پیر، 18 جولائی، 2016

ترک انقلاب سرخ انقلاب

ترک انقلاب سرخ انقلاب، تحریر ابرار حسین گوجر
اگر لیڈر، رجب طیب اردگان جیسا ہو تو  عوام ٹینکوں کے آگے لیٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے  اور عوام ساتھ ہوں تو بلٹ والے بیلٹ والوں کے مدمقابل ٹھہر نہیں سکتے۔ 15 جولائی کی شب ترک عوام نے ترکی کی تاریخ بدل دی انہوں نے فوج کو اپنی بیرکوں میں واپس جانے پر مجبور کیا جسے اقتدار کا چسکا پڑا ہوا تھا۔ رجب طیب اردگان نے 14 سالوں میں ایسی اصلاحات کیں کہ جن سے عوام کا معیار زندگی بلند ہوا اور اقوام میں ترکی کی شناخت تیزی سے ترقی کرنے والی ریاستوں کے طور پر ہونے لگی۔ ترکی وہ ملک ہے جہاں چند عشرے قبل فوج اور سیکولرازم کے خلاف بات کرنے سے متعلق   سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا مگر رجب طیب اردگان نے میئر شپ سے لیکر صدارت تک بتدریج ایسی پالیسیاں اپنائیں کہ عوام تمام تر پروپیگنڈہ کے باوجود ان کے گرویدہ ہوتے چلے گئے،  یہ عوام کی طاقت ہی ہے کہ آج ترکی امریکہ جیسی قوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کر رہا ہے۔
16 جولائی کی صبح جب میں نے خبریں دیکھیں تو ششدر رہ گیا ۔ تین باتیں میرے لئے انتہائی حیران کن تھیں ؛

1. عوام کا بڑی تعداد میں گھروں سے نکلنا اور ان کے ہاتھوں باغی فوجیوں کی درگت
2. ترک لیڈر شب کا بہادری سے ڈٹے رہنا 
3. سازش میں فتح اللہ گولن کا نام آنا

عوام کے ہاتھوں باغی فوجیوں کی درگت
1. عوام کا بڑی تعداد میں گھروں سے نکلنا اور ان کے ہاتھوں باغی فوجیوں کی درگت
حکومت نے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر کام کیا ہو اور ان کے معیار زندگی کو بہتر کرنے کے لئے اقدامات کئے ہوں تو نتائج وہی ہوتے ہیں جو 15 جولائی کی شب کو ہمارے سامنے آئے۔ باغی فوجیوں کی بڑی تعداد نے اہم عمارتوں سمیت ائرپورٹس اور سرکاری میڈیا پر قبضہ کر لیا، انہوں نے ترک آرمی چیف سمیت متعدد جرنلز کو نظر بند کر دیا،  سوشل میڈیا ویب سائیٹس بند کر دی گئیں، موبائل سروس معطل کر دی گئی حتہٰ کہ اعلان کر دیا کہ ملک پر فوج کا قبضہ ہے اور اب ملک کا نظام و انصرام ایک امن کونسل چلائے گی۔  جبکہ ان کے پاس  ٹینک، گن شپ ہیلی کاپٹر ، جیٹ طیارے بھی تھے۔ لیکن جب عوام کی بڑی تعداد کرفیو  کی پروا کئے بغیر گھروں سے باہر آ گئی اور انہوں نے فوج کے باغی گروپ کو مجبور کر دیا کہ وہ سرنڈر کر دیں۔ عوام فوجی ٹرکوں اور ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے (یہ مناظر ناقابل فراموش تھے)  اس کے ساتھ ساتھ ترک پولیس کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل تھا کہ انہوں نے  بہت سارے مقامات پر باغی فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ رجب طیب اردگان کی اپیل پر لوگ جوک در جوک شاہراہوں، چوکوں اور تقسیم سکوائر میں جمع ہوئے اور اس سازش کو ناکام بنا  دیا،  یہ فتح ترک عوام کی فتح تھی ، فتح کے بعد عوام نے ٹینکوں کے سامنے سیلفیاں لیں۔

ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم
2. ترک لیڈر شب کا بہادری سے ڈٹے رہنا 
دوسری حیران کر دینے والی بات ترک لیڈر شپ کا رویہ تھا۔ ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم ملک کے اندر تھے اور انہوں نے واضح طور پر فوجی بغاوت کی مزمت کی اور کہا کہ حکومت ابھی تک ہمارے ہاتھ ہے اور ہم اس بغاوت سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں، ترک صدر رجب طیب اردگان جو کہ غیر ملکی دورے پر تھے انہوں نے اپنے ویڈیو پیغام کے ذریعے عوام کو کہا کہ وہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں انہیں کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی، انہوں نے کہا "دشمنوں کے پاس چالیں ہیں اور میرے پاس اللہ ہے" ان کی ولولعزمی اور بہادری دیکھئے کہ تین بجے استبول ائرپورٹ پر اترے اور اپنے خطاب میں کہا کہ "باغی قوتوں نے عوام کی گنیں عوام پر ہی تان لی ہیں" لیکن ہم اقتدار حاصل کرنے کی تمام کوششیں ناکام بنا دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترک اپوزیشن جماعتوں نے بھی تخت الٹنے کے کھیل کی بھرپور مذمت کی اور حکومت کے شانہ بشانہ اس کی مدد کی ۔

گولن تحریک کے سربراہ فتح اللہ گولن
3. سازش میں فتح اللہ گولن کا نام آنا
گولن تحریک کے سربراہ فتح اللہ گولن جو آجکل امریکہ کے شہر پنسلوینیا میں مقیم ہیں, ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ان پر فوجی بغاوت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ "ترکی ایسا ملک نہیں جس کو پنسلوینیا میں بیٹھ کر چلایا جائے".  گولن تحریک نرم انقلاب کی حامی صوفی تحریک ہے جس کا اثرورسوخ ترکی میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہے, ان کے لوگ ہر فیلڈ میں ہیں جبکہ میڈیا چینلز اور اخبارات بھی فتح اللہ گولن کی ملکیت ہیں. گولن تحریک کے تحت ترکی سے باہر بھی تعلیمی اور سماجی ادارے کام کر رہے ہیں, گولن تحریک اور رجب طیب اردگان مل کر کام کرتے رہے ہیں اور آک پارٹی کو پرموٹ کرنے میں گولن تحریک کے لوگ پیش پیش رہے. 2013 میں گولن تحریک اور حکومت کے اختلاف شدت اختیار کر گئے, جس کی وجہ سے فتح اللہ گولن امریکہ میں خود ساختہ جلاوطنی کاٹنے پر مجبور ہوئے. فتح اللہ گولن کا اور ان کے حامیوں کا اس سازش میں ملوث ہونے کے بارے ميں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا گولن اور اس سازش کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے. اس الزام کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ بغاوت کرنے والوں کے تمام جہاز اس ائرپورٹ سے اڑے جو امریکی حکام کے کنٹرول میں تھا. اگر یہ الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو یہ بات بلکل واضح ہو جائے گی کہ حکومت چاہے جمہوری ہو یا ڈکٹیٹرز کی ہو اسلام کی بات کرنا, اسلام کے اصول و ضوابط نافذ کرنا جرم ہے, ملک چاہے افغانستان ہو, مصر ہو یا ترکی...



عوام کا  رترک صدر رجب طیب اردگان کے ساتھ اظہار یکجہتی

فتح کے بعد خاتون ٹینک کے سامنے سیلفی لیتے ہوئے

عوام کے بڑی تعداد کی شرکت سرخ ترکی جھنڈوں کے ساتھ

باہر حال اس تمام بحث سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ جس جمہوری حکومت کے ساتھ اس کے عوام ہوں سازشیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں, دوسری بات تقسیم سکوئر میں ترک عوام کے ہاتھوں میں سرخ جھنڈے اس قدر تھے کہ مجھے اس واقع کو "ترک انقلاب سرخ انقلاب" کا نام مجبوراً دینا پڑا. 

ابرار حسین گوجر

4 تبصرے:

کامران شہزاد کہا...

بے شک یہ ترک عوام کی ایک عزیم فتح تھی کہ انہوں نے سازشیوں کو منہ توڑ جواب دیا اور کامیابی سے اپنے حقوق کا دفاع کیا، بہت اچھی تحریر تھی

منیر احمد کہا...

فتح اللہ گولن اور ترک حکومت کے اختلافات ملکی نوعیت کے ہیں جبکہ اس معاملے میں امریکہ کا ملوث ہونا بھی بعید نہیں، آپ کا یہ بلاگ بہت عمدہ ہے۔

Abrar Hussain Gujjar کہا...

کامران صاحب بہت شکریہ پسندیدگی کا.. امریکہ اس وقت تمام اسلامی ممالک میں دخل اندازی کر رہا ہے۔ شام, عراق,افغانستان, پاکستان, ایران اور سعودی عرب میں سے کونسا ملک اس سے محفوظ ہے؟

Abrar Hussain Gujjar کہا...

فتح اللہ گولن کی تحریک ًًگولن تحریکً جسے تحریک حزیمت بھی کہتے ہیں,پوری دنیا میں ہے اور پاکستان میں بھی پاک ترک سکول اسی تحریک کا حصہ ہیں,ان کا اس سازش میں نام آنا معمہ ہے