ہفتہ، 17 مارچ، 2018

اچھی تربیت


اچھی تربیت:
آپ کا رویہ، آپ کا طرز عمل اور آپ کا انداز بیاں آپ کی تربیت کا عکاس ہوتا ہے۔  میں جب اپنے معاشرے اور معاشرتی رویوں پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم دن بدن اخلاقی انحطاط کا شکارہوتے جا رہے  ہیں۔ ہمارے نوجوانوں میں ادب آداب، رکھ رکھاؤ اور مروت کا شعور نہیں ہے۔ ہماری مستقبل کی ماؤں کو طریقہ سلیقہ، اولاد کی پرورش، اولاد کی نشونما، گھر کی ذمہ داریوں سے متعلق کوئی تربیت نہیں ۔ معاشرے میں گھر، درس گاہ اور ماحول وہ تین تربیت گاہیں ہیں جہاں نئی نسل کو تربیت دی جاتی ہے، جہاں  اسے مستقبل کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ بدقسمتی سے آج یہ تینوں ادارے میڈیا کے زیر اثر ہیں اور اپنے بنیادی فرائض سے عہدہ براء نہیں ہو رہے۔ آج الیکٹرانک میڈیا جو کچھ دیکھا رہا ہے کیا وہ مواد ہماری تہذیب،ہمارے رسم و رواج،  ہمارے مذہب اور ہمارے ملکی وقار سے ہم آہنگ ہے؟ کیا آج ٹیلی ویژن کے پروگرام ایک خاندان اکھٹے مل کر دیکھ سکتا ہے؟ کیا اس کمرشل ازم کے دور میں ہم نے اپنی شرم و حیا ، عزت و حمیت اور حب الوطنی بھی داؤ پر نہیں لگا دی؟
ایک وقت تھا پاکستان میں جینز پہننے کو بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا اور آج ہماری خواتین اور نوجوانوں کے پہناؤں کو دیکھ لیں ۔

تو یہ سب کیسے ہوا یہ سب میڈیا کاکمال ہے سب سے پہلے اس نے ان نظریات کا پرچار کیا جن سے ہماری اقدار، ہمارے رسم و رواج، ہمارے مذہبی عقائد اور ہمارے ملی جذبات سرد پڑ گئے ۔ پہلے پہل ہم ان واہیات پر کسمسائے، ہلکا سا احتجاج کیا، پھر ہماری شرم و حیا کمرشل ازم کی نظر ہو گئی اور ہم نے کن اکھیوں سے مارننگ شوز، رمضان ٹرانسمیشن اور انعامی پروگرام دیکھنے شروع کر دئیے۔ چند لوگ صرف خبر نامہ دیکھتے تھے ملٹی نیشنل برانڈز نے ان کے لئے بھی سامان زیت میسر کر دیا۔ اب معذرت کے ساتھ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہم پوری طرح میڈیا کے رنگ میں رنگے گئے ہیں، ہم ماڈرن ہو گئے ہیں، ہم تہذیب یافتہ کہلانے کے قابل ہو چکے ہیں۔

دو احادیث مباکہ پیش خدمت ہیں:
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا " شرم و حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے۔"
عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ایک مرتبہ) کسی انصاری صحابی کے پاس سے گذرے اور (ان کو دیکھا) کہ وہ اپنے بیٹے کو حیا کے بارے میں نصیحت کر رہے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ (حیا کے بارے میں) اس کو (نصیحت کرنا) چھوڑ دو اس لئے کہ حیا ایمان میں سے ہے۔

شرم و حیا ایمان کا حصہ اور شاخ ہے ، جس میں شرم و حیاء نہیں وہ جو چاہئے کرے۔ آج کی بے راہ روی اور اخلاقی تنزلی  کی بنیادی وجہ بھی یہی ہےکہ ہمارے معاشرے سے شرم و حیاء رخصت ہو گئی ہے۔ آنکھ کا پانی سوکھ گیا ہے دل مردہ اور بے حس ہو چکے ہیں۔

پہلی تربیت گاہ ہے گھر ! تو جناب گھر میں جب تک ماں سمجھدار، مہذب اور حکمت  والی نہیں ہو گی اور والد جدید دور کا ادراک نہیں کرے گا بچوں کی بہتر تربیت ممکن نہیں اور ہم نے ماؤں کی اس سمت تربیت کرنا، تعلیم دینا ہے چھوڑ دی ہے۔ اب بچہ گود میں ہوتا ہے تو مارننگ شوز، ڈراموں اور فیشن شوز سے اس کی تربیت شروع ہو جاتی ہے۔ بڑوں کا ادب، بزرگوں کی بات سننا  اب بچوں کی تربیت کا حصہ نہیں رہا۔ دادی دادا، نانی نانا بے شک گھر میں کسی سے بات کرنے کے لئے ترستے رہیں مگر سارے بچے مصروف ہوں گے کوئی ٹی وی دیکھ رہا ہے کوئی فیس بک پر ہے کوئی ٹیوٹر پر ٹرولنگ کر رہا ہے کوئی لیپ ٹاپ پر اپنی پسندیدہ فلم دیکھ رہاہےمگر اسے گھر میں کسی سے بات کرنے کی فرصت نہیں ہو گی۔ آجکل کی مائیں اس معاملے میں بچوں کی بھر پور معاونت کرتی ہیں۔ دوسری بات   ماؤں کو اس بات کی تربیت ہی نہیں کہ بچوں کو کس عمر میں کیا سیکھانا ہے۔ وہ کیا غذا کھائیں گے تو ان کی نشونما بہتر طور پر ہو سکے گی۔انہیں کیاپہنایا جائے انہیں خاندان اور رشتہ داروں سے کیسا تعلق رکھنا چاہئے۔  معاشرے میں ایک عام فقرہ سنا ہو گا آپ نے کہ ہماری بچیاں پڑھ رہی ہیں اس لئے گھر کا کام کرنے کے لئے تو عمر پڑی ہے کرتی رہیں گی۔  جو کام ان کے ذمے نہیں اس کے لئے سولہ سال تعلیم اور جو ذمے ہے اس کے لئے اتنی لاپرواہی ؟

دوسری تربیت گاہ سکول ہے آجکل بچہ جب سکول جاتا ہے تو پلے گروپ، منٹسوری سسٹم یا طریقہ تعلیم میں انتظامیہ کا ٹیچرز کے لئے ایک ہی معیار ہےکہ انگلش روانی سے بولنی آتی ہو اور لباس کے معاملے میں خوش ذوق ہو کیونکہ بقول انتظامیہ میک اپ اور فیشن کے بغیر مائیں تو بچے گھر میں بھی چھوڑ کے آتے ہیں اس لئے جاذب نظر اور پرکشش ٹیچرز ہی روشن مستقبل کی ذمہ دار ہیں۔  اس پر ہر ادارے  کا سلیبس اپنا اپنا ہے اور سلیبس بھی ایسا جس سے آنے والی نسل/بچے پڑھ  تو لیتے ہیں مگر والدین، مذہب اور اپنی مٹی کے نہیں رہتے ان کی جڑیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ وہ گھر والوں کے لئے اجنبی ہوتے ہیں اور گھر والے ان کے لئے اجنبی۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
 نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ہم

تیسری تربیت گاہ ہے ماحول ہے، اس وقت گھر، سکول کے بعد بچے گراؤنڈ کا یا مسجد کا رخ نہیں کرتے وہ وقت ہوا ہوئے جب "خلیل میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے" اب بچوں کا بیشتر وقت ٹی وی، کارٹون چینلز، سوشل میڈیا اور ویڈیو گیمز  (کمپیوٹر بیس) کھیلنے میں گزرتا ہے ۔ دوستوں یاروں سے بھی وہی ڈراموں/ فلموں اور پروگراموں کی باتیں ، نئے نئے فیشن، فیس بک پر بھی من مرضی کے دوست اور یہی دوستیاں آجکل رنگ لا رہی ہیں۔ نوجوان پڑھے لکھے لڑکیاں لڑکے انتہاء پسند تنظیموں کے ممبرز ہیں، ڈرگ سوسائیٹیز کے ممبر ہیں، ہم جنس پرستی اور لادینیت سے متاثر ہیں۔

دوستو! کسی نہ کسی کو تو یہ ذمہ داری اٹھانی ہو گی ، خدا راہ حکومت وقت اگر نہیں جاگ رہی تو آپ کی تو اولادیں ہیں آپ جاگیں اور اپنے بچوں کو وقت دیں ان کے ساتھ ان کے مسائل پر بات کریں۔انہیں اپنے دین، مذہب، رسم رواج اور تہذیب کے بارے میں بتائیں۔ مگر آپ کیسے بتائیں گے آپ تو خود اس رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ مگر یاد رکھیں بہترین رنگ تو اللہ والوں کا ہے ۔وہی رنگ اختیار کریں گے تو کامیابی ہو گی ورنہ ہمہ  رنگ تو ہو جائیں گے لیکن یک رنگی  نصیب نہیں ہو گی۔

تحریر:  ابرار حسین گوجر


کوئی تبصرے نہیں: