی نہیں کی تھی، اس لئے کہ اس کو آئیڈیل رفیقہ حیات کی تلاش تھی۔
لوگوں  نے پوچھا: کیا آپ کو زندگی بھر کوئی ایسی خاتون نہیں ملی جو آئیڈیل رفیقہ حیات بن سکتی ہو۔
 اس نے جواب دیا: ایک خاتون ایسی ملی تھی مگر مشکل یہ تھی کہ وہ بھی اپنے لئے آئیڈیل شوہر تلاش کر ہی تھی اور بدقسمتی سے میں اس کے معیار پر پورا نہیں اتر سکا۔
لوگ عام طور پر دوسروں کی کمیوں کو جاننے کے ماہر ہوتے ہیں اس لئے ان کا کسی سے نباہ نہیں ہوتا۔ اگر آدمی اپنی کمیوں کو جان لے تو اس کو معلوم ہو کہ وہ بھی اسی بشری مقام پر ہے جہاں وہ دوسرے کو کھڑا ہوا پاتا ہے۔ اپنی کمیوں کا احساس آدمی کے اندر تواضح اور اتحاد کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ صرف دوسروں کی کمیوں کو جانتا ہو تو اس کے اندر گھمنڈ پیدا ہو گا اور کسی سے نباہ کرنا اس کے لئے مشکل ہو جائے گا۔
نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کسی ایک آدمی میں ساری خصوصیات جمع نہیں ہوتیں۔ کسی میں کوئی خصوصیت ہوتی ہے اور کسی میں کوئی خصوصیت۔ پھر جس شخص میں کوئی ایک خصوصیت ہوتی ہے اس کے اندر اسی نسبت سے کچھ اور خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں جو گویا اس خصوصیت کا ضمنی نتیجہ ہوتی ہیں۔ مثلا ایک شخص اگر بہادر ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر شدت ہو گی۔ ایک شخص شریف ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر نرمی ہو گی۔ ایک شخص حساس ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر تنقیدی مادہ ہو گا۔ ایک شخص عملی صلاحیت زیادہ رکھتا ہے  تو اسی نسبت سے اس کے اندر فکری استعداد کم ہو گی۔ وغیرہ
ایسی حالت میں قابل عمل بات صرف ایک ہے۔ ہم جس شخص کے "روشن پہلو" سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہوں اس کے "تاریک پہلو" کو نظر انداز کریں۔  یہی واحد تدبیر ہے جس سے ہم کسی کی صلاحیتوں کو اپنے لئے کارآمد بنا سکتے ہیں۔ میاں بیوی کے تعلقات ہوں یا مالک اور ملازم کے تعلقات یا دکان دار اور شراکت دار کے تعلقات ہر جگہ اسی اصول کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم کو " پھول" لینا ہے تو ہم کو "کانٹے" کو بھی برداشت کرنا ہو گا۔ جس کے لئے کانٹے کی برداشت نہ ہو  اس کے لئے اس دنیا میں پھول کا مالک بننا بھی مقدر نہیں۔
 یہ ایک حقیقت ہے کہ تنہا آدمی کوئی بڑا کام نہیں کر سکتا۔ بڑا کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مطلوبہ کام کی پشت پر کئی آدمیوں کی صلاحیتیں ہوں۔ اسی ضرورت نے مشترک سرمائے کی کمپنیوں کا تصور پیدا کیا ہے۔ لیکن کئی آدمیوں کا مل کر کسی مقصد کی تکمیل کے لئے جدوجہد کرنااسی وقت ممکن ہے جب کہ اس کے افراد میں صبر اور وسعت ظرف کا مادہ ہو۔ وہ ایک دوسرے کو برداشت کریں۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے نہ الجھیں۔ وہ ناخوش گوار باتوں کو یاد رکھنے کے بجائے ناخوش گوار باتوں کو بھلانے کی کوشش  کریں۔ معیار پسندی بہت اچھی چیز ہےمگر جب معیار کا حصول ممکن نہ ہو تو حقیقت پسندی سب سے بہتر طریق  عمل ہوتا ہے۔

اقتباس:
کتاب: راز حیات از مولانا وحید الدین خان

انتخاب / ترتیب و تدوین: ابرار حسین گوجر

کوئی تبصرے نہیں: