جمعہ، 9 دسمبر، 2016

جو نہ سمجھے اس سے خدا سمجھے

جو نہ سمجھے اس سے خدا سمجھے

میں دیکھتا ہوں کہ بہت سارے معاملات میں ہم خود ہی مدعی، وکیل، گواہ اور منصف بن کر دوسروں کے خلاف فیصلہ سنا دیتے ہیں اور دوسرے کو صفائی پیش کرنے کی بھی مہلت نہیں دیتے، بعض اوقات ہماری پرسپشنز، ہماری سوچ، ہمارا مشاہدہ غلط ہوتا ہے اور ہم نے اسی غلط مشاہدے، پرسپشن اور مفروضہ کی بنیاد پر کسی کو سولی پر چڑھایا ہوتا ہے، کسی کی زندگی اجیرن کی ہوتی ہے اور کسی کا حقہ پانی بند کیا ہوتا ہے. مگر اس سے بات کرنا، سچ اور حق کو جاننےکی کوشش کرنا اور اپنے موقف میں لچک پیدا کرنا کبھی گوارہ نہیں کیا ہوتا. اس عادت لغو سے ہم جہاں دوسروں کے لئے مصیبت بنتے ہیں وہیں اپنی زندگی میں بھی تلخیاں پیدا کر لیتے ہیں. اسی لئے اسلام بدگمانی سے بچنے اور ہر ایک کے لئے اچھا گمان رکھنے کی تلقین کرتا ہے. 

جب ہم دوسروں کے ساتھ بات کرتے ہیں تو ان کے ساتھ تعلق کی نوعیت، رشتے، عمر، جنس اور ماحول (گھر، دفتر، مسجد یا کلب) کو خاص طور پر ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں، کیونکہ الفاظ کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سارے عوامل (لہجہ، چہرے کے تاثرات، زبان پر عبور، آئی کانٹیکٹ، جیسچر و پوسچرز اور رویہ) بات کا مفہوم ہی بدل دیتے ہیں. 
اس لئے معاملات میں حد درجہ نرمی، اخلاص اور مثبت گمان رکھنا چاہئے اگر کچھ غلط فہمی پیدا ہو جائے یا کسی کا رویہ آپ کو اچھا نہ لگے یا کسی سے وابستہ جذبات کو ٹھیس پہنچی ہو تو آپ بجائے غصے ہونے، بجائے قطعہ تعلق کرنے اور جذبات کی روح میں بہنے کے ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنے اور اس کے رویہ کا تجزیہ کریں، اس سے بات کر کے اپنے جذبات سے آگاہ کریں اور اس کی بات بھی تسلی سے سنیں، ہو سکتا ہے آپ جیسے سمجھ رہے ہوں ویسا کچھ بھی نہ ہو
.
آپ کامن سینس سے بھی صورتحال کا اندازہ لگا سکتے ہیں، جیسے
...جیسے... 
لوفر /لفنگا ہمارے معاشرے میں استعمال ہونے والا عام لفظ ہے. 

وقاص سکول سے چھٹی کر کے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے چلا گیا لیکن یہ اسکی روٹین نہیں تھی کیونکہ اسے سکول سے فوراً بعد مسجد میں سپارہ پڑھنے جانا ہوتا تھا. چونکہ آج جمعہ تھا مسجد سے چھٹی تھی اس لئے دوستوں کے اسرار پر وہ کھیلنے چلا گیا. کھیل کھیل میں اسے کافی دیر ہو گئی اور جب گھر پہنچا تو مغرب ہو رہی تھی. اس کی والدہ شدید پریشان تھیں اسے دیکھتے ہی برس پڑیں مگر جب اس نے کہا ماں میں تو روز جلدی آ جاتا ہوں آج مسجد سے چھٹی اور احمد کے کہنے پر کھیلنے چلا گیا وہاں کھیلنے کے دوران وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا اور آپ کو پریشانی ہوئی. والدہ نے جب یہ سنا تو اسے گلے لگایا میں سمجھی پتہ نہیں کدھر چلا گیا ہے "لوفر نہ ہو تو" چلو یونیفارم تبدیل کرو اور کھانا کھا لو... بھوکا پیاسا اور گلی ڈنڈا کھیل رہا ہے. گلی ڈنڈا نہیں امی کرکٹ، ہاں ہاں وہی گرگٹ ماں نے کہا. 

فہیم زمان، فلور مل سے واپس گھر آ رہے تھے کہ انکا پڑوسی مل گیا اس نے کہا یار کتنی محنت کرتے ہو تم اس وقت منہ اندھیرے گھر آ رہے ہو اور منہ اندھیرے گھر سے نکلتے ہو مگر گھر والوں کو کیا؟ 
تمہارا بیٹا وقاص بھی ابھی گھر جا رہا تھا موصوف سکول سے ہی کرکٹ کھیلنے میدان میں پہنچ جاتے ہیں. فہیم زمان کی مل مالک کے ساتھ پہلے ہی میں میں تو تو ہوئی ہوئی تھی، اس نے وقاص کے بارے میں سنا تو بہت دکھی ہوا، اسے رہ رہ کر عابدہ پر غصہ آ رہا تھا جو اس کی غیر موجودگی میں وقاص پر توجہ نہیں دیتی تھی اور اپنے گھر کے کاموں میں مصروف رہتی تھی. فہیم زمان نے گھر پہنچتے ہی وقاص کو بلایا
اور پوچھا سکول سے چھٹی کے بعد کدھر گئے تھے؟ وقاص کے منہ سے ابھی کرکٹ ہی نکلا تھا کہ اس نے زور سے تھپڑ دے مارا اور چلایا تم ماں بیٹا ہو ہی "لوفر/ لفنگے" میں سارا دن باہر بک بک کرتا ہوں کہ تمہیں کوئی تکلیف نہ ہو، تم کچھ بن جاؤ، تم کسی کی گالیاں نہ سنو مگر تم ہو کہ تعلیم پر توجہ ہی نہیں دیتے اور یہ تمہاری ماں ہے کہ جسے فرصت ہی نہیں کے اپنی اولاد کو بھی کچھ بتائے، سمجھائے... 
وقاص کی آنکھیں سرخ تھیں وہ اپنے آپ کو بہت گھٹیا محسوس کر رہا تھا کیونکہ اسے اپنی ماں کے لئے "لوفر /لفنگے" کے الفاظ ایک گالی لگے. جو اس کے لئے ناقابل برداشت بات تھی. اسکی ماں اپنے سرتاج کی طرف سے دیئے گئے اعزاز پر رنجیدہ تھی وہ سوائے رونے کے اور کچھ نہیں کر سکتی تھی. 

فہیم زمان انھیں روتا دھوتا چھوڑ کر باہر نکل گیا، اسے اور کچھ نہیں سوجھا تو تابندہ کے گھر کی راہ لی. تابندہ ہانڈی بنا رہی تھی فہیم کو دیکھا تو بولی فہیم تیرا منہ کیوں کپا ہوا ہوا ہے کیا گھر میں لڑائی کر کے آیا ہے؟
ہاں... اب کیا تم نے بھی لڑائی کرنی ہے؟ تابندہ بولی ناں بابا ناں ہم کیوں لڑیں گے تم جیسے لوفر سے؟ فہیم زمان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی کیونکہ وہ بھی اپنے لئے ان الفاظ کو اعزاز سمجھ رہا تھا.

اوپر بیان کیے گئے واقعے میں تین جگہ "لوفر" کا لفظ استعمال کیا گیا مگر دیگر ویری ایبلز کی وجہ سے ہر جگہ معانی و مطلب مختلف اخذ کیا گیا، اب آپ سوچیں... کہ اگر 
1. وقاص والدہ کے "لوفر" کہنے پر رونا دھونا شروع کر دیتا
2. عابدہ شوہر کی طرف سے  "لوفر لفنگا" کہنے پر مسکرانا شروع کر دیتی اور
3. فہیم تابندہ کے  "لوفر" کہنے پر اسے تھپڑ رسید کرتا یا ناراض ہو کر آ جاتا تو کیسی مزائقہ خیز صورتحال ہوتی؟

تحریر ابرار حسین گوجر

کوئی تبصرے نہیں: