اتوار، 17 جولائی، 2016

میراث


قدم کھیتوں کی گیلی اور ہل چلی مٹی سے ابھی بغلگیر نہ ہوئے تھے کہ نتھنے مٹی کی مانوس خوشبو سے بھر گئے, یہ سوندھی سی خوشبو اس کے روئیں روئیں کو مہکا گئی. وہ مٹی کی اس بو کا شیدائی تھا جو بارش کے بعد یا کھیتوں میں ہل چلانے کے بعد آتی تھی. 

سبحان آج ہی شہر سے آیا تھا وہ بہت خوش تھا کیونکہ اس نے میڑک کا امتحان پاس کر لیا تھا. گھر پہنچتے ہی اس نے دادا جان کا پوچھا یہ جان کر کے وہ کھیتوں میں ہیں اس نے ایک لمحہ بھی رکنا گوارہ نہ کیا اور سیدھا کھیتوں کی طرف آ گیا.

یہ بات اسوقت کی ہے جب گاؤں کے لوگ اپنے بچوں کو پانچ سال کی عمر میں سکول داخل کروا آتے تھے اور پھر میٹرک کے بعد سرٹیفکیٹ لینے کے لئے ہی سکول کی خستہ حال عمارت کا دیدار کرتے تھے, کچھ بچے اپنے والدین کو اس بیکار کی مشقت سے بچا لیتے, کیونکہ وہ میٹرک سے پہلے ہی سکول کو خدا حافظ کہہ چکے ہوتے.

سبحان احمد کو اس کے دادا جان نے دیکھا تو ان کا پسینے سے شرابور چہرا کھل اٹھا, وہ سرخ وسفید رنگ کے بڑے باوقار بزرگ تھے. انہوں نے دیہاڑی داری کر کے گھر چلایا, اپنے تینوں صاحبزادوں کو اچھی تعلیم دلوائی بیٹیوں کی اچھی تربیت کی, شہر میں جائیداد بنائی ان کے ہم عصر ان سے جہاں حسد کرتے تھے وہیں ان پر رشک بھی کیا کرتے. گاؤں میں لوگ ان سے مشورہ لینے آتے یا کسی کو مدد چاہئے ہوتی تو اسے انہیں کے در سے امید ہوتی, غرض ان کے گھر آنے جانے والوں کا تانتا بندھا رہتا.

سبحان احمد ان کی جان تھا وہ کہتے ہیں کہ "اصل سے سود پیارا" تو واقعہ ہی اپنے بیٹوں سے زیادہ پیارا انہیں یہ پوتا تھا۔ سبحان احمد بھی ان سے بہت پیار کرتا تھا اسے ماں باپ کے پیار کا پتہ ہی نہ تھا اس کے دادا اس کی کل کائنات تھے, وہی اس کی ماں تھے اور وہی اس کے باپ....

دادا جان نے پیل (کھرپا) ایک طرف رکھا داری دار صافے سے اپنا پسینہ صاف کیا, (سورج کی کمزور ہوتی کرنوں میں وہ بہت خوبصورت لگ رہے تھے) اور سبحان احمد کے لئے اپنے بازو پھیلا دیے وہ دوڑتا ہوا ان سے لپٹ گیا, یہ منظر جب ڈھلتے سورج نے دیکھا تو ڈبڈبا گیا, ہر لمحہ جامد وساقط ہو گیا چیڑیوں کی چہچہاہٹ دور کہیں بہت دور سے سنائی دینے لگی اور درخت محبت کا یہ لمحۂ مہویت سے دیکھنے لگے...

وہ دادا پوتا دنیا مافیا سے بے نیاز تھے دادا جان نے سبحان احمد کا ماتھا چوما, ہاتھ چومے گال چومے اپنے سینے سے لگایا, پھر دیکھا پھر سینے کے ساتھ بھینچا سر پہ ہاتھ پھیرا... اسی اثنا میں سبحان احمد نے بے تابی سے اپنے پاس ہونے کی خبر سنائی ساتھ ہی اپنے فیصلے سے آگاہ کیا کہ اب میں کام سیکھوں گا اور آگے نہیں پڑھوں گا.
دادا جان نے اپنا داری دار صافہ زمین پر بچھایا سبحان احمد کو پاس بیھٹایا اور اسے کہنے لگے بیٹا آج میں بہت خوش ہوں کہ تم نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا ہے.
آؤ میں تمہیں آج ایک راز کی بات بتاتا ہوں.
بیٹا تمہیں معلوم ہے مال و دولت اور جائیداد کیا ہے؟ 
سبحان احمد نے بتایا کہ دادا جان یہ جو ہمارے پلاٹ ہیں, کوٹھیاں ہیں, ہماری زمین ہے, کھیت ہیں, باغ ہیں, چراہ گاہیں ہیں اور ان پر سونا اگلتی جو فصلیں ہوتی ہیں یہ ہماری جائیداد ہے, جاگیر ہے۔
پھر اس نے سینہ پھلا کر فخر سے کہنا شروع کیا جو اس جائیداد سے, فصل سے اور کاروبار سے آمدن ہوتی ہے وہ مال و دولت بھی ہمارا ہے۔

دادا جان نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور بولے بیٹا تم نے ٹھیک کہا یہ سب کچھ ہمارا ہے, میرا, تمہارا تمہارے باپ اور تائے چاچوں کا...
لیکن سنو! 
یہ سب جائیداد, مال ودولت عارضی ہے آج ہمارے پاس ہے کل شاید نہ ہو, اسے تقسیم کریں تو کم ہوتی ہے, اسے خرچ کریں تو گھٹتی ہے۔ دنیا کے سارے فساد اسی سے شروع ہوتے ہیں۔ یہ عزت دیتی دلاتی بھی ہے اور ذلیل و رسوا بھی کرتی ہے۔
سبحان احمد بہت غور سے دادا جان کی باتیں سن رہا تھا. دادا جان نے کہا جس شخص کے پاس موجود ہو ڈر اور خوف اس کے دل میں بسیرا کر لیتے ہیں, چھین جانے کا ڈر  کھو دینے کا خوف, اپنوں اور پرائیوں سے ڈر, شک کی پرچھائیاں ہر وقت پیچھا کرتی رہتی ہیں. جس کی وراثت میں یہ مال ودولت آتا ہے یہ تمام بیماریاں بھی اس کو ساتھ تحفہ میں مل جاتی ہیں۔

میاں سبحان ایک دولت ایسی بھی ہے جو خرچ کرنے سے بڑھتی ہے, جسے تقسیم کیا جائے تو اس میں اضافہ ہوتا ہے, جو بانٹی جائے تو کمی نہیں ہوتی. جو پاس ہو تو کوئی چھین نہیں سکتا اور اس کے ہونے سے خود اعتمادی اور عزم پیدا ہوتا ہے۔
تمہیں معلوم ہے وہ کونسی دولت ہے؟
سبحان احمد نے نفی میں سر ہلایا تو دادا جان آہستہ سے گویا ہوئے میرے بچے علم کی دولت, تعلیم کا زیور اور آگائی کی جاگیر تم سے کوئی نہیں لے سکتا, کوئی چھین نہیں سکتا اور کوئی چرا نہیں سکتا. 
بیٹا سبحان ایک بات اور حکمت, فہم اور دانائی کی میراث سب کے حصہ میں نہیں آتی اور جس کے حصہ میں آتی ہے اسے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی.
آج دادا جان کو گزرے عرصہ ہو گیا تھا مگر ان کی میراث سے جو حصہ اسے ملا اس نے اسے دنیا والوں کی محتاجی سے آزاد کر دیا...

ابرار حسین گوجر 

4 تبصرے:

Unknown کہا...

MashaAllah bohat aachi tehreer ha

Abrar Hussain Gujjar کہا...

فاطمہ بخاری صاحبہ! آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میری اس ادنا سی کاوش کو پسند کیا. میں آئندہ بھی آپ کی مثبت آرا اور فیڈ بیک کو خوش آمدید کہوں گا.

Bint E Hawa Gujjar کہا...

(nice effort keep it up (Y

Abrar Hussain Gujjar کہا...

بہت شکریہ بنت حوا گوجر کہ آپ نے اس تحریر کو پسند کیا