ہفتہ، 17 مارچ، 2018

23 مارچ اور حب الوطنی کے تقاضے


23 مارچ   اور حب الوطنی کے تقاضے
لفظ 23 مارچ،  پڑھنے اور سننے کے بعد جو غیر ارادی خیال سب سے پہلے آتا ہے وہ ہے "افواج پاکستان کی پریڈ"۔ میری ہم عصر  نسل کو قیام پاکستان کے حالات، مسائل، مصائب اور قربانیوں کا ادراک نہیں کیونکہ ہم نے وہ دور نہیں دیکھا اور نہ ہی ہمیں یہ اندازہ ہے کہ قیام کے بعد اس نوزائیدہ مملکت نے کیسے اپنی بقاء کی جنگ لڑی۔ مگربچپن کے وہ سنہری دن ضرور یاد ہیں جب مارچ کا مہینہ شروع ہوتے ہی ریڈیو اور ٹیلیویژن  پر ملی نغموں کی صدائیں گونجنیں لگتی تھیں۔ تحریک پاکستان کے قائدین سے متعلق پروگرام نشر ہوتے تھے اور وہ بزرگ جو تحریک آزادی میں حصہ لے چکے تھے اپنے اپنے ساتھ بیتے ہوئے واقعات سنایا کرتے تھے۔بچوں میں پاکستانی پرچم، ملی نغموں اور خوبصورت نعروں سے مزین بیجز خریدنے کا مقابلہ ہوتا تھا۔ گھروں پر پاکستانی پرچموں کی بہار سی آ جاتی تھی، وہ لمحات آج بھی میرے لئے بہت قیمتی ہیں جب میں نے پہلی بار اپنے گھر کی چھت پر اپنے دادا کے ساتھ پاکستانی پرچم لہرایا تھا ۔ مگر ہم بچے جس چیز کابیتابی سے انتظار کرتے تھے وہ تھی  23 مارچ کو "افواج پاکستان کی پریڈ"۔ 

پریڈ صبح سویرے شروع ہوتی تھی، آجکل کی طرح ہر گھر میں ٹیلیویژن  نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے محلے میں بھی صرف ایک گھر میں ٹیلیویژن  تھا  اور اس کے سامنے بچوں کا ہجوم۔۔۔ پاکستانی افواج کو نظم و ضبط اور چابک دستی کے ساتھ قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر پریڈ کرتے دیکھ کر ہر بچے کے دل میں یہ امنگ پیدا ہوتی تھی کہ وہ بڑا ہو کر ایسے ہی ملک کا محافظ بنے گا۔ پریڈ میں ہر بٹالین کا تعارف اور نعرہ بٹالین کے پریڈ ایونیو سے گزرنے کے دوران بتایا  جاتا۔  سارے بچے یہ معلومات غور سے سنتے اور پھر یہ نعرے کئی دنوں تک ہماری زبانوں پر رواں رہتے۔ سب سے دلچسپ اور دیدنی لمحات وہ ہوتے تھے جب خوبصورت یونیفارم اور سرخ ٹوپیوں میں ملبوس کمانڈوز "اللہ ہو" "اللہ ہو" کے نعروں کے ساتھ نمودار ہوتے ۔ میرے چشم تصور میں یہ واقعات  ایسے ہیں جیسے میں ابھی انہی بچوں میں بیٹھا  "اللہ ہو" "اللہ ہو" کے نعرے بلند کر رہا ہوں۔ مختلف بٹالین اور بینڈز کے بعد پریڈ ایونیو سے علاقائی فلوٹ گزرتے تھے۔  یہ فلوٹ پاکستان کے ہر علاقے کی نمائندگی کرتے تھے ، پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کے علاوہ آزاد کشمیر کا ثقافتی فلوٹ بھی ہوتا تھا۔

اس کے علاوہ سکولوں میں مارچ کے مہینے میں  پروگرام ہوا کرتے تھے جن میں ملی نغموں،  یوم پاکستان ، قائداعظمؒ،  علامہ محمد اقبالؒ  ، چوہدری رحمت علیؒ اور دوسرے تحریک  آزادی کے رہنماؤں کے بارے میں تقاریری اور  جدوجہد آزادی سے متعلق سوال و جواب کے مقابلے ہوتے تھے۔ایسے پروگراموں میں نہ صرف بچوں کو اپنے جوہر دیکھانے کا موقع ملتا تھا بلکہ انہیں اپنے ملک اور اپنی تاریخ سے متعلق بہت سی معلومات بھی ملتی تھیں اس کے ساتھ جذبہ حب الوطنی کی نموبھی  ہوتی تھی۔   حب الوطنی کے جذبات کو ابھارنے میں ملی نغموں کی اہمیت دو چند تھی۔ یہ نغمے زبان زد عام تھے ہر شخص انہیں گنگناتا اور اپنے دیس، اپنے وطن ، اپنی مٹی سے محبت کے جذبے سے سرشار رہتا تھا۔  آج بھی عالمگیر خان، نیرہ نور، میڈم نور جہاں، استاد نصرت فتح علی خاں، استاد امانت علی خان، مہدی حسن سمیت بے شمار گلوکاروں کے وہ نغمے جب سنتے ہیں تو جھومنے کا دل کرتاہے۔ چند ایک مقبول ملی نغموں کے بول یہ ہیں؛

چاند میری زمیں پھول میرا وطن
میرے کھیتوں کی مٹی میں لعل  یمن
چاند میری زمیں پھول میرا وطن

جگ جگ جئے      جگ جگ جئے
جگ جگ جئے      جگ جگ جئے
جگ جگ جئے      میرا پیارا وطن
جگ جگ جئے      میرا پیارا وطن
لب پہ دعا ہے       دل میں لگن

اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں،  ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں،  ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں،    ہم ایک ہیں
ایک چمن کے پھول ہیں سارے ایک گگن کے تارے، ایک گگن کے تارے

ہم زندہ قوم ہیں                پائندہ قوم ہیں
ہم سب کی ہے پہچان         ہم سب کا پاکستان
پاکستان پاکستان پاکستان         ہم سب کا پاکستان

خیال رکھنا          خیال رکھنا         خیال رکھنا
نئے دنوں کی مسافتوں کو اجالنا ہے،   اجالنا ہے
وفا سے آسودہ ساعتوں کو سنبھالنا ہے،  سنبھالنا ہے
خیال رکھنا          خیال رکھنا         خیال رکھنا

اے وطن تو نے پکارہ تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں

دل دل پاکستان جاں جاں پاکستان

یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ خواں اس کے

ماؤں کی دعا پوری ہوئی اور ہمیں،   اتنی پیاری دنیا میں گھر مل گیا
ماؤں کی دعا پوری ہوئی اور ہمیں،   اتنی پیاری دنیا میں گھر مل گیا
اللہ کا احسان ہے ہمارا پاکستان ہے
ہم آن ہم شان ہم اسکی جان ہیں         ہم پاکستان ہیں

محبت امن ہے اور امن کا ہے نام پاکستان
پاکستان  پاکستان، پاکستان پاکستان

نصرت فتح علی خاں کا یہ نغمہ ان دنوں کی یاد ہے جب واقعی ملک میں امن تھا، محبت تھی اور  پیار تھا ۔  آج جب ٹیلیویژن دیکھتا ہوں یا ریڈیا سنتا ہوں تو بے اختیار اپنے آپ سے یہ سوال کرنے کا دل کرتا ہےکہ۔۔۔  کہاں گئے وہ جذبے؟ کہاں گئے وہ شاعر اور کہاں گئیں وہ ملک سے محبت کا درس دینے والی مائیں ؟کیا ہمارے ملک کا شاعر، گلوکار، اداکار ، فلسفی، دانشور حالات کا شکار ہو گیا ہے؟  کیا اب ہم  کمرشل ازم کے اس دور سے گزر رہے ہیں جہاں بنیادی ملکی اساس بھی ہمیں گروی رکھنی پڑ رہی ہے؟

مجھے یہ کہتے ہوئے فخر کا احساس ہوتا ہے کہ پاکستان  کے مختلف علاقوں سے متعلق ، پاکستانی لوک کہانیوں، فوک میوزک اور رسم و رواج سے متعلق بنیادی معلومات جاننے میں ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلیویژن کا بہت بڑا کردار تھا۔  اس وقت کے پروگراموں میں حب الوطنی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی تھی۔ پاکستان کا تصور مثبت انداز میں دیکھایا جاتا تھا۔ آجکل جب ٹیلیویژن دیکھیں تو لگتا ہے شاید یہ کسی دوسرے ملک کا میڈیا ہے جو کہ ہماری تہذیبی، مذہبی اور ملی اقدار کے خلاف باقاعدہ پروگرام نشر کر رہا ہے۔ کیا خوبصورت کہانیاں ،اداکار اور پروڈیوسرز ہوتے تھے۔ دھواں،انگار وادی، ایلفا براؤو چارلی،  شہباز، ہوائیں، اندھیرا اجالا،وارث ، گسٹ ہاؤس،  ماروی، سونا چاندی، عینک والا جن، ففٹی ففٹی،  کسوٹی، انکل سرگم وغیرہ جیسے پروگراموں کی ایک لمبی لسٹ ہے جنہیں گھر بھر کے افراد دیکھتے تھے۔ آجکل آپ ٹیلیویژن خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔۔۔ خیر وقت بہت بدل گیا شرم و حیا کے معیار بدل گئے ہمارے حکمران اور وہ ادارے جنہوں نے میڈیا کے لئے پالیسیاں مرتب کرنی تھیں وہ ملی یکجہتی، حب الوطنی، مذہبی رواداری اور اخلاقی برتری کو ریٹنگ کی راہ کا پتھر سمجھ کر نوجوان نسل کی تربیت جدید خطوط پر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ہمارے ہاں اب ملک و ملت، دین اسلام اور افواج پاکستان کے خلاف بات کرنا، پروگرام کرنا اور ایسی سوچ کی آبیاری کرنا اہم فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارا میڈیا، ہمارے ادارے اور ہمارا تعلیمی نظام اب ایسے لوگوں کو ہی سپورٹ کرتا ہے کیونکہ اس کے پیچھے اربوں روپے کی غیر ملکی سرمایہ کاری کی جاتی ہے، این جی اوز کے ذریعے، واسطہ بلواسطہ طریقہ سے۔  (خیر یہ ایک الگ موضوع ہے اور ایک جامع تحریر کا متقاضی بھی)

زندہ قومیں اپنے قومی دن شایان شان طریقہ سے منایا کرتی ہیں ، اپنے محسنوں اپنے ہیروز کو یاد کرتی ہیں۔ اپنے آزدی کے واقعات اور جدوجہد کو آنے والی نسل تک منتقل کرتی ہیں ۔ ملکی سطح پر ایسی تقاریب، مجالس اور پروگرامز منعقد کئے جاتے ہیں جن میں نئی نسل کو یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جن کی وجہ سے ہمیں ایک نئی مملکت کی ضرورت پڑی، وہ کون سے حالات تھے جن میں ہم نے لاکھوں لوگوں کی قربانی دی مگر اپنے لئے الگ ریاست منتخب کی،  آزادی کے بعد ہم نے کس بے سروسامانی کی حالت میں سفر شروع کیا اور آج الحمدللہ دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی پہلی اٹامک پاور ہیں، ہماری افواج دنیا کی بہترین افواج ہیں، گوادر دنیا کی سب سے گہری پورٹ ہے، ریکوڈک جیسے معدنیات  اور قدرتی حسن سے مالا مال علاقے ہیں۔ ملکی میڈیا  اپنے عوام کے جذبات کا خیال رکھتا ہے، اپنی زبان، اپنی تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرتا ہے ۔ مذہبی اور ملی مفادات کا دفاع کرتا ہے اور نئی نسل کی نفسیاتی رہنمائی کرتا ہے۔ علاقائی زبانوں، فوک میوزک، ملکی و علاقائی روایات اور خوبصورتیوں کو اجاگر کرتا ہے۔ تاریخی معلومات کے لئے ڈاکومنٹریز، کوئز شو ، خصوصی ڈرامےاور اخبارات اسپیشل سپلیمنٹ شائع کرتے ہیں۔
  افسوس کہ ہم اب نہ معاشرتی طور پر محب الوطنی کا درس دیتے ہیں اور نہ ہی ہمارا میڈیا اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے۔اب 23 مارچ، 14 اگست اور دوسرے قومی دل ایسے گزر جاتے ہیں جیسے کسی کی برسی ۔۔۔۔ ہر طرف ہو کا عالم ہے،  نہ بچوں میں وہ جوش و خروش نہ بڑوں میں ملک سے ہمدردی اور محبت کا وہ جذبہ، ایک عجیب سے مایوسی، بد دلی اور شکستگی میرے ملک کے لوگوں پر مسلط کر دی گئی ہے۔ اس وقت ہمیں حب الوطنی کے جذبات کے فروغ  کی سب سے زیادہ  ضرورت ہے یہی وہ جذبہ ہے جو ایک قوم کو قوم بناتا ہے، اتحاد و یگانگت کی بنیاد فراہم کرتا ہے،  یہی وہ جذبہ ہے جو ہمیں ملک سے غداری کرنے سے روکتا ہے یہی وہ جذبہ ہے جو ہمیں وطن کے لئے تن من دھن کی بازی لگانے کی ترغیب دیتا ہے ۔

 بوجھل دل کے ساتھ اپنی قوم، میڈیا  اور اہل علم و دانش کے سامنے چند سوال رکھتا ہوں ؛
·       کیا ہمارا کردار ہمارے ملی جذبات کا آئینہ دار ہے  یا کیا ہم ذاتی مفادات کو ملک اور قوم کے مفاد پر قربان کرنے کو ترجیح دیتے ہیں؟
·       آج جس طرح ہماری نوجوان نسل ہلہ گلہ کر کے قومی دن مناتی ہے کیا ہم نے اس سلسلے میں ان کی تربیت کی ہے یا کبھی اس بارے میں انفرادی و اجتماعی سطح پر سوچا ہے؟
·       کیا میڈیا اپنا کردار بخوبی نبھا رہا ہے ( جذبہ حب الوطنی،  مذہبی راواداری، فوک میوزک  اور لوک داستانوں کو فروغ دیتا ہے، ملکی تہذیب و ثقافت اور  زبان  کا دفاع کرتا ہے)؟
·       کیا حکومت وقت کی ترجیحات  نوجوان نسل کی تربیت کے حوالے سے واضح ہیں اور وہ اس سلسلے میں نظام تعلیم اور میڈیا کا استعمال ٹھیک طریقے سے کر رہی ہے؟
·       کیا ہم جس نہج پر اپنے بچوں کی تربیت کر رہے ہیں ، تعلیم کا نصاب مرتب کر رہے ہیں، وہ ہماری بنیادی اساس سے مطابقت  رکھتا ہے؟

اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو سمجھ لیں ہم غلط سمت آگے بڑ ھ رہے ہیں اور  محب الوطنی کے تقاضوں پر پورا نہیں اتر رہے۔ یہ ہمارے پالیسی سازوں، دانشوروں، سیاستدانوں، سپاہ سالاروں اور عوام   کے لئے ایک الارمنگ صورتحال ہے۔

تحریر: ابرار حسین گوجر

کوئی تبصرے نہیں: