پیر، 22 اگست، 2016

ماں جی اور "مام"

ماں جی اور "مام"

ماں جی کے لفظ میں محبت ، میٹھاس اور انسیت چھپی بیٹھی ہے۔ جب میں یہ لفظ ادا کرتا ہوں تو اطمینان و سکون محسوس ہوتا ہے ایسے لگتا ہے محبت کی آغوش میں جا بیٹھا  ہوں ، کچھ ایسے ہی" بابا جانی"  کہنے پر تحفط کا احساس ہوتا ہے۔ پتہ نہیں ہمارے ہاں  لوگوں نے ماما  (مام) اور   پاپا (ڈیڈ)  کہنا کب شروع کیا  اور کب ہم اس  پیارے ، عظیم اور خوبصورت جذبےو احساس سے محروم ہو ئے۔  کبھی ہم نے سوچا کہ ہر زبان کے الفاظ میں اس معاشرے کا رنگ ہوتا ہے، ہزاروں سال کا تہذیبی و ثقافتی پس منظراور  ورثہ لوگوں کے ذہنوں میں رچا بسا ہوتا ہے۔ معاشروں پر زبان کا گہرا اثر ہوتا ہے، آج جب ہم اپنی زبانوں (قومی اور علاقائی) کو کھو رہے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ ہم اپنی اقدار، تہذیب و ثقافت، روایات، رشتوں کی اہمیت و تقدس اور مشرقیت کو بھی کھوتے چلے جا رہے ہیں۔ جب لوگ کہتے ہیں اردو میں وسعت بیاں نہیں تو میں زیر لب مسکرا دیتا ہوں ، بات یہ نہیں کہ اردو یا مقامی زبانوں میں وسعت زباں نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ ہم اس سے ناتا توڑ چکے ہیں۔

اگر معاشرے کی اکائی خاندان  میں رشتوں کی بات کی جائے تو ہم تایا، چچا، پھوپھا، خالو، ماموں اور گلی میں آواز لگانے والے کو بھی انکل کہتے ہیں ، جبکہ ان تمام رشتوں کا الگ الگ  مقام و مرتبہ اور عزت ہے اسی طرح تائی، چاچی، پھوپھی، خالہ اور ممانی کو آنٹی۔  بھابی اور سالی دونوں سسٹر ان لاء، سالا اور سانڈو دونوں برادر ان لاء، داد- دادی ، نانا-   نانی  بالترتیب گرینڈ فادراور گرینڈ مادر۔

صاحبو ! سنتا ہوں کہ آجکل کی نسل میں ادب آداب تو ہیں ہی نہیں،  نہ عمر کا لحاظ ، نہ رشتوں کا احترام تو سوچتا ہوں ہم نے اپنی نسل کو جو سیکھایا وہی جھیل رہے ہیں تو پھر شکوہ کیسا؟  ایک بچے  کے لئے تایا، چچا، پھوپھا، خالو اور  ماموں بھی انکل ہیں اور گلی میں پھیری  لگانے والا بھی انکل۔۔۔ اسے کیا معلوم ان سب انکلوں کا الگ الگ مقام ہے، انکا مرتبہ اپنا اپنا ہے ، وہی بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو  تائی، چاچی، پھوپھی، خالہ اور ممانی اس کے لئے وہی حیثیت رکھتی ہیں جو محلے میں کمیٹی ڈالنے والی ،اس کے لئے سبھی برابر ہیں کیونکہ بچپن سے وہ ان سب کو آنٹی ہی کہتا آیا ہے۔ اس کے لئے تایازاد  چچا زاد  بہن ، خالہ زاد بہن ، پھوپھی زاد بہن   کے لئے شرم و حیا کا وہ تصور بن ہی نہیں سکا  کیونکہ  وہ سب کو کزن کی نظر سے دیکھتا ہے "اور کزنز میں تو   سب چلتا ہے"۔ مام، ڈیڈ،انکل، آنٹی، کزن  کا مفہوم ہمارے اردو الفاظ کے مقابلے میں ہو ہی نہیں سکتا اور نہ ہی عزت و احترام کی وہ نسبت قائم ہو سکتی ہے۔

اب اگر ہم اس سارے بکھیڑے کو سمیٹیں تو زیر نظر مثالوں  سے اس مسلئے کی حساسیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں :
"ہمارے معاشرے میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے "زنا"کی  جو کہ بغیر نکاح کے مرد و عورت کے تعلقات کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ اب اس لفظ کے سنتے ہی ہمارے ذہن میں جرم، سنگساری اور گناہ کبیرہ کا تصور ابھرتا ہےاور ہماری روح تک کانپ جاتی ہے مگر وہیں جب ہم "زنا" کی جگہ  "ریپ" کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں وہ گناہ کی شدت نہیں ابھرتی ہم اسے روز مرہ زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں اور ایک اخباری ہیڈ لائن سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔"
اسی طرح ایک اور مثال پیش خدمت ہے کہ " جب ہم یہ کہتے ہیں فلاں سودی کاروبار کرتا ہےیا سود کا لین دین کرتا ہے تو ہمارے ہاتھ کانوں کی طرف خود بخود اٹھ جاتے ہیں۔ فوراََ کہتے ہیں "اللہ معاف کرے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ؟" پھر بہت ساری احادیث مبارکہ اور وعیدیں ہمارے ذہن میں آتی ہیں مگر جب ہم اسی لفظ کو" انٹرسٹ" سے بدل دیتے ہیں تو وہ تصور ہی ختم ہو جاتا ہے۔ تمام احادیث ، تمام وعیدیں اور  قرآن کریم کے احکامات ایک طرف دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور ہم بینکوں کے ذریعے سود  لیتے بھی ہیں اور دیتے بھی ہیں ساتھ حج بھی کرتے ہیں،  روزے بھی رکھتے ہیں اور نمازیں بھی پڑتے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کے  ہمارا ذہن گناہ کو گناہ تسلیم کرنے سے ہی انکاری رہتا ہے"

یہ اخلاقی و مذہبی  زوال  بچوں نے نہیں ہم لوگوں نے خود پیدا کیا ہے بلکہ یقین کریں خریدا ہے اور خوشی خوشی خریدا ہے، اپنا خون پسینہ ایک کر کے خریدا ہے، اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں، آرزوؤں اور تمناوؤں کا گلا گھونٹ کر خریدا ہے مگر ہم کتنے کمزور و بے بس ہیں کہ اپنے کئے کا الزام دوسروں کے سر دھرتے ہیں، معصوم بچوں پر اسکا بوجھ ڈالتے ہیں مگر پھر خیال آتا ہے کیا واقعی اس سب کے ذمہ دار ہم والدین ہیں، ہمارے بچے ہیں یا کہ یہ معاشرہ ہے یا وہ ہمارے حکمران ہیں جنہوں نے اس جال میں ہمیں پھنسا یا ہے۔  اس اخلاقی و مذہبی  زوال کاحل کسی کے پاس نہیں اور حل تو تب ہو جب ہم اس کو مسئلہ سمجھیں ، جب ہم مرض کو مرض ماننے کو ہی تیار نہیں تو دوا کہاں۔۔۔

 1998 میں میں اپنے بڑے بیٹے ضیغم کی تعلیم کے لئے اپنی فیملی راولپنڈی لے آیا۔ اچھی تعلیم کی خاطر، اچھے مستقبل کی خاطر۔ میں اپنا گھر بار چھوڑ آیا، اپنے بوڑھے والدین کی آنکھوں میں وسوسے اور اندیشے چھوڑ آیا ، آتے وقت ماں بولی بیٹا تو ہماری فکر نہ کرنا یہ قریب ہی تو ہے راولپنڈی تو ضیغم کو پڑھانا چاہتا ہے ناں تو  ہم تمہارے ساتھ ہیں ،  بیٹا خوش رہنا  اور اپنی صحت کا بھی خیال رکھنا۔  بابا بس اتنا ہی کہہ سکے یار ابھی تو یہ صرف اڑھائی سال کا ہے اس کو کیا پڑھاؤ گے ابھی تو اسے ماں کی گرم گود کی ضرورت ہے، ابھی تو اسے اپنے دادے اور دادی کی ضرورت ہے ۔۔۔ چل جیسے تو کہتا ہے پر ہمیں ملوانے ضرور لانا ۔ راولپنڈی آنے کے بعد ہم نے دو کمروں،  ایک کچن اور ایک باتھ روم پر مشتمل سیٹ کرائے پر لے لیا ۔  اسے اچھے انگلش میڈیم سکول میں داخل کروایا ، اسکی ماہانہ فیس، سالانہ ایڈمشن فیس، کلر ڈیز اور مختلف ایکٹیوٹیز کے لئے درکار وسائل کے لئے  مجھے دن رات ایک کرنا پڑا،ایک کی جگہ دو دو نوکریاں کیں۔  مجھے اور میری بیوی کو روکھی سوکھی کھانی پڑی، اپنی خواہشوں کو دبانا پڑا مگر ہم خوش تھے کہ ہمارے بیٹے کا مستقبل اچھا ہو گا ۔ ہم خوش حال ہو جائیں گے ۔  اچھا وقت ضرور آئے گا۔

اب ضیغم اکیس سال کا جوان ہے۔ مگر اب محسوس ہوتا ہے وہ اور ہم اجنبی ہیں لگتا ہے، ہم الگ راہوں کے مسافر ہیں،  وہ کسی اور سیارے سے ہے اور ہم کسی اور سیارے سے، وہ کہتا ہے ڈیڈ میرے کلاس فیلوز کے والدین بہت امیر ہیں ، سلجھے ہوئے اور مہذب ہیں اور تم لوگوں کو تو زندگی گزارنے کا ڈھنگ ہی نہیں آتا۔ وہ انگلش گانے سنتا ہے، انگلش بولتا ہے، جینز اور ٹائٹ پہنتا ہے، سپائسیز / پف بناتا ہے، برگر اور پیزا پسند کرتا ہے، میں اور میری بیوی اسے دیکھتے ہیں اسے سنتے ہیں اور سوچتے ہیں ہم ضیغم کو یہی بنانا چاہتے تھے ؟ کیا یہی تعلیم دلوانا چاہتے تھے ؟ پھر ایک دوسرے کو دیکھ کر سر جھکا لیتے ہیں کیونکہ ہم نے یہ ماہ و سال بڑی تنگی و عسرت میں گزارے تھے۔ کبھی کبھی کہنے کو ہمارے پاس کچھ نہیں رہتا ۔


ماں جی کا کردار، انکا رویہ ، ان کے بات کرنے کا انداز ، معاملہ فہمی اور رکھ رکھاؤدیکھ  میں سوچتا ہوں یہ تعلیم انہیں کس انسٹیٹیوٹ سے ملی، یہ تربیت انہیں کس درسگاہ سے حاصل ہوئی، بابا جان کی وفات کے بعد ماں جی کو میں اپنے ساتھ راولپنڈی لے آیا، وہ مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے میری بات کی تہہ تک پہنچ گئیں بولیں بیٹا پریشان نہ ہو مسئلہ صرف " ماں جی اور مام " کا ہے اور کچھ نہیں ۔۔۔ 

تحریر: ابرار حسین گوجر 

کوئی تبصرے نہیں: