جمعہ، 30 دسمبر، 2016

کہانی اپنی اپنی


کہانی اپنی اپنی

جب میں نے کہہ دیاکہ " یہ ہے"  تو پھر " یہی ہے"۔   
اس کی یہ بات سن کر میں حیران رہ گیا ۔۔۔ اس کی عمر ابھی تین سال تھی ، کل سکول میں اسکا پہلا دن تھا ۔ ہم دونوں دادا پوتا  گرمی اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے چھت پر بیٹھے تھے ۔  موسم بہت خوشگوار تھا دن کو شدید گرمی کے بعد ابھی آسمان بادلوں کے درمیان کہیں کہیں دکھائی دیتا  تھا ، چاند آنکھ مچولی کھیل رہا تھا کبھی بادل اسے ڈھانپ لیتے اور کبھی وہ شوخ حسینہ کی طرح دعوت نظارہ  دیتا۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی جو کہ ٹھنڈی تھی محسوس ہوتا تھا کہ مضافاتی علاقوں مری یا کہوٹہ میں بارش ہوئی ہے مگر پنڈی میں بارش کا ابھی کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا۔
میں نے عبداللہ سے پوچھا بتاؤ اگر تم شیر ہوتے تو کیا کرتے؟
اس نے کہا میں ہرن کو کھا جاتا۔۔۔
میں نے اس کے بالوں پر انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا ۔۔۔ اگر تم ہاتھی ہوتے تو کیا کرتے؟
اس نے کہا میں گھاس کھاتااور دادا میں اپنی  سونڈ سے فرقان اور مشعل کو دور پھینک دیتا
میں مسکرایا۔۔۔ اور پوچھا  اچھا بتاؤ اگر تم ستارے ہوتے تو کیا کرتے؟
میں دور آسمان پر چمکا کرتا اور آپ ماما کو بتاتے وہ  عبداللہ ہے
ہاہاہاہا۔۔۔  میں اپنی ہنسی روک نہ سکا
پھر میں  نے اس سے پوچھا اگر تم پانی ہوتے تو کیا کرتے؟
تھوڑی دیر اس نے سوچا پھر خوشی سے بولا "آپ کی چھت پر کھڑا ہوتا"
میں نے کہا کیوں بھئی میری چھت پہ کیوں؟
وہ بگڑ کر بولا ۔۔۔ جب میں نے کہہ دیاکہ " یہ ہے"  تو پھر " یہی ہے"۔  
میں اسے شفقت  سے دیکھنے لگا، میرے چہرے پر اس کے لئے دلآویز مسکراہٹ اور میرے سینے میں محبت ہی محبت تھی ۔۔۔
اسی دوران عبداللہ کو جانے کیا سوجھی کہ وہ اپنی ماما کی طرف بھاگ گیا ۔
میں نے آسمان پر نظر دوڑائی۔۔۔۔تو  مجھے آسمان پر بہت سارے تارے ٹمٹماتے نظر آئے۔  پاس پاس  کہکشاں کی صورت، دور دور اکیلے اکیلے، کچھ واضح  روشن اور چمکدار، کچھ مدہم پھیکی پھیکی چمک والے۔ آج میں بہت دیر تک انہیں اسی طرح ٹمٹماتے دیکھتا رہا  مگر کوئی تارہ  ٹوٹ کے بھاگا نہیں ۔۔۔ مجھے یاد ہے جب بچپن میں ہم اپنے کچے گھر کی چھت پر (گاؤں میں) رات کو ستارے دیکھتے تھے تو اچانک کوئی تارہ اپنے ہم عصروں سے روٹھ جاتا اور بھاگ نکلتا، ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا تھا مگر ہوتا تھا۔ ہم اکثر اس ٹوٹے تارے کو دیکھنے کے لئے آسمان پر نظریں  گاڑھے رکھتے۔
میرے خیالات گڈ مڈ ہونے لگے۔ ایسے ہی خیال آنے لگا کہ ہم انسانوں کی زندگی بھی تو ایسی ہی ہے۔ ہزاروں، لاکھوں بلکہ اربوں انسان ۔۔۔ مذاہب، قوموں، علاقوں، نسلوں، فرقوں اور ممالک  میں تقسیم کہکشاہوں کی صورت ہیں۔ کچھ ممالک، اقوام اور علاقوں کے لوگ اپنے آپ کو ترقی یافتہ، مہذب خیال کر کے آسمان دنیا پر پوری آب و تاب سے چمک رہے ہیں اور  کچھ ممالک، اقوام اور  علاقوں کے لوگ بمشکل سانسوں کا زندگی سے رشتہ قائم رکھے ہوئے ٹمٹما رہے ہیں۔
کچھ ستاروں میں اتنی روشنی ہوتی ہے کے وہ ہزاروں پر فوقیت لے جاتے ہیں یہی بات انسانوں پر بھی صادق آتی ہے جبکہ کچھ ستارے سمت کا اور کچھ وقت کا  پتہ دیتے ہیں ہمارے ہاں کچھ انسان بھی ہزاروں انسانوں کو انکی سمت اور وقت کی نزاکت کا احساس دلاتے ہیں۔  انہی جلوؤں میں کہیں دور اکیلا، اداس ، پژمردہ ستارہ  دکھائی دیتا ہے، ہمارے ہاں بھی الگ تھلگ، منفرد، تنہا پسند، دنیا کی گہما گہمی سے دور اپنے آپ میں مگھن بہت سارے لوگ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔  یوں بھی ہوتا ہے کہ اچانک کوئی تارہ اپنے ہم عصروں سے روٹھ جاتا اور بھاگ نکلتاہے تو ہم انسانوں میں بھی کوئی کب داغ مفارقت دے جائے کچھ اندازہ نہیں ہوتا، اس کے لئے جوان بوڑھے ،بچے بڑے، مرد عورت، ضعیف و تندرست کی کوئی قید نہیں ۔ بچھڑنے والا کب بچھڑ جائے کسی کو معلوم  نہیں ۔
ابھی میں انہی خیالات میں تھا کہ مجھے ایک اور خیال آیا ۔۔۔
سارے ستارے چمکتے ہیں مگر ہر ایک کی چمک دوسروں سے جدا ہوتی ہے بلکل ایسے ہی جیسے  کسی انسان  میں شوخی ہوتی  ہے اور کسی میں حیاء کی لالی، کوئی بے باک ہوتا ہے جبکہ کوئی وضعدار،  کچھ لجپال ہوتے ہیں اور  کچھ سبھی ضابطوں سے آزاد، سمجھدار اپنی پہچان بناتے ہیں اور شاطر اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔ مگر ایک بات میں میں الجھ گیا ۔ جب مجھے یہ سوچ آئی کہ کیا ہماری طرح ہر ستارے کی بھی" کہانی اپنی اپنی"  ہوتی ہو گی؟ وہ بھی اپنے اپنے دکھ درد کسی سے کہے بغیر ، اپنی گھتا کسی کو سنائے بغیر ، اپنی مجبوریاں کسی کو بتائے بغیر مسکراتے مسکراتے موت کی اندھی اور بے رحم وادیوں میں چلے جاتے ہوں گے؟
" کہانی اپنی اپنی" 
جیسے۔۔۔ہاں جیسے۔۔۔ گزری زندگی کے بہت سارے واقعات ، آج نظر دوڑاتا ہوں تو بہت سارے کردار اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ میرے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
 ماں جی
ماں جی پورے محلے کی ماں جی تھیں۔۔۔ محلے میں سبھی انہیں ماں جی کہتے تھے ، مجھے نہیں معلوم کہ سب انہیں ماں جی کیوں کہتے تھے؟  اور کب سے کہتے آ رہے تھے؟ مگر محلے کا بچہ بچہ انہیں ماں جی ہی کہتا تھا۔ شادی کے بعد جب میں اور  ماہین اس محلے میں شفٹ ہوئے تو پہلا تعارف ماں جی سے ہی ہوا۔ اس وقت محلے میں چند ایک گھر تھے۔ ہمارا مکان ماں جی کے مکان کے پڑوس میں تھا۔ جب ہم گھر کا سامان اتار رہے تھے تو ماں جی اپنے گھر کی دیوار پر اوپلے لگا رہی تھیں ۔۔۔ دوپہر کا وقت تھا، ابھی ہم نے سامان گاڑی سے اتار کر کمروں میں رکھا ہی تھا کہ ماں جی ۔۔۔ بالٹی میں دودھ لئے ساتھ ابلے ہوئے چاولوں کا تھا ل لئے آ پہنچیں،  مجھے اور ماہین کو تھماتے ہوئے بولیں۔ بیٹا میں نے کہا بچارے اب  سامان رکھیں گے یا کھانا بنائیں گے۔ ۔۔۔ گھر میں سالن کچھ نہیں بنا ہوا تھا بس یہ چاول ابلے ہوئے تھے سو یہی لے آئی ۔۔۔ ماہین نے کہا ماں جی کیوں تکلیف کی آپ نے ۔۔۔ ماں جی بولیں ارے بیٹا تکلیف کیسی، رستا بستا گھر ہے، ہم دو جیوں کو کھانا نہ دے سکیں تو کیا فائدہ ۔۔۔۔ یہاں قریب کوئی ہوٹل بھی تو نہیں ہے ناں۔ "پتر بندہ ہی بندے کا دارو ہے" وہ تھوڑی دیر بیٹھیں پھر یہ کہہ کر رخصت ہو گئیں تم لوگ میرے بچوں جیسے ہو کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو بتانا۔
ماں جی ہمت واستقامت کا استحارا تھیں، عاجزی ان میں بدرجہ اتم موجود تھی۔انہیں  بلکل آرام نہیں تھا دو بھینسیں رکھی ہوئی تھیں، میاں  ادھر محلے میں ہی سبزی کی دکان کرتے تھے۔ ماں جی  گھر کا سارا کام کرتیں، ٹیوب ویل سے پانی لاتیں ، بھینسوں کی دیکھ بھال کرتیں  ، ونڈہ بناتیں،  دودھ دھوتیں، بچوں کی دیکھ بھال کرتیں، فارغ وقت میں سلائی کڑھائی بھی کرتیں   اور پھر سارے محلے میں بھی انکی نظر ہوتی تھی ۔ ہر دکھ  بیماری میں انہیں بلایا جاتا، ان سے مشورہ لیا جاتا، بچوں کی شادی بیاہ کے معاملات طے نہیں پاتے تھے جب تک ماں جی کی تصدیق نہ ہو جاتی۔ وہ اپنے مکان  کی دوسری منزل بنوا رہی تھیں  کہ اسی دوران ہارٹ اٹیک سے انکے میاں دار  فانی سے رخصت ہو گئے۔
وقت گزرتا گیا انہوں نے ہمت نہ ہاری محنت کرتی رہیں اپنے پانچوں بیٹوں کو خوب پڑھایا۔ ہر وقت اپنے بچوں کے کاموں میں مصروف رہتیں ، انکی تعلیم کے اخراجات پورے کرنا، انکو  کتابوں کاپیوں کا مہیا کرنا،انکے کھانے پینے کا خیال رکھنا، انہیں کسی چیز کی کمی نہ ہونے دینا ہی انکا مشن تھا ۔آخر کار ان کے  بڑے بیٹے کو محکمہ ریلوے میں  نوکری مل گئی ۔ وہ دن کو دو بجے جاتا اور رات بارہ – ایک بجے تک واپس آتا۔ ماں جی کہیں بھی ہوں بچوں کے جانے کے وقت گھر پر ہوتیں انہیں کھانا کھلاتیں، نظر اتارتیں اور پھر الوداع کرتیں اسی طرح دن کی جتنی بھی تھکی ہاری ہوں رات کو بیٹے کی واپسی کے وقت  ان کی آنکھ خود بخود کھل جاتی اور وہ اسے پانی پلاتیں کھانا اپنے ہاتھوں سے بنا کر کھلاتیں۔ دن اسی طرح گزرتے گئے ا ن کے تین بیٹوں کو اچھی جاب مل گئی، اب انہوں نے بھینسیں بیچ دیں۔ بیٹوں میں سےبڑے بیٹے کی  شادی کر دی، دوسرےاور تیسرے  بیٹے کا رشتہ اپنے بھائیوں  کے گھر سے کیا۔ اب وہ خوش اور مطمئن تھیں۔
  اسی دوران میرا تبادلہ ہو گیا اور میں فیصل آباد چلا گیا ، میں نے بہت کوشش کی مگر دوبارہ واپس راولپنڈی مجھے نہ بھیجا گیا  دو سال بعد اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت  سے نوازہ اور بیٹے  کی پیدائش ہوئی، میں نے اپنے آفس میں بھی میٹھائی تقسیم کی، اسی موقع پر میرے باس نے مجھ سے پوچھا کیا تم راولپنڈی جانا چاہتے ہو؟ میں جھٹ سے بولا جی بلکل ۔۔۔۔میرے والدین ، رشتہ دار سب ادھر ہیں میں بہت کوشش کر چکا ہوں مگر کامیاب نہیں ہو سکا اگر آپ اس سلسلے میں مدد کر سکتے ہیں تو یہ مجھ پر آپکا احسان ہو گا۔ مجھے یقین تھا وہ ضرور میری مدد کریں گے مگر دن، ہفتے اور مہینے گزرتے گئے اور میری امید ناامیدی میں بدلتی گئی۔ آخر کار میں نے اس بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا۔ دو ماہ پہلے میرے راولپنڈی ٹرانسفر کے آرڈر آ گئے مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔  مگر حقیقت یہی تھی اب میں واپس راولپنڈی جا رہا تھا۔
دس سال بعد جب راولپنڈی واپس آیا تو ماہین کہنی لگی آپ ہر بات پر ماں جی۔۔۔ماں جی۔۔۔کرتے رہتے ہیں۔ آج ماں جی سے ملنے چلتے ہیں۔ میرا اپنا بھی بہت دل چاہتا تھا۔ اس لئے ماں جی کو ملنے  چل پڑے۔ دیکھا تو دس سال میں محلہ ہی تبدیل ہو گیا ہے ۔ سارے گھر دو تین منزلہ ہو گئے ہیں ، گلیاں  پختہ اور سیوریج زیر زمین کر دی گئی ہے۔ ماں جی کے گھر پہنچے تو ماں جی صحن میں چارپائی ، جس پر پرانی سی چادر بچھی تھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ بہت کمزور اور نحیف لگ رہی تھیں۔ہم ملے حال احوال پوچھا ۔۔۔۔
وہ ہمیں گھر کے اندر لے کر گئیں۔ سارے کمرے بند تھے۔ وہ بتانے لگیں بیٹا اب کے یہاں کی دنیا ہی بدل  گئی ہے۔ بڑے تینوں بیٹوں نے اپنے اپنے گھر بنا لئے ہیں، اب کبھی کبھار آتے ہیں۔ دو بیٹے میرے ساتھ رہتے ہیں ۔  میں نے دیکھا ماں جی کے چہرے پر عمر کی نہیں فکر کی جھریاں نمایا ں ہیں۔ ہمیں انکی کسی بہو نے سلام کرنا گوارہ نہیں کیا، پوچھا تو ماں جی بولیں بیٹا نیا زمانہ ہے اب لوگ اپنے اپنے کمروں میں بند ہو کر رہنا پسند کرتے ہیں۔ وہ ماں جی جو محلے بھر کے کام آتیں تھیں آج مجبور و لاچار تھیں۔ انکے کمرے میں ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی تھی  اور ایک کرسی، وہ اٹھ کر ہمارے لئے چائے بنانے لگیں مگر ہم نے منع کر دیا۔کھانے کے وقت ایک بچہ آیا میلی سی چنگیر میں روٹی اور سالن لئے ہوئے۔ اس نے ماں جی کے آگے روٹی رکھی اور بولا "ماما کہہ رہی تھی روٹی کھا کر پلیٹ دھو دیجئے گا میں ذرا  باہر جا رہی ہوں"،  ماں جی کے منہ سے الفاظ نہ نکلے مگر آنکھوں پر کس کا زور چلتا ہے ۔   ہم آدھا گھنٹہ وہاں بیٹھے نہ وہ کچھ بولیں نہ ہم سے کچھ کہا گیا۔مگردرودیوار چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے  کہ  " کہانی اپنی اپنی" ہے، نہیں معلوم کب ختم ہو جائے۔
ایک فریدہ بی بی بھی تھی ماہین کی دوست ۔۔۔۔
"نئی زندگی"
فریدہ  بی بی گھر پہ راج کرتی ہے۔ گھر میں اسکا مقام ماں جیسا ہے، گھر میں کیا محلے بھر میں اس کی سمجھداری کے  چرچے ہیں۔ سب اسکی عزت اور احترام کرتے ہیں۔ کسی نے کچھ خریدنا ہو، بیٹی کے رشتے کی بات کرنی ہو، میاں کے ساتھ لڑائی جھگڑا ہوگیا ہو،  سسرال والے تنگ کرتے ہوں، محلے کی صفائی پر ہنگامہ ہو،  بھائیوں کی آپس میں ان بن ہو گئی ہو، پڑوسیوں کے ساتھ زمین کا تنازعہ ہو۔۔۔۔  غرض کوئی بھی مسئلہ ہو فریدہ بی بی کی خدمات سب کے لئے حاضر ہوتی  ہیں۔ گھر میں بھی اس کی ساس کے مرنے کے بعد اب تمام دیکھ بھال فریدہ بی بی ہی کرتی ہے۔  دو نندیں ، تین دیور ، دو جیٹھ اور انکی بیویاں  اور بچے (کوئی درجن بھر)،  ہر ایک اسے سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے ۔ کوئی بھی بات ہو اسکی بات کو اہمیت دی جاتی ہے اور اس کے فیصلے کے آگے کوئی چوں چراں نہیں ہوتی ۔ اسکی بیٹی  سعدیہ ماشاء اللہ اٹھارہ سال کی ہو گئی ہے، وہ  اب ایف ایس سی  پاس کر چکی  ہے۔ بلکل اپنے باپ پر گئی ہے، ذہین، ہنس مکھ، بے باک۔۔۔   دیکھنے والی ہر آنکھ یہی دیکھ رہی ہے کہ فریدہ سے زیادہ خوش قسمت اور کوئی نہیں مگر فریدہ بی بی کو کیا روگ ہے وہ وہی جانتی ہے۔
 سلیمان چوڑے فراخ  ماتھے کا مالک، نکلتی  ہوئی قد وقامت ،  لمبے لمبے ہاتھوں کی مخروطی انگلیاں، خوبصورت ریشمی بال، مسکراہٹ سے  لبریز ہونٹ،   چال ڈھال میں بے نیازی ،معاملہ فہمی اور حکمت اسکی ذات کا حصہ،  رحمدلی اور محبت اسکی شخصیت کا خاصہ ، جب ملتا تو گرمجوشی سے ملتا،  جب بات کرتا تو حکمت و تدبر سے کرتا ، ناگوار باتوں کو درگزر کر دیتا۔۔۔   وہ سبھی کو عزت و احترام دیتا اور فریدہ کو اس نے دل و جان سے چاہا، اپنایا،  اپنا سب کچھ اس پر وار دیا۔  جواب میں فریدہ نے بھی اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیا ، وہ بھول گئی کہ یہ دنیا ہے آزمائشوں کی دنیا، حقیقتوں کی دنیا، مصیبتوں کی دنیا، فنا ہونے والی دنیا جہاں کسی چیز کو بقا نہیں، ہمیشگی نہیں ۔۔۔ مگر وہ بھول گئی،اسے یاد تھا تو بس اتنا کہ اس کی دنیا سلیمان اور سلیمان کی دنیا وہ ہے۔
فریدہ ابھی میٹرک کے امتحانات سے فارغ ہی ہوئی تھی کہ اس کی سلیمان کے ساتھ شادی ہو گئی۔  سلیمان بہت اچھا لڑکا تھا ۔۔۔ ذہین، ہنس مکھ، بے باک۔۔۔  اسکی اور فریدہ کی  شادی کے ایک سال بعد سعدیہ پیدا ہوئی،  دونوں بہت خوش تھے۔ شادی والدین کی مرضی سے ہوئی تھی مگر نکاح  کی برکت سے ان میں اتنا پیار ہو گیا جس کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔۔۔ یہ محبت سعدیہ کے پیدا ہونے  سے دو چند ہو گئی۔ فریدہ سلیمان کو دیکھ دیکھ کر جیتی تھی تو سلیمان  بھی  ہر وقت اسی کادم بھرتا تھا۔  پیار کرنے والوں میں جدائی مقدر ہوتی ہے یا کوئی اور وجہ ہے کے وہ بہت جلد بچھڑ جاتے ہیں فریدہ اور سلیمان  بھی جدا ہو گئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔۔۔بس وہی دن تھا جب فریدہ ۔فریدہ سے فریدہ بی بی ہو گئی۔
فریدہ کی ساس اس کااور سعدیہ کا  بہت زیادہ خیال رکھتی تھی، گھر میں کوئی بھی فیصلہ کرنا  ہو وہ اسکی رائے کو اہمیت اور  ہر معاملے میں اسے عزت دیتی تھی۔ جبکہ سعدیہ کی پرورش بھی ناز و نعم سے ہو رہی تھی۔ جب بھی کوئی سلیمان کی بات کرتا وہ گلوگیر اور دکھی ہو جاتی اور اس کی آنکھوں سے چھم چھم آنسو گرنے لگ جاتے تھے، یہی صورتحال فریدہ کی بھی تھی اسے سلیمان کی جدائی نڈھال کر دیتی تھی، وہ اسے بہت یاد آتا ، اسکی باتیں، اسکی مسکراہٹ، اسکا ہر ہر انداز اسے رلا دیتا۔ کوئی دن نہیں گزرتا تھا جب اسکی اور اسکی ساس کی آنکھیں سلیمان کی یاد سے نہ بھیگی ہوں۔
 دن ، ہفتے اور مہینے گزرتے گئے ، سلیمان کو گزرے ہوئے سال ہو گیا۔ ایک دن  فریدہ کا باپ اس کے پاس آیا  اور کہنے لگا بیٹا اس باپ کا دکھ جس کی جوان بیٹھی بیوہ ہو گئی ہو، کوئی نہیں جانتا ۔  میں زمانے کے نشیب و فراز سے گزر چکا ہوں، گرم سرد سہا ہے، زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کیا ہے۔ تمہاری عمر ابھی پانچ سال تھی کہ تمہاری والدہ ایک جان لیوہ مرض سے  زندگی کی بازی ہار گئی۔ آج تک کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب میں نےاس کے لئے رب کے حضور ہاتھ نہ اٹھائے ہوں ، بیٹا  میں جانتا ہوں تم بھی سلیمان کو کبھی بھول نہیں سکو گی مگر رب کے فیصلوں کے آگے سر جھکانے کے سوا کو ئی چارہ نہیں ہوتا، دکھ کتنا بھی گہرا ہو صبر کرنا ہی پڑتا ہے اور وہ جو دکھ دیتا ہے مرہم بھی وہی رکھتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکیلی عورت کا زندگی گزارنا بہت مشکل ہے اسے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، ایک مضبوط سہارے کی ضرورت اور اس میں شک نہیں کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا سہارا اور پردہ ہوتے ہیں۔تمہیں ابھی شاید میری باتیں عجیب لگ رہی ہوں مگر یہ زندگی کا بے نقاب  چہرہ ہے ہمیں وقت کے ساتھ ساتھ بہت سے نقاب الٹنے پڑتے ہیں اور ہر نقاب کے ساتھ کچھ اچھی بری یادیں ہماری زندگی کا حصہ بن  جاتی ہیں۔ ہمیں ان اچھی بری یادوں کے ساتھ آگے بڑھنا ہوتا ہے ۔ فریدہ میں چاہتا ہوں تم  اپنے آپ کو زمانے اور دوسروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑو بلکہ اپنی زندگی کو دوبارہ شروع کرو،  ہاں  "نئی زندگی"۔  اس دوران فریدہ کا دامن اس کے آنسوں سے تر ہو چکا تھا، اسکے والد سے بھی مزید کچھ نہ کہا جا سکا ۔۔۔۔ انہوں نے اسے اپنی باہوں میں بھینچا اور ان کے رخسار سے ایک قطرہ لڑک کر اس کے تر دامن میں جذب ہو گیا۔
فریدہ کے والد اسکی ساس کے پاس گئے جو رشتے میں انکی پھوپھی زاد بہن بھی تھیں ، انہوں نے ان سے فریدہ کے مستقبل کے حوالے سے بات کی ، انہوں نے کہا بھائی صاحب آپ کی بات بجا ہے فریدہ اس سلسلے میں جو بھی فیصلہ کرے ہمیں منظور ہو گا  مگرسعدیہ  سلیمان  کی نشانی ہے اگر فریدہ شادی کرتی ہے تو سعدیہ کی پرورش میں خود کروں گی اور اگر وہ ہمارے ساتھ رہتی ہے تو اسے کبھی بھی انشاء اللہ کسی چیز کی کمی نہیں ہو گی۔ فریدہ اوٹ میں یہ ساری باتیں سن رہی تھی وہ ابھی سلیمان کی جدائی سےنڈھال تھی کہ سعدیہ کی جدائی کا سوچ کر کانپ اٹھی۔ وہ کمزور سی اور  خاموش  رہنے والی  لڑکی، فیصلوں کو من و عن مان لینے والی فریدہ اٹھی اور اپنی ساس اور والد کے قدموں میں جا بیٹھی اور بولی بابا میں نے شادی نہیں کرنی میں سلیمان سے جدا ہونے کے بعد اب سعدیہ سے بچھڑنا نہیں چاہتی۔ بس مجھے میرے حال میں رہنے دیں اب  کوئی بھی اس بارے میں بات  نہ کرے۔
اس دن کے بعد اس کی ساس اسے اپنے بیٹوں سے زیادہ اہمیت دیتی ،اس نے اپنے پانچوں بیٹوں کو کو بلایا اور کہا تم پانچوں ہر مہینے پانچ پانچ ہزارروپے اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ کو دو گے،اپنی بھتیجی  کی تمام ذمہ داریاں  ادا کرنا تمہارا فرض ہے اپنی ماں کے ساتھ کئے گئے وعدے کو کبھی فراموش نہ کرنا۔ اس واقع کے دو سال بعد اسکے والد اور تین سال بعد اسکی ساس  فوت ہو گئے۔ آج بھی اس کو اس کے دیورو  جیٹھ ماہانہ خرچہ دیتے ہیں، سعدیہ کی تعلیم پر اٹھنے والے تمام اخراجات  برداشت کرتے ہیں اور گھر میں جو فیصلہ فریدہ بی بی کرتی ہے وہی سب مانتے ہیں۔ اسکی بیٹی  سعدیہ ماشاء اللہ اٹھارہ سال کی ہو گئی ہے، وہ  اب ایف ایس سی  پاس کر چکی ہے۔ بلکل اپنے باپ پر گئی ہے، ذہین، ہنس مکھ، بے باک۔۔۔  دیکھنے والی ہر آنکھ یہی دیکھ رہی ہے کہ فریدہ سے زیادہ خوش قسمت اور کوئی نہیں ۔۔۔
فریدہ  بی بی کو کیا روگ ہے وہ وہی جانتی ہے۔ 
اسے سعدیہ کے سر پر باپ کا  شفقت بھرا  ہاتھ نہ ہونے کا دکھ ہے ، اسے اپنے گزرے ماہ و سال کا دکھ ہے۔ اسے راتوں کو نیند نہیں آتی، اسے سلیمان کی یادیں سونے نہیں دیتیں، سلیمان کی باہوں کے حصار کا سوچ کر اب بھی  اس کے چہرے پر لالی دوڑ جاتی ہے۔ اسکی ویران آنکھیں اب بھی سلیمان کے ذکر سے چمکنے لگتی ہیں۔اس کی شادی شدہ زندگی کے "ڈیڑھ سال" اسکی تمام زندگی پر اثرانداز ہیں  مگر ایک لمحے کے لئے اسے اسکا باپ یاد آیا جس نے اسے ایک "نئی زندگی" شروع کرنے کا کہا تھا اس نے محسوس کیا کہ اگر اسے آج ایک ڈیڑھ سالہ بیوہ کو کوئی مشورہ دینا پڑے تو وہ اسے کیا کہے گی ؟   اس نے سوچا اسے لگا وہ وہی  مشورہ دے گی جو اسکے باپ نے اسے دیا تھا ، "نئی زندگی" شروع کرنے کا مشورہ۔

گردش ایام
طاہر  میرا دوست تھا  ،لنگوٹیہ یار۔
زندہ دل ، کھاتا پیتا،   ہنستا مسکراتا، زندگی جینے والا شخص۔ وہ یاروں کا یار ،   بلا کا ذہین اور شرارتی ۔
بچپن ہی سے مشینوں کا شوقین تھا ہر ایک چیز کو غور سے دیکھنا ، اسے کھول کر اس کا آپریشن کرنا اسکا پسندیدہ مشغلہ تھا۔  جتنے کھلونے  اسے ملتے انہیں کھول کر واپس جوڑنے کی ناکام کوشش کیا کرتا۔ گھر میں موجود بیٹریاں، ٹیلیفون ، ریڈیو اورٹیلی ویژن   تک اس کی فنکاری کی بھینٹ چڑھ جاتے۔  اس معاملے میں اس نے ماسی رحمتے سے مار بھی بہت دفعہ کھائی اور  وہ اپنے ماں باپ کا لاڈلہ بھی بہت تھا ۔سنا ہے کہ وہ ماسی رحمتے کو شادی کے آٹھ سال بعد  پیدا ہوا تھا ، وہ بھی بڑی منتوں مرادوں کے بعد ۔۔۔ اس کےبعد اس کے  پانچ بہن بھائی ہوئے۔  پہلوٹی کا ہونے کیوجہ سے اس کے والدین اسے بہت لاڈ پیار دیتے اس کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کرتے۔ ماسی رحمتے کی ہر بات طاہر  سے شروع ہوتی اور طاہر  پر ہی ختم ہوتی۔ کوئی بچہ پیارا لگتا تو کہتیں یہ تو بلکل میرے طاہر  جیسا خوبصورت ہے، کوئی ذہین ہوتا تو کہتیں ماشاء اللہ طاہر  بھی اس کی طرح ہر کلاس میں فسٹ آتا ہےاللہ نظر بد سے بچائے، کسی کو بات کرتے دیکھتیں تو کہتیں آج کل کے بچے بھی کتنی پکی باتیں کرتے ہیں میرا طاہر  اتنی بڑی بڑی باتیں کرتا ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ میٹرک کا طالبعلم ہے۔ وقت گزرتا گیا ماسی رحمتے اور چچا فضل دین کا طاہر  میٹرک کے امتحان میں پورے چک میں پہلے نمبر پر آیا۔
ہم دونوں کے والدین  نے آپس میں صلاح  مشورے کے بعد اصغر مال کالج ، راولپنڈی میں ہمارا ایڈمیشن  کروا دیا ۔طاہر  نے کالج میں بھی اپنا نام پیدا کیا ، وہ نہ صرف نصابی دوڑ میں آگے تھا بلکہ غیر نصاب سرگرمیوں کا بھی محور تھا۔ والی بال کا بہت اچھا کھلاڑی تھا سالانہ کھیلوں کے مقابلوں میں کالج کی والی بال ٹیم ہمیشہ پہلی پوزیشن حاصل کرتی رہی جب تک وہ اس ٹیم کا حصہ رہا۔اس کا جسم مضبوط ، بٹا ہواتھا۔  قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے وہ  خود بھی والی بال ہی دیکھائی دیتا تھا ۔  کالج کے بعد شام کو دوکان پر فریج ،اے سی اور ائیرکنڈیشنر کا کام سیکھتا ، پیدائشی تجسس کی وجہ سے وہ بہت جلد یہ کام جان  گیا ۔ کالج سے فارغ ہونے کے بعد اسے ایک ادارے میں جاب مل گئی ،  میں کالج سے فارغ ہونے کے بعد تقریبا ڈیڑھ سال تک بیروزگار اور در در کی ٹھوکریں کھاتا رہا  پھر اسی کی کوششوں سے مجھے بھی جاب مل گئی۔ اس دوران اس نے اپنی ٹیکنیکل فرم رجسٹر کروالی اور وہ پارٹ ٹائم اے سی انسٹالیشن اور  ریپئرنگ  کے ٹھیکے لینے لگا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسکی فرم راولپنڈی / اسلام آباد کی مشہور فرموں میں شمار ہونے لگی اور جتنی اسکی تنخواہ تھی اس سے  دس گنا وہ اپنے بزنس سے کما لیتا۔ گھر میں روپے پیسے کی ریل پھیل ہو گئی، شروع میں ایک پوش علاقے میں گھر کرائے پر لیا پھر کچھ ہی سالوں میں اپنا گھر بنا لیا ۔  ماسی رحمتے اور چچا فضل دین کو بھی اپنے ساتھ لے آیا ، انہوں نے غربت کو بہت قریب سے دیکھا اور جھیلا تھا  اس کی کامیابی اور ترقی پر جہاں وہ خوش تھے وہیں بہت فکر مند بھی تھے کے کہیں اللہ تعالیٰ ان نے ناراض ہی نہ ہو جائے۔ وہ ہر وقت عبادت میں مشغول رہتے اور اپنے بیٹے کے لئے دعائیں کرتے رہتے۔ ماسی رحمتے  چک جاتیں تو غریب خاندانوں کی خاص طور پر مدد کرتیں کسی کی بیٹی کی شادی ہو، کسی کی کوئی فوتگی ہو ماسی رحمتے پہنچ جاتیں اور ضرورت کے مطابق مدد کرتیں۔ وہ کہتیں یہ اللہ کا دیا ہے اسی کے بندوں پر خرچ کرنا ہمارا حق بنتا ہے۔
طاہر نے اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا جتنا روپیہ پیسہ تھا اس سے اپنے بہن بھائیوں کو پڑھایا لکھایا اور ان کی شادیاں کیں  ۔ تینوں بھائیوں نے اپنی اپنی فیلڈ میں نام کمایا۔ طاہر سے چھوٹا بھائی ہائیر ایجوکیشن کے لئے امریکہ گیا وہیں  پریکٹس کی، وہیں سیٹل ہو گیا، اب امریکہ کا نامی گرامی ڈاکٹر ہے۔ اس سے چھوٹا بھائی پڑھائی کے بعد یونیورسٹی آف لاہور میں لیکچرر تعینات ہوا ، ذہین اور محنتی تھا بہت جلد طلباء و طالبات میں مشہور ہو گیا اور اب پروفیسر کی پوسٹ پر ہے۔  تیسرے بھائی نے  ذاتی بزنس کو ترجیح دی اور امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار میں محنت کی اور اس وقت روئی کا بہت بڑا ایکسپورٹر ہے،  اس نے  اپنے بزنس کی وجہ سے کراچی میں مستقل رہائش اختیار کر لی اور وہی اپنی کمپنی کا ہید آفس بنایا۔ طاہر سے چھوٹی بہن نے میتھ میں ماسٹر کیا اور اسکی شادی خالہ زاد سے ہو گئی جبکہ سب سے چھوٹی بہن جو کہ سب کی لاڈلی تھی اس نے سافٹ ویئر انجینئرنگ کی اور اپنی پسند کی شادی یونیورسٹی  فیلو سے کر لی۔  سب بہن بھائی اپنے اپنے گھروں کے مالک ہو گئے، اپنی اپنی مجبوریوں کے تحت الگ الگ شہروں اور ملکوں میں سیٹل ہو گئے مگر اکیلا رہ گیا تو طاہر ۔۔۔ وہ طاہر جس نے سب کو ماں باپ کی طرح پالا ۔۔۔ اپنے کمائی ہوئی پائی پائی انکی تعلیم ، کاروبار اور انکی پرورش پر لگا دی ۔۔۔۔ ہاں ،  انہیں اندھیروں سے بام عروج تک پہنچانے والا طاہر۔
ماسی رحمتے نے بڑی دھوم دھام سے طاہر  کی شادی اپنی بھانجھی سے کروائی ،طاہر بھی اسکو پسند کرتا تھا۔ شادی کے دس سال اسکی اولاد نہیں ہوئی دس سال بعد طاہر کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئے۔ بڑا بیٹا ابھی سات سال کا تھا کہ طاہر کی  بیوی کو بلڈ کینسر ہو گیا ۔ وہ ایک سال تک زندہ رہی اور پھر اسکی اسی مرض سے وفات ہو گئی۔ماسی رحمتے کو اپنی بھانجھی اور بہو کی موت کھا گئی اور وہ بھی چھ ماہ بعد فوت ہوگئی۔  طاہر دو پیار کرنے والوں سے محروم ہو گیا مگر اس نے ہمت نہیں ہاری۔۔۔۔ وہ زندگی کی جدو جہد میں آگے بڑتا رہا۔ 
فائز انٹرمیڈیٹ  میں تھا جب اس کی سب سے چھوٹی پھوپھی رضوانہ کی شادی ہوئی اور اس شادی کے ساتھ ہی گھر بلکل سونا سونا ہو گیا۔ گھر میں چچا فضل دین، طاہر اور  تین بچے   رہ گئے۔چچا فضل دین سے طاہر کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ بچے ابھی چھوٹے تھے، طاہر کو بزنس اور  جاب  کے ساتھ بچوں کی دیکھ بھال بھی کرنی ہوتی تھی۔ جس سے اسکا بزنس بہت متاثر ہو رہا تھا۔ چچا فضل دین اور ہم سب کولیگز نے طاہر کو دوسری شادی کا مشورہ دیا ۔انہی دنوں چچا فضل دین کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ان کی وفات سے طاہر بلکل نڈھال ہو گیا۔ اب اس کے لئےمینج کرنا مشکل ہو گیا۔ اسی دوران وہ اپنی چھوٹی بیٹی کا رزلٹ لینے اس کے سکول گیا کہ وہاں اسکو بیٹی کی کلاس ٹیچر سے بات کرنے کا موقع ملا ۔ بات ہوتے ہوتے گھریلو زندگی تک پہنچی تو دونوں نے محسوس کیا کہ وہ دونوں ہی حالات کے ستائے ہوئے ہیں اور بہت سی باتیں دونوں مین مشترک ہیں مگر دونوں میں عمر کا بہت فرق تھا، شمائلہ 25 سال کی تھیں جبکہ طاہر 40 سال کا مگر دیکھنے میں 30 سالہ جوان لگتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انکی مزید ملاقاتیں ہوئیں اور عمر کے فرق کے باوجود انہوں نے شادی کا فیصلہ کیا۔ اس طرح طاہر نے چچا فضل دین کی وفات کے ایک سال بعد شمائلہ سے شادی کر لی۔
شمائلہ کو فائز نے قبول نہیں کیا ، وہ حساس ہونے کے ساتھ اپنی والدہ کو بہت یاد کرتا تھا  یہی وجہ تھی کہ اس نے اس شادی کا اثر لیا جسکی وجہ سے وہ  نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گیا۔ شمائلہ بھی حالات کا درست اندازہ نہیں لگا سکی اور طاہر سے اسے وقت نہ دینے کا گلہ ہی رہا۔ طاہر گھر یلو چپقلش، کاروباری مندی اور بچوں کی نامناسب تربیت کی وجہ سے بہت پریشان رہنے لگا۔ 45 سال کی عمر میں اسے دل کی تکلیف ہوئی اور چاروں وال بند ہو گئے ، بہت بڑا اور جان لیوا آپریشن (بائی پاس )  ہوا جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسکو نئی زندگی سے نوازہ ۔ مگر اس دوران اس کا کاروبار تقریبا تباہ ہو گیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ جاب سے پنشن لے لے اور ساری توجہ کاروبار پر دے۔ اس طرح اس نے جاب سے 25 سال بعد پنشن لے لی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اس سے رابطہ نہیں ہو سکا ، نہ ہی اس کے حالات کا اندازہ ہوا ۔ اپنےمسائل کی وجہ سے میں بھی رابطہ نہیں رکھ سکا ۔
عرصہ دس سال بعد میں اپنی شوگر کے چیک اپ کے لئے ہاسپیٹل گیا تو اچانک طاہر سے ملاقات ہو گئی۔ اب کا طاہر مکمل طور پر تبدیل شدہ طاہر تھا ۔ ہنسی اس کے چہرے سے بلکل غائب تھی، چہرے پر پریشانیوں اور سوچوں کی پرچائیاں تھیں، بات بات پر کہیں کھو جانا اسکی عادت بن گئی تھی ، بس وہ طاہر کی پرچھائی ہی تھی باقی طاہر ۔۔۔۔ طاہر نہ رہا تھا۔ پوچھنے پر اس نے بتایا شمائلہ کے  ڈائیلائسسز ہو رہے ہیں اس لئے ویک میں تین بار ہاسپیٹل آنا  پڑتا ہے۔ شمائلہ سے خواہش کے باوجود کوئی اولاد نہیں ہوئی۔  بڑے بیٹے کا مستقل نفسیاتی پرابلم ہو گیا ہے۔ اب اسے مہینے میں دو سے تین بار دورے پڑتے ہیں۔ کاروبار ختم ہو گیا ہے۔ بھائی اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں کبھی کبھار فون کر کے پوچھ لیتے ہیں اور بتا دیتے ہیں بھائی جان آپ گاؤں سے قریب ہیں ہم آ نہیں سکتے فلاح کام کر دیجئے گا۔  چھوٹا بیٹا اور بیٹی پڑھ رہے ہیں ۔ ہم کافی دیر بیٹے رہے چائے پی بچپن کی باتیں دہرائیں ، گاؤں کے قصے یاد کئے، ماسی رحمتے کو یاد کیا، بچپن کے معاشقے یاد کئے اور پھر اسے شمائلہ کی کال آ گئی۔ میں بھی اس کا حال پوچھنے گیا ۔ وہ بھی مریل سی ہو رہی تھی۔  مجھے لگا وہ "گردش آیام" کا شکار ہے۔ ایک پرانی سی یاماہا اس نے پارکنگ سے نکالی شمائلہ کو بٹھایا اور چل دیا۔ جانے سے پہلے وہ مجھے دبوچ کے ملا  ، ایسے جیسے پہلی اورآخری بار مل رہا ہو۔ میں حیران تھا کہ وہ بائی پاس کا مریض اور موٹرسائیکل چلا رہا ہے۔
ٹھیک دس دن کے بعد گاؤں سے اطلاح ملی کہ طاہر ، چچا فضل دین کا بیٹا رضاء الہیٰ سے وفات پا گیا ہے۔
میں ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کہ عبداللہ آ گیا اس نے کہا دادا میں آپ کی چھت پر نہیں مشعل کی چھت پر کھڑا رہوں گا ۔۔۔۔ میں مسکرایا اور اس سے پوچھا کیوں ۔۔۔ وہ بولا ۔۔۔دادا ۔۔۔ جب میں نے کہہ دیاکہ " یہ ہے"  تو پھر " یہی ہے" کیونکہ وہ میری دوست ہےاور ماما کہتی ہے دادا سے زیادہ فری نہ ہوا کرو۔
میں نے اسکو ہلکی سی چپت لگائی اور کہا بیٹا فکر نہ کر تیری بھی کہانی شروع ہو رہی ہے۔ کیونکہ کہانی ہر ایک کی اپنی اپنی ہے  ۔

تحریر: ابرار حسین گوجر


کوئی تبصرے نہیں: